ببلوکافی دیر سے گھر سے لا پتا تھا۔
سب پریشان ہو چکے تھے۔ظہر سے عصر کا وقت ہوا چاہتا تھا۔
ظفرشاہ صاحب نے آس پاس کے کھیل کے میدانوں تک کا چکر لگا لیا تھا۔والد ہونے
کے ناطے اُن کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ اس کی سرزنش کریں۔ مگر دھیمامزاج
ہونے کی وجہ سے وہ فی الحال غصے کی بجائے تھوڑے سے الجھ گئے تھے کہ گیارہ
سالہ ذیشان جسے سب پیار سے ببلو کہتے تھے کہاں چلا گیا ہے۔
وہ کافی ذمہ دار بچہ تھا جس نے پہلی بار ایسا کچھ کیا تھاجس کی وجہ سے سب
حیرت و سکتے میں تھے۔اقصیٰ اور ثمانہ بھی اپنے چھوٹے بھائی کی گمشدگی پر
پریشان تھیں۔کیونکہ کچھ عرصہ سے شہر میں کئی اغوا کی وارداتیں ہو چکی تھیں
اس لئے وہ دل ہی دل میں ایسا نہ ہونے کی دعائیں بھی کر رہی تھیں۔
دوسری طرف ببلو کی امی یعنی میمونہ صاحبہ نے بھی مصلیٰ بچھا لیا تھا اور
دعائیں مانگ رہی تھیں کہ اﷲ پاک اُسے جلدی سے صحیح سلامت واپس بھیج دے ،
انہوں نے کچھ رقم اﷲ کی راہ میں دینے کے لئے بھی نذر مانگ لی تھی۔
ظفرشاہ صاحب ابھی عصر کے لئے گھر سے باہر نکلے ہی تھے کہ دور سے اُن کو
ببلو خراما خراما چلتے ہوئے دکھائی دیا۔ان کے دل سے بڑا بوجھ اتر سا گیا
تھا۔
جب ببلو گھر میں داخل ہوا تو ایک طرف سے دونوں بہنیں دوڑی چلی آئیں اور
بھائی سے والہانہ لپٹ گئیں۔امی نے بھی گلے لگا یا اورپیار سے پوچھا بیٹا
اتنی دیر سے کہاں پر تھے۔کھانا کھا کر چھت پر گئے تھے تو پھر کدھر غائب ہو
گئے تھے؟
بڑی معصومیت سے ببلو نے جواب دیا’’امی جان مجھ سے غلطی ہو گئی، میں نے ایک
پتنگ کو کٹ کر ساتھ والے گھر کی چھت پر گرتے دیکھا تو لپک کر وہاں گیا مگر
ہوا کے زور پر وہ اگلے مکان کی چھت پر گئی توایک سیڑھی نظرآئی اس سے اتر تو
گیا تھا مگر واپسی کے لئے جب دیکھا تو وہاں سے غائب تھی۔ ، اس لئے اتنی دیر
ہو گئی تھی‘‘۔
اقصی نے پوچھا تو پھر کیسے واپسی ہوئی۔
ببلو بولا!’’آپی پھر میں چپ ہو کر بیٹھا گیا کہ کیا کروں پھر سمجھ آئی کہ
کسی کو پکاروں، تو پھر تعمیراتی کام کرنے والے ایک مزدورنے میری آواز سن کر
مدد کردی۔اُس نے سیڑ ھی دیوار سے لگا کرپچھلی گلی میں اترنے کا موقعہ دیا
اور یوں میں واپس گھر آگیا‘‘۔
نماز سے واپسی کے بعد ظفرشاہ صاحب نے ببلو کی پوری روداد سن کر پہلے تو
ڈانٹ دیا کہ وہ پتنگ کی خاطر اتنا خوار ہوا ہے مگر اس کی حوصلہ افزائی بھی
کی کہ اُس نے رونے دھونے کی بجائے ہمت سے کام لیا اورواپسی کے لئے ہمت و
حوصلہ سے کام لے کر بخریت واپسی کو ممکن بنایا ہے۔
ببلو نے آئندہ ایسی حرکت نہ کرنے کا وعدہ کرلیا او راپنے اسکول کے کام کو
کرنے لگا۔
پیارے بچوں!اس کہانی سے ایک تو یہ سبق ملتا ہے کہ معمولی چیزوں کے لئے خود
کو پریشان نہ کریں، اوردوسرا سبق یہ ہے کہ جو بھی حالات ہوں اُن میں حوصلہ
قائم رکھ کر اپنی سوچ کے مطابق مشکل سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ہمیشہ
سچ بولنا چاہیے ۔
|