عالمی ملکہ حسن کا تاج اپنے سر پر سجانے والی ایشوریہ
رائے کی کبھی کسی جگہ کہی ہوئی ایک بات ہمیں بہت اچھی لگی تھی کہ ہندوستان
میں مجھ سے کہیں زیادہ حسین خواتین موجود ہیں مگر مجھے مواقع میسر آئے ۔
یعنی انہوں نے کھلے دل کے ساتھ تسلیم کیا کہ وہ حسن کُل نہیں ہیں اور ان کی
کامیابی میں قسمت کا بھی بہت دخل ہے ۔ ویسے بھی اس مقابلے میں اول آنے کے
کچھ معیارات ہیں جن میں صرف چہرے کا حسن شرط نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عام
زندگی میں بہت سی صورتوں کو دیکھ کر بےاختیار حسینہء عالم کے درجے پر فائز
ہونے والی اکثر ہی سانولی سلونی نکٹی چپٹی معمولی نقوش والی خواتین کا خیال
ذہن میں آ جاتا ہے ۔ جن کی قسمت نے ان کا ساتھ دیا اور دولت و شہرت ان کا
مقدر بنی ۔ ورنہ تو خود ہم نے انتہائی حسین و جمیل بلکہ بلا مبالغہ کوئی
آسمان سے اتری ہوئی اپسراؤں جیسی عورتوں کو کھیتوں میں کام کرتے ہوئے اور
تندور پر روٹیاں لگاتے ہوئے دیکھا ہے ۔ بےانتہاء ٹیلنٹ اور ذہانت کو کوئی
سرپرستی نصیب نہ ہونے کے باعث خاک میں ملتے ہوئے بھی دیکھا ہے ۔ لیکن بات
اگر اخلاقی اقدار کے ساتھ ساتھ مذہبی روایات کی بھی ہو تو کسی کا اپنی کسی
خصوصیت کی بناء پر حاصل ہونے والے مواقع کی قربانی دے دینا یقیناً قابل
ستائش ہے نہ کہ لائق افسوس ۔
۹۰ء کے اوائل کی بات ہے کراچی میں ہماری خالہ کی سسرال میں کوئی شادی تھی
جس کی مایوں مہندی وغیرہ کی بھی تقریب میں ہمیں شریک ہونے کا اتفاق ہؤا ۔
رسومات وغیرہ کے بعد رات کو خواتین کی محفل جمی اور ڈھولک اور گانا بجانا
وغیرہ شروع ہؤا ۔ وہیں اسی خاندان کی ایک بہو تھی بہت پیاری سی گوری نازک
سی اگرچہ عمر درمیانی کے قریب ہوگی ۔ معلوم ہؤا کہ ہوبہو لتا منگیشکر کی سی
آواز میں گاتی ہے پھر اس نے لتا کے بہت سارے مشہور گانے گائے جن میں کچھ
المیہ بھی تھے ۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ لتا نہیں کوئی اور گا رہی ہے ۔
شاید میڈم لتا بھی اسے خود سنتیں تو حیران رہ جاتیں ۔
ہم نے کہا کہ ان کو تو ریڈیو اور ٹی وی وغیرہ پر ضرور آنا چاہیئے تو معلوم
ہؤا کہ ان کی آواز کے چرچے کسی طرح ریڈیو اور ٹی وی تو کیا فلم والوں تک
بھی جا پہنچے تھے اور ان سے کسی طور رابطہ کر کے انہیں گانے کے لئے آمادہ
کرنے کی کوشش کی جاتی رہی تھی مگر وہ راضی نہیں ہوتی تھیں ۔ وہ ایک پٹھان
پردے دار مذہبی فیملی سے تعلق رکھتی تھیں خاندان میں ہونے والی شادی بیاہ
کی تقریبات میں گا لینا اور بات تھی مگر شوبز میں آ کر پبلک کے لئے گانے کا
تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ محافلِ میلاد میں نعتیں بھی پڑھا کرتی
تھیں مگر میڈیا کے لئے اس کی بھی اجازت نہیں تھی انہیں ۔ بس سب کچھ گھر کے
اندر چاردیواری میں جس سے انہوں نے کبھی بغاوت نہیں کی ۔
آجکل بہت سی بےڈھنگی اور بےسُری آوازوں کو ہم پیسے اور ٹیکنالوجی کے طفیل
منظر عام پر اپنی جگہ بناتے اور پذیرائی پاتے دیکھتے ہیں تو بےاختیار وہ
خاتون یاد آ جاتی ہیں جو حسن صورت اور سُر کی دولت سے مالامال تھیں اور اس
دور کی بہت سی گائیکاؤں سے کہیں زیادہ با صلاحیت تھیں بلکہ ہوبہو لتا جیسی
آواز کی مالک تھیں لتا شہرت و مقبولیت کے بام عروج پر پہنچیں تاریخ میں
اپنا نام لکھوا لیا مگر وہ خاتون گمنام رہیں ۔ اللہ کی رضا کے لئے انہوں نے
اپنی زندگی میں آنے والے مواقع کو جس طرح ٹھکرایا اس سے انہیں آخرت میں
یقیناً ایک بلند مقام حاصل ہؤا ہو گا (رعنا تبسم پاشا) |