الیکٹرانک میڈیا ریٹنگ کے جنون میں مبتلا

سوشل میڈیا پر اکثر ہی ایسی دردناک تصویریں نظر سے گذرتی ہیں جنہیں دیکھ کر دل اور آنکھیں دونوں ایک ساتھ بھر آتے ہیں ۔ کہیں کوئی بہت چھوٹا سا غریب بچہ یا بچی سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے سڑک کے کنارے ابلے ہوئے انڈے فروخت کر رہے ہیں یا کوئی ننھا بچہ خود اپنے حجم سے کئی گنا بڑا پتیلا مانجھ رہا ہے ۔ بوڑھی عورت ٹریفک سگنل پر گاڑی کا شیشہ صاف کر رہی ہے تو کہیں کوئی ضعیف العمر اپنا پیٹ پالنے کے لئے تولئے فروخت کر رہی ہے یا سبزی بیچ رہی ہے ۔ ایک بہت ہی بوڑھا آدمی گدھے گاڑی میں گدھے کی جگہ خود جتا ہؤا ہے یا کوئی اپنے وزن سے بھی کئی گنا زیادہ بوجھ اپنی کمر پر لادے ہوئے ہے ۔

ایک بہت چھوٹے بہت پیارے سے غریب بچے کی وڈیو ہے جس میں وہ دھول مٹی میں اٹا ہؤا پھٹے پرانے کپڑوں میں اور ننگے پیر حمد سنا رہا ہے اپنے مالک کا میں نام لے کر بزم کی ابتداء کر رہا ہوں ۔ اتنی پرسوز آواز کہ سن کر آنکھیں نم ہوئے بغیر نہ رہ سکیں ۔ اور اسی نوع کی اور بھی بہت سی تصویریں اور وڈیوز وغیرہ ۔ کیا آپ نے کبھی دیکھا یا سنا کہ ان پوسٹوں کو دیکھ کر کبھی کوئی ٹی وی چینل والے ان مجبور مگر با ہمت اور ٹیلنٹڈ لوگوں کی کھوج لگا کر کسی طرح ان تک پہنچے ہوں انہیں اپنے پروگرام میں لا کر بٹھایا ہو ان کی مالی امداد کی ہو ۔ مگر کوئی گانے بجانے والی لڑکیاں ہوں یا گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والیاں یا کوئی تیز طرار شرارتی بچہ یہ مراثی میڈیا لاکھ جتن کر کے کسی دور افتادہ گاؤں دیہات تک بھی پہنچ جاتا ہے اور شہر کی گندی غلیظ گلیوں میں گٹر کے پانی میں چھینٹے اڑاتا ہؤا ، ان پڑھ پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے گا بجا کر اپنا پیٹ پالنے والے ٹٹ پونجیوں کے بھی در پر خود کسی بھکاری کی طرح پہنچ جاتا ہے ۔ اور پھر انہیں ایسے پروموٹ کیا جاتا ہے جیسے انہوں نے ملک و قوم کی کوئی بہت بڑی خدمت کر دی ہو ۔ ایسی ہی پذیرائی کسی غریب تباہ حال نعت خواں یا قاری بچے یا محنت کش ہنر مند بچے کو کیوں نہیں بخشی جاتی؟

مگر ریٹنگ کی دوڑ میں اندھے جنونی میڈیا کو اپنے دجالی آقاؤں کا نمک حلال کرنا ہوتا ہے اسی لئے یہ سب سے پہلے لڑکیوں کے سر سے دوپٹہ اتروا دیتے ہیں پھر کچھ عرصہ تک انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے اور ان کی طرف سے کوئی اوریجنل کام یا حقیقی ٹیلنٹ سامنے نہیں آتا لہٰذا وہ وقت کی دھول میں گم ہو جاتی ہیں ۔ جیسے کہ وہ چائے والا لڑکا گمنام ہؤا اسی میڈیا اور ماڈلنگ کے مداریوں نے ایک غریب مگر شریف عزت دار گھرانے کے سیدھے سادے لڑکے کو عزت اور حلال کی روزی سے ہٹا کر کنجر پنے پر لگایا اور اپنے کاروباری مقاصد پورے کر لینے کے بعد اسے کھڈے لائن لگا دیا ۔ صرف آنکھیں ہی ٹیلنٹ کا معیار ہوتیں تو اس کے عروج کا عرصہ اتنا بھی مختصر نہ ہوتا ۔ لیکن تقریباً تین سال تک لا پتہ رہنے کے بعد چند ماہ قبل وہ پھر سے منظر عام پر آیا ہے اپنے کچھ نئے پروجیکٹس اور عزائم کے ساتھ اور پہلے کے مقابلے میں خاصا پر اعتماد نظر آتا ہے ۔ اور شوبز میں اس کی دوبارہ سے آمد اور آؤ بھگت میں بجا طور پر میڈیا اور ماڈلنگ مافیا کا مفاد وابستہ ہے ۔ اب یہی میڈیا ایسے ہی ایک غریب دیہاتی گھرانے کے ننھے معصوم سے بچے کا تماشہ لگا کر اسے کیش کرا رہا ہے اسے طیش دلا کر بدتمیزی پر مجبور کر کے عوام کو کون سی تفریح فراہم کی گئی ۔ اور تفریح ہی کے نام پر جن خرافات کی روایت ڈال دی گئی ہے ان کا سلسلہ رمضان ٹرانسمیشن میں تک موقوف نہیں ہوتا (رعنا تبسم پاشا)

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 228 Articles with 1854577 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.