جو لوگ پی ٹی ایم کو مظلوم گردانتے اور ان کے مطالبات کو
جائز قرار دیکر ان سے اظہار ہمدردی جتاتے تھکتے نہیں تھے ان کو چاھیے کہ اس
ویڈیو کو دیکھیں اور اس کے بعد یا تو اپنی کم عقلی اور کم مائیگی پر قوم سے
معافی مانگیں یا پھر صحافت اور دانشور ی کے مقدس منصب سے کنارہ کش ہو جائیں
اور گمنامی کی زندگی گزارتے ہوئے ذلت کی موت مریں ۔ ھماری ریاستی اور
ریاستی اداروں کی کمزوریاں اپنی جگہ ان کا انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن ان
کمزوریوں کی نیک نیتی سے نشاندھی کرنا اور اصلاح کے لئے آواز اٹھانا ایک
الگ اور احسن بات ھے ، جبکہ دشمن کی طرف سے انھی کمزوریوں کو اچھالا جانا
اور پھر ان کا ناجائز فائدہ اٹھا کر شیطانی منصوبہ بنانا اور پھر ھمارے
لوگوں کا اس منصوبے کا حصہ بن جانا یا تو بسبب جھالت ھے یا پھر جانتے
بوجھتے ھوئے وطن سے غداری ھے ۔ دانشمندی چالاک اور عیار دشمن کی گہری چالوں
کو سمجھنا اور اس کا بروقت سدباب کرنے کا نام ہوتی ہے ۔ اسلامی تاریخ غداری
کی کرداروں سے بھری پڑی ہے اور اسکی بڑی وجہ اسلام کی زندہ حقیقت اور کفار
کا جذبہ جہاد سے سرشار مسلمان سے مقابلہ نہ کرنے کی سکت ھے ۔ دشمن جانتا ہے
کہ جان کو قربان کرنا مسلمانوں کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے اور یہ ہی
ایک مسئلہ ان سے حل نہیں ہو پا رہا لہذا دشمن کی طرف سے ہمیشہ سے ایسے
کرداروں کو تیار کیا جاتا رہا اور پھر ان کے ذریعے مسلم اقتدار کو اندر سے
کمزور کر کے ختم کیا جاتا رھا ۔ آج ہمیں انھی حالت کا سامنا ہے ۔ عالم
اسلام ایک طرف تو علمی ، فکری ، معاشی ، معاشرتی اور اخلاقی زوال و انحطاط
کا شکار تو ہے ھی دوسری طرف اسکی عسکری و دفاعی قوت کا تو سرے سے وجود ہی
نہیں ۔ رہ سہہ کہ ایک پاکستان ہے جہاں برائیاں خرابیاں اپنی جگہ مگر اسلام
کے ساتھ ایک جذباتی وابستگی اور کٹ مرنے کا جذبہ نظر آتا ہے اسکے علاوہ ایک
پروفیشنل منظم فوج اور اسکے ساتھ ایٹمی صلاحیت بھی ۔ افغانستان ، عراق ،
لیبیا، شام ، مصر اور بے شمار اسلامی مراکز کو کمزور یا تباہ کرنے کے بعد
دشمن کا اگلا ھدف پاکستان ھے ۔ اب چونکہ یہ ایک ایٹمی ملک بھی ھے اور پھر
اب چائنہ کی شراکت داری اسے دفاعی طور پر و ھاں کھڑا کرتی ہے کہ پاکستان پر
کوئی ڈائریکٹ حملہ نہیں کرے گا ۔ تو پھر دشمن اس کو ختم کرنے تباہ و برباد
کرنے کے لئے کیا کریگا ؟؟ یہی آج ہمیں سمجنھے اور پھر بحیثیت قوم اس کے لئے
متحد ہو کر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان کے خلاف بہت عرصہ سے ففتھ
جنریشن وار پوری تیاری اور قوت سے لڑی جا رھی ہے ۔ یہ ایک ایسی جنگ ھے جو
میدان جنگ میں نہیں لڑی جاتی بلکہ دشمن ملک کے اندر لڑی جاتی ھے اور اسے
اندرونی عدم استحکام کا شکار کر کے مطلوب حدف حاصل کیا جاتا ہے۔ پاکستان کو
کمزور کرنے اور اس کو کئی حصوں میں تقسیم کر کے اسکے دفاعی و ایٹمی اثاثوں
پر قبضہ کرنے کی غرض سے پچھلے کئی سالوں سے یہ جنگ پاکستان پر مسلط یے ۔
کئی بے ضمیر صحافی ، دیں فرو ش ملاں ، کرپٹ سیاستدان اور معاشرے کے ھر طبقہ
سے تعلق رکھنے والے منظور پشتین جیسے وطن و ملت فروش خرید ے گئے ان کی
تربیت کی گئی اور وہ اپنے اپنے مشن پر مکمل جانفشنی سے کام کر رہے ہیں ۔
ٹارگٹ ہے پاکستان کو کمزور سے کمزور تر کرنا اور پھر اس واحد ایٹمی قوت کو
دنیا کے نقشے سے مٹا دینا۔ دوستو یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ " و مکر و
و مکراللہ واللہ خیرالماکرین " کے اصول کے تحت ایک شیطانی منصوبہ جبکہ اس
کے متوازی ایک رحمانی منصوبہ بھی چل رہا ہوتا ہے ۔ اللہ کریم کی شان بے
نیازی اور قدرت کا چھوٹا سا نظارہ کہ جب فرعون ھر گھر سے بچوں کو قتل
کرواتا ھے تو وہ مالک ملک رب ذوالجلال اسی فرعون کے گھر میں موسی کی پرورش
اور دیکھ بھال کا انتظام کر کے ھر دور کے فرعون کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ
دیکھو و مکر و و مکراللہ ۔۔۔ ایک تمہاری تدبیر ہے اور ایک میری تدبیر ۔
دیکھو ناں !!! میں اسی فرعون کے گھر میں تمہیں اپنے موسی کی پرورش کا
انتظام کر کہ دکھاتا ہوں ۔ دیکھو اور سمجھو اور جان لو ان اللہ علی کل شئ
قدیر ۔ دیکھو میں ھر چیز پر قادر ہوں مجھے چیلنج نہ کرو ۔ پاکستان جو ہمیشہ
USA کے کیمپ میں رھا USA سے امداد لیتا رھا اور اسی امداد سے اپنی عسکری و
دفاعی قوت کو مضبوط بھی کرتا رہا اور ایک ناممکن کام یعنی ایٹم بم بھی بنا
ڈالا ۔ یعنی یہ کہنا بالکل بجا ہو گا کہ یہ سب کچھ امریکہ کی آشیرباد اور
اس کے کیمپ میں رھتے ھوئے اسکی چھتری کے نیچے ھوا ۔یہ ہے قدرت کا منصوبہ ۔
دوسری طرف اگر نظر دوڑائیں تو عالمی حالات نے پلٹا کھانا شروع کیا اور ایک
طویل مدتی unipolar امریکن بالا دستی کے خلاف نئی صف بندیاں شروع ھو ئیں
اور دنیا unipolarity سے نکل کر multipolarity کی طرف چل پڑی ۔ اسوقت طاقت
کا ایک نیا پول چائنہ کی سربراھی میں سامنے آچکا ۔ Belt & road initiative
دراصل اس کا اعلان اور اس کا عملی اظہار ہے ۔ یہ بات بہر حال ایک اتفاق
نہیں ہو سکتی کہ دنیا جب Bipolar تھی تو بھی دنیا کے لئے پاکستان اھم تھا
اور پھر unipolar world میں جب امریکہ اکیلا دنیا پر حکومت کرنے لگا تو اسے
پاکستان کی سٹریٹجک پارٹنر شپ کی ضرورت پیش آئی اور آج جب طاقت کا ایک نیا
پول بنا تو پاکستان پھر اھم ٹھہرا اور BRI پروجیکٹ کا فلیگ شپ پروجیکٹ CPEC
کو ڈکلیئر کرنا پڑا جو کہ مکمل طور پر پاکستان میں ھے ۔ آج پھر پاکستان
اپنے جغرافیے کی وجہ سے چین کی مجبوری بن گیا اور چین جیسا مفاد پرست ملک
بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے اور پاکستان سے دوستی کرنے پر مجبور ھوا۔
یعنی پاکستان آج پھر عالمی سیاست میں ایک انتہائی اہم حیثیت اختیار کر چکا
ہے ۔ دوسری طرف یہ اصول بھی مسلمہ کہ کفر کی حکومت تو چل سکتی مگر ظلم کی
حکومت نہیں ۔۔۔۔۔ اور امریکہ کے مظالم اور ناانصافیاں بھی اپنے عروج پر ھیں
۔ اسلامی حکومت کی سطوت بھی اسی وقت تک قائم رھی تھی کہ جب تک مسلم حکمران
انصاف پر قائم تھے۔ انصاف ختم ھوا تو مسلم دور حکومت بھی لپیٹ دیا گیا ۔
کیونکہ انصاف اقتدار کے قیام کی شرط ہے چاھے وہ اقتدار مسلمانوں کے پاس ہو
یا پھر غیر مسلم قوتوں کے پاس۔ یہاں ہمیں ایک بات سمجھنی بہت ضروری ہے کہ
امریکہ اسوقت اپنے survival کی جنگ لڑ رھا ھے ۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد
امریکہ نے جو عالمی مالیاتی نظام تشکیل دیا اور جس طرح عالمی وسائل پر اپنا
تسلط جمایا وہ تسلط بہرحال اب کمزور ھونا شروع ہو چکا ہے ۔ڈالر کی بالادستی
کو مسلسل چیلنج کیا جا رھا ھے ۔ چائنہ کی غیر معمولی معاشی ترقی اور اس کا
روس اور دیگر علاقائی و عالمی طاقتوں کے ساتھ معا شی و دفاعی شراکت داری
کرنا امریکہ کی نیندیں پہلے ہی اڑا چکا۔ چائنہ کے اس سارے منصوبے میں چونکہ
CPEC مرکزی حیثیت کا حامل ہے اور اسے فلیگ شپ پروجیکٹ کا درجہ بھی دیا گیا
اور دوسری طرف اسکی کامیابی میں پاکستان کی ترقی بھی نظر آدھی ہے لہذا یہ
بات سمجنھے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاھیے کہ پاکستان طاقت کے اس کھیل
میں مرکزی کیوں ھو گا اور امریکہ کا اگلا ھدف کیوں ہو گا ۔ ؟ ان حالات کے
تناظر میں اب ھمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہمارا لائحہ عمل کیا ھونا چاھیے؟ ۔ یہ
بات تو سمجھ میں آگئی کہ اس سارے کھیل میں پاکستان کی حیثیت مسلمہ ہے اور
پھر یہ بھی سمجھ میں آگیا کہ ایٹمی صلاحیت اور چائنہ کی شراکت کے سبب
پاکستان پر ڈائریکٹ اٹیک نہیں کیا جائیگا ۔ لیکن چائنہ کو پیچھے دھکیلنے
اور پاکستان کو آگے بڑھنے سے روکنے کی غرض سے پاکستان کو کسی صورت میں
چھوڑا بھی نہیں جائیگا ۔ لہذا پاکستان پر ان کے اٹیک کی ایک ھی صورت باقی
رھتی ہے اور وہ ہے پاکستان کو داخلی طور پر کمزور کرنا۔ پاکستان میں
علیحدگی کی تحریکوں کو جنم دینا ۔ پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دینا ۔
سیاستدانوں کو لڑاتے رھنا جس سے ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہے اور IMF
کے ذریعے معاشی شکنجے کو اور مظبوط کرنا ۔ مہنگائی کے ذریعے عوام کو بے بس
و لاچار بنانا اور زر خرید دانشوروں اور صحافیوں کے ذریعے قوم کو بددل اور
مایوس کر دینا اور پھر ان سارے عوامل کے ساتھ اس ملک کو اسکی بنیادوں کو
کھوکھلا کرنا اور پھر اس کے وفاق کو کمزور کر کے اس کو کئی حصوں میں تقسیم
کر دینا۔ یہ ہے مکمل منصوبہ ۔ سوال یہ ہے کہ ہمیں اس خے خلاف کیا کرنا ہے
تاکہ دشمن کا یہ منصوبہ ناکام ہو۔ ہمیں پہلے اس کو سمجھنا اور پھر اس سے
مقابلے کے لئے تیار ہونا ہے ۔ ہمیں اپنے ملک کی افواج کے ساتھ اپنی محبت و
وفا داری کا رشتہ قائم رکھنا ہے ۔ اس ملک میں ھر محکمے اور ادارے میں کرپشن
ہے لہذا یہ فوج میں بھی ھو سکتی ہے کوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔ لیکن فوج میں
احتساب کیا جاتا ہے اور اس عمل کو مزید بہتر ہونا چاھئیے لیکن ایسا نہیں کہ
ھم گنتی کی چند آفیسرز کی کرپشن کا داغ فوج کے ماتھے پر سجا کر پوری فوج کو
مورد الزام ٹھرا دیں اور فوج اور عوام کے محبت کے رشتے کو کمزور کر کے فوج
کے مورال کو ڈاوءن کر دیں۔ نہیں ھر گز نہیں ۔ فوج کی سیاست میں مداخلت نہیں
ہونی چاھئیے بالکل اتفاق کرتے ہیں لیکن سیاستدانوں کے حالات ان کی کرپشن
اور ناا ھلی ھی تو اس کا موجب بنتی ہے ۔ ھمیں بحیثیت قوم اس ذمہ داری کو
بھی ادا کرنا ہے کہ ھم قابل ایماندار مخلص اور وفادار سیاسی قیادت کو منتخب
کریں ۔ یقین مانیں جوں جوں ہماری سیاست ان گندے کرداروں سے پاک ہونا شروع
ھو جائیگی خو بخود فوج کا کردار کم ھونا شروع ھو جائے گا ۔ دوستو آج ہمیں
دشمن کی جنگی چالوں کو سمجھ جانے کے بعد ملکی دفاع کے لئے خود سینہ سپر
ہونا پڑے گا ۔ اپنے وطن اپنی آزادی کے لئے ھر پاکستانی کو سپاہی بننا پڑے
گا اور دشمن کے پروپیگنڈے کا موثر و مدلل جواب دینا ھو گا ۔ ہمیں یہ عھد
کرنا ہے کہ ہم کسی طور پر اپنی افواج اور اپنی نظریاتی اساسوں کے خلاف کسی
کو ہرزہ سرائی کی اجازت نہیں دیں گے اور ایک مٹھی کی طرح متحد ہو کر اس
پاکستان کی نہ صرف حفاظت کریں گے بلکہ اس مملکت خداداد کو ایک عظیم اسلام
فلاحی ریاست بنائیں گے ۔ اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو۔ دعاؤں کا طالب ۔
اظہر محمود اعوان
|