عشق تیرے نام کیا - قسط نمبر :1

آنٹی طلال کہاں ہیں ؟ دھڑام سے دروازہ کھولتے ہوۓ نا سلام نہ دعا سیدھا مدعے کی بات پوچھتے ہوۓ اس نے کمر پہ پہ ہاتھ رکھ کر ان کا جواب سننے کیلے سانس نکالا

زرینہ بیگم جو ابھی لیٹی ہی تھیں دھڑام سے دروازہ کھلنے کی آواز پہ ڈر کر بیٹھ گی

جب بھی آنا آندھی طوفان کی طرح آنا لڑکی وہ اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر اپنی تیز ہوتی دھڑکنوں کو قابو کرتےہوۓ بولیں

طلال کہاں ہیں ؟ ان کے حالت کامزا لیتے ہوۓ پھر سے اپنا سوال دہرایا

اپنے کمرے میں ہو گا ؟

نہیں ہے تبھی تو پوچھ رہی ہوں آپ کا کڑواکینو کہاں ہے؟

تمھیں کیا کام ہے اس سے زرا بتاؤ لڑکی جانچتی نظروں سے اس کا ایکسرے کرتے ہوۓ پوچھا

کیا کام ہو گا میڈم نے پیپروں میں ہیرا پھیری کرنی ہو گی پیچھے سے گل پری کپڑوں کے تین چار سوٹ طےکیے ہوۓ الماری میں رکھتے ہوۓ بولی

نہیں جی ----کچھ کام تھا اب بتا ہی دیں اس سے پہلے طلال نے مجھے یہاں دیکھ لیا تو کچا چبا جائیں گے

تم وہ کام ہی نا کیا کرو جن سے بھائی کو غصہ آتا ہے

تم اپنے بھائی کی فضول سائیڈ نہ لو --- اب تم دونوں لڑنے مت شروع ہو جانا

کسی کام سے لاہور گیا ہے شام تک آ جاۓ گا اب جاؤ لڑکی آرام کرنے دو زرینہ بیگم دوپٹہ اپنے اوپر ڈالتے ہوۓ لیٹ گیں

یاہو---

زرینہ بیگم نے ہاتھ سے باہر کی طرف اشارہ کیا تو ہدا برا سا منہ بنا کر گل پری کو کھینچ کر باہر لے گی

تم بڑا خوش ہورہی ہو ؟بتاؤ کیا کچڑی پکا رہی ہو اپنے دماغ میں—ادھر کان لاؤ بتاتی ہوں – گل پری نے جلدی سےاپنا کان اس کےفریب کیا تو اس نے سارا پلین اسے بتایا اور پھر چہرے پہ شیطانی مسکرائٹ سجاۓ وہ دونوں اس کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں

تم لوگ یہاں بیٹھی ہو اور میں پورے کیمپس میں تم لوگوں کو ڈھونڈ کر آئی ہوں ہانیہ ایک ہی سانس میں بولتی شیزا کے ساتھ والی کرسی پہ بیٹھتے ہوۓ اس کا برگر اٹھانےلگی

ہاتھ بھی مت لگانا میرا برگر ہے شیزا اسے وارن کرتے ہوۓ میسج ٹائپ کرنے لگی

ہمنہ یار تم ہی دے دو یہ شیزا اپنی دفعہ مانگے گی تو میں پھر اسے ول کر کے دوں گی ہانیہ کی نظریں اب ہمنہ کے برگر پر تھیں --- تم خود تو کبھی کچھ لے لو مجھے بعد میں دے لینا ایک میٹھا سا طنز کرتے ہوۓ شیزا اب ساتھ بیٹھی انعم کو کہنی مار کر بولی تمھیں کیا ہوا ؟ اتنی خاموش کیوں ہو ؟ وہ چاروں ایک ساتھ ہوں اورچاروں خوش گپیاں نہ لگائیں ایسا ہو نہیں سکتا تھا –

بس ایسے ہی ---

ایسے ہی تو تم چپ نہیں رہتی بتاؤ کیا ہوا ہے ؟ ہمنہ جو اس کا اترا چہرہ دیکھ کر تفتیشی نظروں ے دیکھتے ہوۓ پوچھنے لگی

میرا پیپر اچھا نہیں ہوا اس لیے موڈ تھوڑا خراب ہے – پیپر کی کیا ٹینشن یار اس دفعہ اچھا نہیں ہوا تو کوئی بات نہیں اگلی دفعہ اچھا دے لینا--- میرا بھی اچھا نہیں ہوا انشاللہ اگلی دفعہ کلیئر کر ہی لوں گی --- مطلب تم نے ایک دفعہ پھر اردو رپیٹ کرنی ہے تینوں نے مل کر کہا تو ہمنہ نے بالوں میں ہاتھ پیھرتے ہوۓ سر اثبات میں ہلایا اور پھر ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگیں

صبر کرو بھائی جو بھی آ رہی ہوں جھاڑو صحن کے درمیان میں رکھتے ہوۓ ہاتھ جھاڑتے کھڑے ہو کر وہیں سے ہانک لگائی اور پھر کمر پہ بندھا کراس شیپ میں دوپٹہ کھولا کر گیٹ کی طرف بڑھی

کون ؟

کراۓ دار---

گیٹ کے دوسری طرف سے آواز آئی تو انا نے گیٹ کھولا تو سامنے اٹھائیس سالہ خوبرو لڑکا کندھے پہ سفری بیگ لٹکاۓ اس پانچ فٹ کی لڑکی کو دیکھنے لگا جو سر تا پیر اس کا بغور جائزہ لے رہی تھی

اگر ایکسرے کر لیا ہو تو اندر آنے کی اجازت دیں گی کندھا درد کر رہا ہے اپنا سفری بیگ کندھے سے اتار کر نیچے رکتےہوۓ بولا

ہم نے کوئی کراۓ دار نہیں رکھا کہ کر وہ دوبارہ گیٹ بند کرنے لگی جب اس خوبرو نوجوان نے اپنا ایک پاؤں درمیان میں رکھ کر گیٹ بند کرنے کی کوشش ناکام بناتے ہوۓ کہا

ایسے کیسے کوئی کراۓ دار نہیں رکھا مسٹر شاہنواز نے دو مہینے کا ایڈوانس کرایا وصول کیا ہے اس کے سر پہ بمب پھوڑتا اسےخود ہی سائیڈ پہ کرتا وہ بیگ اٹھا کر اندر داخل ہوا

کتنا اڈوانس دیا ہے پھر سے گیٹ بندکر کے اس کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ کمر پہ باندھے کھڑی ہوئی

پورے تیس ہزار ادھر ادھر نظر پورے گھر پہ دوڑاتے کہا--- اب میرا کمرا دیکھائیں وہ برآمدے میں رکھی چار پائی پہ بیٹھتے ہوۓ بولا

دیکھویہ گھر میرا ہے اور مجھے کوئی کراۓ دار نہیں رکھنا رہی بات تمھارے ایڈوانس کی تو وہ تمھیں واپس مل جاۓ گا تو بہتر ہے جس گلی سے آۓ ہو اسی گلی میں واپس نکلو

ایسے کیسے نکل جاؤں اب تو میں دو مہینے رہ کر ہی جاؤں گا

تمھیں تمھارا ایڈوانس واپس مل رہا ہے تو کیا تکلیف ہے

اچھا جائیں لے آئیں پھر چلا جاؤں گا وہ چارپائی پہ جوتے سمیت لیٹتے ہوۓ بڑے آرام سے بولا

پیر نیچے اس کی جوتوں پہ پیر مارتی وہ اسے نیچے کرنے کو بولی اسے شدید غصہ آتا تھا اگر کوئی گندے پاؤں سے چارپائی پہ چڑ جاۓ ادھر تو وہ جوتوں سمیت لیٹ گیا تھا

یا تو کمرہ دیکھائیں یا ایڈوانس واپس کریں تھکا ہوا بہت ہوں آرام بھی کرنا ہے

تم---وہ اس کے اتنے پھیلنے پہ دانت پیستی اپنی ماں کے کمرے میں گی جہاں وہ سو رہی تھیں – اماں تو سو رہی ہے انھیں کندھے سے ہلا کر کہا تو شبنم بیگم نے پہلے اسے گھورا جو ہمیشہ انھیں اٹھا کر یہی پوچھتی تھی پھر کچھ کہنے کیلے لب کھولے– یہ پوچھنے کیلے جگایا ہے نظر نہیں آتا کیا؟ کہ سو رہی ہوں –اماں میں مزاق کے موڈ میں نہین ہوں—وہ تو تم کبھی رہتی نہیں ہو---اماں اس نے دانت پیسے

کیا ہوا ہے منہ کیوں لال انگارہ ہو رہا ہے --- آپ کے نالائق بیٹے نے مجھ سے پوچھے بغیر میرے گھر میں کراۓ دار نا صرف رکھا ہے بلکہ دو مہینے کا کرایہ بھی وصول کیا ہے اب اس نالائق کو فون کریں اور اسے کہیں گھر آۓ اور جو رقم لی ہے واپس کرے ورنہ میں اسے چھوڑوں گی نہیں—

یہ تو اچھی بات ہے کیا پتا تو ان کراۓ داروں کو پسند آ جاۓ اور میں تیرےہاتھ پیلے کر دوں –اماں کراۓ دار مطلب ایک اور یہ جو میرے ہاتھ پیلے کرنے کے خواب سجائی رکھتی ہے بھول جا کبھی پورے نہیں ہوں گے

ہاۓ ہاۓ کیسے منہ سے فضول بکتی رہتی ہو – اب ایک نا ایک دن تجھے رخصت تو کرنا ہے -- ہاں مجھے رخصت کر کے اس گھر میں پھر اکیلی پڑی رہنا –اکیلی کیوں بھی شاہنواز کی دولہن آۓ گی نا – آپ کے اس نالائق بیٹے کو دے دی کسی نے بیٹی خیر یہ سب چھوڑ اور فون کر شاہ نواز کو موبائل اٹھا کر شاہ نواز کا نمبر ملا کر دیتے ہوۓ ان کے پاس بیٹھی

شاہ نواز نے پہلی بیل پہ کال اٹینڈ کی – کراۓ دار آ گیا وہ جانتا تھا ہمیشہ کال اسے اس کے کسی کارنامے کے بعد ہی کی جاتی ہے

ہاں آ گیا ہے تو بھی ایڈوانس لے کر گھر آ شبنم بیگم نے قدرے نرم لہجے میں کہا

ایڈوانس تو لگ گیا—

کیا مطلب لگ گیا شاہ نواز میں تیرے حلق سے نکلوا لوں گی انا دھاڑی تھی –یار اتنا اونچا بولتی ہوں کان کے پردے پھٹ جائیں گے میرے اب کال بند کرنے لگا ہوں مجھے نیند آ رہی ہے

تو بیٹا سامنے آ تیری نیند اچھی طرح پوری کروں گی ابھی وہ اسے مزید کچھ سناتی ٹوں ٹوں کر کے کال بند ہوئی

شاہ نواز وہ دانت پیستے غصے سے مٹھیاں بھینچ گی اب شاہ نواز صاحب نے پورا مہینہ گھر کا منہ نہیں دیکھنا تھا اور وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی

دروازہ نوک ہوا تو اس کی نظر اس لڑکے پہ پڑی – جو پھر اس سے کمرے یا ایڈوانس کا پوچھنے آیا تھا

ایک نظر تصور میں شاہنواز پہ غصے کی ڈالتی وہ کھڑی ہوئی اور پھر اسے اپنے پیچھے آنے کو کہتی بڑے بڑے قدم رکھنے لگی

نام کیا ہے تمھارا؟

میر ---

کیا کرتے ہو ؟

جاب

کونسی؟

آفیسر ہوں کالر جھاڑتے کہا

آفیسر؟ ایک نطر سر سے پاؤں تک ڈالتے طنز کیا

لگتے تو شکل سے چاۓ دینے والے ہو

ہاہاہا سچ میں – کمرے کے دروازے کے پاس کھڑے ہوتے ہوۓ کہا

سنو—یہاں رہنا ہے تو میرے مطابق رہنا ہو گا ورنہ بوریا بستر اٹھا کر چلتے بننا

محترمہ آپ مجھے بار بار جانے کی دھمکی نہیں دے سکتیں کیوںکہ آپ شاید بھول رہی ہیں میرا ایڈوانس ابھی بھی آپ کے پاس ہے

میرے ہاتھ پہ نہیں رکھتا تھا اور ہاں کھانے میں جو بنا ہو گا وہ تمھیں کھانا پڑے گا اور اگر کچھ ایکسٹرا کھانے کو دل کیا تو---

تو آپ بنا دیں گی بات کاٹتے ہوۓ کہا

جی نہیں – خود بنا لینا کہتے ہوۓ وہ لمبے لمبے ڈگ بھر کر کمرے سے نکل گی

آج جرگے میں اس کی زندگی کا فیصلہ ہونا تھا اور وہ سر جھکاۓ اپنی ماں کے ساتھ کھڑی تھی

کیسی قسمت وہ لکھوا کرلائی تھی یہ سوچ سوچ کر اس کی آنکھیں نم ہو رہی تھیں ہر انسان کو اپنی زندگی گزارنے کا اختیار ہوتا ہے پر شاید اسے یہ اختیار حاصل نہیں تھا ہاں اسے اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے کا اختیار حاصل نہیں تھا وہ بچپن سے ہی دوسروں کے مطابق زندگی گزارتے آئی تھی اس کی زندگی دوسروں کے اشاروں پہ چلتی تھی وہ اپنے لیے کوئی فیصلہ نہیں لے سکتی تھی یا یوں کہنا بہتر ہے اسے کبھی یہ حق بھی حاصل ہی نہیں تھا اگر ہوتا تو یہاں کسی اورکی غلطی پر مجرموں کے کٹھرے پہ نہ کھڑی ہوتی

سب دلاور خان کا انتظار کر رہے تھے کہ ایک کالی گاڑی وہاں آ کر رکی اور پھر اس میں سے تین لوگ باہر نکلے

دلاور خان نے ایک نظر سفیر شاہ پہ ڈالی اور پھر فاتحانہ مسکرائٹ ان کی طرف اچھالتے ہوۓ آگے بڑھے ان کے پیچھے زرغام خان اور دراب خان بھی آ کر کھڑے ہوۓ دراب کی نظر کالی چادر میں چھپے وجود پہ پڑی جوسر جھکاۓ ناجانے زمین پہ کیا ڈھونڈ رہی تھی اور پھر اپنا سر جھٹک کر وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا اسے زرا بھی شوق نہہیں تھا لیکن دلاور صاحب کے زبردستی کرنے پہ وہ پہلی دفعہ آیا تھا دلاور صاحب کا کہنا تھا کہ آگے چل کر اسے بھی فیصلے کرنے ہوں گے تو وہ دیکھ لے اور سمجھ لے لیکن اسے کہاں کسی کو زیر کرنے کا شوق تھا

ہمیں خون بہا کے بدلے خون بہا نہیں چاہیے دلاور صاحب کی آواز سفیر شاہ اور ان کے گھر والوں کے کانوں میں پڑی تو جہاں علی اور سفیر شاہ سمیت روبینہ بیگم کی سانس میں سانس آئی وہاں پریشے کو اپنی سانس نکلتی محسوس ہوئی

ہمیں بطور ونی سفیر شاہ کی لڑکی چاہیے پریشے نے سر اٹھا کر دلاور صاحب کو دیکھا ایک دفعہ پھر اسے اپنی مانگی گی دعایں بے اثر لگیں شدت سے اپنی قسمت پہ رونا آیا

تم لوگ مجھے قتل کر دو دلاور خان علی تھوڑا آگے ہوتے ہوۓ بولا اسے کہاں گنوارا تھا اپنی اکلوتی بہن کا ان خانوں کے نیچے لگنا اس نے کبھی جتایا نہیں تھا لیکن وہ اس سے محبت بہت کرتا تھا

علی---- سفیر شاہ اور روبینہ بیگم نے اس کا بازو پکڑ کر پیچھے کیا جیسے کہ رہے ہوں یہ کیا بول رہے ہو

امی مجھے قتل ہونا منظور ہے لیکن اپنی بہن کا ونی ہو کر خان حویلی جانا منظور نہیں ہے

تمھارے سامنے کھڑا ہوں دلاور خان تم مجھے قتل کر کے اپنے پوتے آریز خان کا بدلہ لے سکتے ہو اپنا بازو ماں کی گرفت سے نکالتے وہ پھر سے سینہ تان کہ کھڑا ہوا

اس کی اتنی ہمت دیکھ کر دلاور خان کے چہرے پہ مسکرائٹ آئی وہ اسے قتل کر دیتے تو شاہوں کو ہمیشہ کیلے کیسے اپنے سامنے جھکا دیکھتے انھیں زبر سے زیادہ زیر پسند تھی پھر کیسے وہ اس کے بار بار کہنے اپنا قیصلہ بدلتے وہ تو ہر حال میں شاہوں کو جھکانا چاہتے تھے

فیصلہ ہو گیا ہے علی شاہ تمھاری بہن کیلے تمھاری محبت دیکھ کر خوشی ہوئی لیکن اب تم کچھ نہیں کر سکتے

میں کیا کر سکتا ہوں اور کیا نہیں دلاور خان تمھیں ابھی اندازہ نہیں ہے وہ غصے سے دہاڑا تھا

سنبھالو سفیر شاہ اپنے بیٹے کو نئی نئی جوانی لگتا اس سے سنبھل نہیں رہی جو جوان خوان اتنے لشکارے مار رہا ہےغصے سے ایک نظر علی شاہ پہ ڈالتے ہوۓ سفیر شاہ کو مخاطب کیا جو چپ چاپ کبھی دلاور کو تو کبھی علی کو دیکھ رہے تھے

علی تجھے میری قسم چپ کر جا اس کی ماں اس کے سامنے کھڑے ہو کر روتےہوۓ بولیں—امی قتل جب میں نے کیا تو سزا بھی مجھےملنی چاہیے نا کہ میری بہن کو وہ انھیں سمجھاتے ہوۓ بولا --- علی تجھے کیوں اپنے ماں باپ کی بے بسی پہ رحم نہیں آ رہا تجھے لگتا ہے تجھے قتل کرنے کے بعدیہ خان ہماری پریشے کو چھوڑ دیں گے یہ پھر بھی لے جائیں گے جس بہن کی عزت بچانے کیلے تونے قتل کر دیا وہ تیرے بعد بھی اس کی عزت کو داغ دار کیے بنا رہیں گے اس کی ماں اسے سمجھاتے ہوۓ بولیں

تو میں اسے ان خانوں کے حوالے کر دوں---

ہاں ---

ان کے حوالے کر دو ---

اسے اپنی ماں کے دماغی حالت پہ شک ہونے لگا وہ کیسے اپنی بیٹی کو گہرے

کنویں میں پھینکنے کیلے تیار ہوگی جہاں سے وہ شاید مر کر بھی نہ نکلے

ایک نظر دلاور خان کے پیچھے کھڑے دراب خان پہ ڈالتے ہوۓ کہا

میری بہن ایک شرط پر ہی ونی ہو کر تمھاری حویلی جاۓ گی اگر تم ابھی اس کا نکاح اپنے پوتے سے کرو گے

تم اس وقت اس قابل نہیں ہو علی شاہ جو تم میرے سامنے شرطیں رکھتے پھرو رعب دار آواز میں کہا

تو ٹھیک ہے تم قتل کے بدلے قتل کرنے کو تیار نہیں اور میں اپنی بہن تم لوگوں کے حوالے کرنے کو تیار نہیں ہوں–

بات ختم تم اپنےگھر کا راستہ لو اور ہم اپنے گھر کا دراب خان تو اس اٹھائیس سالہ لڑکے کی ہمت دیکھ کر دنگ رہ گیا

تمھاری بہن ہر حال میں خان حویلی جاۓ گی دلاور خان نے چیلنج کرنے والے انداز میں کہا

ہمت ہے تو لے کر جاؤ ---

ہمت کی بات مت کر علی شاہ تجھے کھڑے کھڑے زمین میں دفن کر دوں گا اس بار زرغام خان غصے سے بولا

میں تو کہ رہا ہوں مارو مجھے لیکن تمھارا باپ ہے کہ مانتا ہی نہیں

دلاور خان نے کچھ سوچتے ہوۓ اس کی شرط منظور کر لی وہ آج ہر حال میں شاہوں کو زیر کرنا چاہتے تھے --- بڑے خان زرغام خان نے دلاور خان کی طرف دیکھا اور پھر اپنے بیٹے کی طرف جو کبھی بھی ان کی بات ماننے کو تیار نہ ہوتا

میں یہ نکاح ہر گز نہیں کروں گا دا جی دراب خان نے اپنا فیصلہ سنایا اگر تم نکاح نہیں کرو گے تو تمھارا باپ تمھاری ماں کو طلاق دے دے گا اب تمھیں اپنی ماں کی عزت کا خیال ہے توچپ چاپ ہماری بات مانو دراب خان ورنہ اپنی بوڑھی ہوتی ماں کے ماتھے پہ طلاق کا ٹیکہ سجا پاؤ گے

بابا ---دراب نے اپنے باپ کو دیکھا جنھوں نے اپنے باپ کے ہی الفاظ دہراۓ

ٹھیک ہے وہ مان گیا صرف اپنی ماں کیلے لیکن دل میں ایک عہد اس نے کیا تھا اب وہ انھیں تگنی کا ناچ نہ نچا دے سکون سے وہ نہیں بیٹھے گا اور پھر پورے گاؤں کی موجودگی میں اس کا اور پریشے کا نکاح پڑھوایا گیا وہ پریشے شاہ سے پریشے دراب خان بن گی تھی پہلے جہاں وہ شاہوں کی مالکیت تھی اب خانوں کی مالکیت بن چکی تھی اس کی آنکھوں میں ڈھیر ساری نمی جمع ہوئی اسے سب دھندلا سا نظر آنے لگا

تمھں کہا تھا نا سفیر شاہ تم سے تمھاری سب سے عزیز چیز چھین لوں گا ایک دن دیکھو آج وہ دن آ ہی گیا

اب تم ساری زندگی رو گے اپنی بیٹی کیلے اور میں تمھیں بے بس دیکھ کر خوش ہوں گا آج میں جیت گیا سفیر شاہ اور تم ہار گے کہتے ہوۓ وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلے گے

اب یہی کھڑی رہو گی کیا پریشے کا زبردستی ہاتھ پکڑتے ہوۓ دراب خان اسے اپنے گاڑی میں بیٹھا کر خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہوۓ اس نے گاڑی سٹارٹ کی

رویبنہ بیگم کو سمجھ نہیں آ رہی تھی بیٹےکیلے خوش ہوتی یا بیٹی کیلےروتی --- بیٹیاں قربانی دینے کیلے تو پیدا نہیں ہوتیں پھر انکی بیٹی کو قربانی کیلے کیوں چنا گیا یہ سوچ کر ان کی آنکھوں میں آنسو آےعلی شاہ نے اپنی ماں کو اپنے حصارمیں لیتے ہوۓ چپ کروایا جو روتے ہوۓ ہچکیاں لینے لگی تھیں

شام سےرات ہونے والی تھی لیکن طلال ابھی تک گھر نہیں آیا تھا – گل پری بھائی کو کال کرو کدھر رہ گیا ہے شام کا کہ رہاتھا رات ہو گی ہے ابھی تک نہیں آیا وہ فکرمند لہجے میں بولیں

جی امی ابھی پوچھتی ہوں زرا روٹی توے پہ ڈال لوں

گل پری طلال آئیں تو مجھے بتا دینا اس سے پہلے میری اماں کا بلاوا آۓ میں نو دو اگیارہ ہوئی

ہیں رے لڑکی تجھے کیوں طلال کی اتنی فکر ستا رہی ہے

اب مجھے فکر نہیں ہو گی توکسےہو گی زرینہ آنٹی وہ ان کے دونوں گال کھیچتے ہوۓ باہر کی طرف دوڑ لگا گی

گیٹ کھول کر وہ باہر نکلی تو سامنے سےآتے طلال کے ساتھ ٹکرا گی

اس کالے چشمے کی جان بخش کر نظر کا چشمہ لگوا لیں

میرے خیال سے تمھارے نظر کے چشمے ک نمبر بڑھانے پڑیں گے

ایک تو آپ مجھ سے ٹکراۓ ہیں اوپر سے مجھے ہی سنا رہے ہیں

پہلی بات میں تم سے نہیں ٹکرایا اور دوسری بات تم مجھے سنا رہی ہو

ہاں اور آپ جیسے مجھے س رہے ہیں

جاؤ--- میڈم پہلے دماغ خراب ہے تمھیں سننے لگا تو کہیں میری برداشت کا پیمانہ ہی ٹوٹ جاۓ

برداشت کا پیمانہ زرا سنبھال کر رکھیں اپنی کار ستانی یاد کرتے ہوۓ وہ دل میں بڑبڑائی اور پھر جلدی سے آگے بڑھ گی

میں کیوں یہاں کھڑا ہوں اسے جاتا دیکھ کر وہ خود سے بڑبڑایا اور پھر جھنجھلاتے ہوۓ اپنے گھر میں داخل ہوا

زرینہ بیگم جو اس کا انتظار کر رہی تھیں اسے دیکھ کر گل پری کو پانی لانے کیلے آواز دی

طلال نے آ کر زرینہ بیگم کا ہاتھ چوما تو زرینہ بیگم نے لیٹ آنے کی وجہ پوچھی گاڑی خراب ہو گی تھی اس لیے لیٹ ہو گیا گل پری نے پانی کا گلاس لا کر اسے تھامایا تو وہ اپنے اندر تین سانسوں میں انڈیلتے ہوۓ واپس اسے تھاما گیا

بہت بھوک لگی ہے کھانا لگا دو—میں زرا فریش ہو کر آتا ہوں گل پری سے کہتے ہوۓوہ اپنے کمرے کی طرف بڑھا

جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا تو اپنے کمرے کی بگڑی حالت دیکھ کر اس کی آنکھوں کے سامنے ایک ہی چہرا لہرایا تھا اور وہ تھا ہدا صدیقی کا---

ہدا کی بچی غصے سے مٹھی بھینچتے وہ باہر نکلا

ارے طلال کہاں جا رہے ہو ؟زرینہ بیگم اسے باہر جاتا دیکھ کر بولیں

آپ کی آندھی طوفان کو زلزلے کے جھٹکے دینے کہتے ہوۓ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا گیٹ عبور کر گیا

اسے سوں سوں کر کے روتا دیکھ کر دراب خان کو چیڑ سی ہو رہی تھی

چپ وہ اس کی طرف رخ کر کے دھاڑا تو وہ اور اونچی اونچی آواز سے رونے لگی اسے اونچا اونچا روتا دیکھ کر دراب خان کے دل کو کچھ ہوا تھا اپنی مٹھیوں کو سختی سے بھینچتے ہوۓ اس نےگاڑی ایک سائیڈ پہ روکتے ہوۓ اس کی طرف موڑا دیکھو چپ کر جاؤ میرے سر میں پہلے درد ہےاور تمھارا یہ رونا مجھے غصہ دلا رہا ہے جو تم برداشت نہیں کر سکو گی اس لیے بہتر یہی ہے تم رونا بند کرو

ممم مجھے آپ کے ساتھ نہیں جانا وہ ہچکیاں لیتے ہوۓ بولی

میرے ساتھ نہیں جانا تو کہاں جانا ہے

اپنی امی کے پاس وہ سوں سوں کرتے ہوۓ بولی

تمھاری امی نے تمھارے حق میں ایک لفظ ادا نہیں کیا اور تمھیں ان کے پاس جانا ہے وہ تم سے محبت نہیں کرتیں انھیں صرف اپنےبیٹے سے محبت ہے اس لیے تو اس کی جان بچانے کیلے انھوں نے تمھاری زندگی کی پروا نہیں کی

مجھ سے تو کوئی بھی محبت نہیں کرتا جانتی ہوں میں لیکن پھر بھی مجھے آپ کے ساتھ نہیں جانا

تمھیں اب میرے ساتھ جانا ہی پڑے گا چاہے تم رو یا ہنسو – میرا ساتھ زندگی بھر کیلے تمھارے ساتھ جڑ چکا ہے ساتھ پہ زور دیتے ہوۓ اس نے گاڑی خان حویلی کی طرف موڑی

 

Afreen Rauf
About the Author: Afreen Rauf Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.