قارئین کرام! پچھلی دو قسطوں میں کچھ اعداد و شمار آپ کو
بتائے تھے جن میں سینیٹ کے اراکین شامل نہیں تھے،سینیٹ،قومی اسمبلی اور
صوبائی اسمبلیوں کے ٹوٹل ممبران کی تعداد1171 بنتی ہے جن کی ماہانہ
تنخواہیں پینتیس کروڑ کے قریب بنتی ہیں۔ اور یہ اعداد و شمار سوشل میڈیا پر
کی جانے والی پوسٹوں کی طرح کے اعدادو شمار نہیں ہیں بلکہ یہ اعداو شمار
مکمل نیک نیتی اور ذمہ داری کے ساتھ لکھے گئے ہیں ان کی معلومات قومی
اسمبلی کی ویب سائٹ اورصوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے مصدقہ حلقوں سے سے لی
گئی ہیں۔
قارئین کرام! یہ وہ اراکین قومی اسمبلی ہیں جو کہ عوامی جلسوں اور میٹینگز
میں کہتے ہیں کہ ہم عوام کی خدمت کے لیے سیاست کر رہے ہیں، اگر عوام کی
خدمت کے لیے ہی کر رہے ہیں تو آپ لاکھوں روپے کی تنخواہ کیوں لے رہے ہیں
اگر میں بیس ہزار میں گزارا کر سکتا ہوں، اپنے بچوں کو سکول بھی بھیج سکتا
ہوں، ہسپتال سے علاج بھی کرواتا ہوں، دوستوں اور رشتہ داروں کی خوشی،غمی
میں بھی شرکت کرتا ہوں،بجلی،گیس کے بل بھی جمع کروا رہا ہوں تو آپ کیوں ڈر
رہے ہیں آپ تیس ہزار میں یہ کام کیوں نہیں کر سکتے؟
اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ یہ 1171 بندے ہمیں کہتے ہیں کہ صبر کرو ان
سے پوچھیں کیا آپ بھی ہمارے ساتھ صبر کر لیں گئے؟،ہم تواپنے ملک کی خاطر
صبر کر لیں گئے۔ کیا تحریک انصاف کے کارکن ان تنخواہوں کا بھی دفاع کریں
گئے یا جرات کر کے وزیر اعظم صاحب اور وزراء کو بتائیں گے کہ عوام صبر کرنے
کے لیے تیار ہے اگر آپ کی تنخواہیں اور ہماری تنخواہیں معیشت کے درست ہونے
اور قرضے اترنے تک ایک جیسی رہیں۔ اگر ہم پندرہ ہزار ماہانہ میں گزارہ کر
رہے ہیں اور صبر بھی کریں گئے تو آپ پندرہ کے بجائے تیس ہزار ماہانہ میں
گزارہ کریں اور ہمارے ساتھ آپ بھی صبر کریں اس طرح صرف اراکین اسمبلی کی
تنخواہوں سے ماہانہ تیس کروڑ اور سالانہ تین ارب روپے سے زائد قومی خزانے
کو فائدہ ہو گا میں گارنٹی سے کہتا ہوں اگر اراکین اسمبلی،وزراء اور وفاقی
سیکرٹریز سینکڑوں کی تعداد میں ججز،فوجی افسران اور ہزاروں بیوروکریٹس کی
تنخواہ عام عوام کے برابر کر دی جائے اور عوام کی طرح کفایت شعاری کی جائے
تو نا صرف ماہانہ اربوں روپے قومی خزانے میں جمع ہوں گئے بلکہ عوام آپ کے
ساتھ صبر کرے گی اس کے بعد بھی عوام صبر نہ کرے تو اس عوام کے ساتھ اس سے
بھی برا ہونا چاہیے۔
اور ہاں اگر حکمران اور سیاستدان اپنی تنخواہیں اس سے کم نہیں کر سکتے اور
اپنی عیاشیوں پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے تو ان کو بھی کوئی حق نہیں پہنچتا کہ
وہ خود پانچ لاکھ کی مراعات حاصل کر رہے ہیں اور بیس ہزار والے مزدور کو
بولیں کہ ”میرے پاکستانیو! گھبرانا نہیں پاکستان کی تباہی کے ذمہ دار پچھلے
حکمران ہیں اب ہماری حکومت ہے تو صبر کریں“ اور حکومتی جماعت کے کارکنوں کو
بھی چاہیے کہ خدارا! صرف عوام کو ہی صبر کا درس نہ دیں بلکہ کھلے دل اور
کھلے دماغ سے سوچیں کہ حکومت چاہے کسی کی بھی ہو کیا ان کی تنخواہیں عام
عوام کے برابر نہیں ہونی چاہیے؟ اگر آپ سوچتے ہیں کہ ان کی تنخواہ کم ہو گی
تو ان کے لیے مشکل ہو گی تو سوچیں اگر ہم مشکل حالات میں گزارہ کر رہے ہیں
تو وہ بھی کر یں پاکستان ہم سب کے لیے ایک جیسا نہیں؟اگر ہم معیشت کی بہتری
چاہتے ہیں تو کیا ہمارے حکمران محب وطن نہیں؟ اور اگر حکمران یہ سوچتے ہیں
کہ ہم ماہانہ لاکھوں کی مراعات بھی لیں گئے،ہسپتالوں میں علاج بھی فری
کروائیں گئے، جہازوں میں سفر بھی فری کریں گئے، بجلی اور گیس بھی فری میں
استعمال کریں گئے، ٹیلیفون کا بل بھی قومی خزانے سے لیں گئے،سیر سپاٹے بھی
سرکاری پٹرول پر کریں گئے اور پھر عوام کو صبر کا درس دیں گئے تو یہ ان کی
بھول ہے عوام کبھی آپ کی بات پر عمل نہیں کریں گئے۔ دوسری صورت میں عوام آپ
کا ہر طرح سے ساتھ بھی دے گی اور بھوکے پیٹ بھی صبر کرنے کے لیے تیار ہوں
گئے اور ایسے لیڈر اور حکمران کو ایک پارٹی نہیں بلکہ ایک قوم اور ایک
تاریخ یاد رکھتی ہے،لہٰذا قدم بڑھائیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ |