تین تین عیدیں

اسلامی جموریہ پاکستان میں ہر سال کی طرح اس سال یعنی 2019 میں دو عیدیں وہ بھی سرکاری طور پر منانے کا اعلان صرف ہمارے لیے لمحہ فکریہ نہیں بلکہ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ عید الفطر ہو یا رمضان المبارک علماء کرام قرآن و حدیث کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ شرعی شہادتیں ( چاند دیکھنا ) پر منحصر ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ رویت ہلال کمیٹی پاکستان ملک کی وفاقی حکومت کی قائم کردہ ایک کمیٹی ہے۔ اس کے مقاصدمیں یہ بات شامل ہیں کہ ہر ماہ چاند نظر آنے یا نہ آنے کا اعلان کرنا ہے۔ اس کمیٹی کے موجودہ چیئر مین مفتی منیب الرحمان ہیں۔ حکومت پاکستان کی قائم کردہ صوبائی اورمرکزی رویت ہلال کمیٹیوں میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ محکمہ موسمیات،نیوی اور سپارکوکے نمائندے بھی فنی معاونت کے لیے ہراجلاس میں موجودہوتے ہیں اور پھر متفقہ رائے کی روشنی میں اور ارکان کی موجودگی میں چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی چاند کی رویت یا عدم رویت کااعلان کرتے ہیں۔ رویت ہلال سے متعلق جو فیصلہ اور اعلان کیاجاتا ہے وہ ارکان کے اتفاق رائے سے ہوتاہے اور اس فیصلے پر ارکان کے دستخط بھی ہوتے ہیں۔ایسے حالات میں کوئی بھی عام شخص بلا روزہ کو یا عید کو آگئے پیچھے کیسے کر سکتا ہے؟ صرف فرد واحد نہیں بلکہ پوری رویت ہلال کمیٹی متفق ہوتی ہے۔اس سال 2019 میں پاکستان میں ہر برس کی طرح اس بار بھی رمضان کے چاند پر اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا تھا۔سرکاری رویتِ ہلال کمیٹی نے منگل 7 مئی سے رمضان المبارک کے آغاز کا اعلان کیا وہیں پشاور کی قاسم جان مسجد کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے 22 شہادتوں کی بنیاد پر پیر 6 مئی کو پہلا روزہ رکھنے کو کہا۔

رمضان کے آغاز سے قبل ہی پاکستان میں رویتِ ہلال کے معاملے پر بحث اس وقت شروع ہوئی تھی جب وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی چوہدری فواد حسین نے اپنی ایک ٹویٹ کے ذریعے اعلان کیا کہ اب اس کا تعین ایک پانچ رکنی کمیٹی کرے گی۔

وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی چوہدری فواد حسین نے یہ بھی بتایا تھا کہ ’یہ کمیٹی رمضان، عیدین اور محرم کے چاندوں کے اعلان سمیت دیگر اہم تاریخوں کا کیلنڈر جاری کرے گی اور اس سے ہر سال پیدا ہونے والا تنازع ختم ہو گا۔‘

وفاقی وزارتِ سائنس اور ٹیکنالوجی کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن کے مطابق مستقبل میں رویتِ ہلال کے تعین کے لیے ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو یہ کام پانچ برس تک کرے گی۔اس پانچ رکنی کمیٹی کا کنوینر وزارتِ سائنس اور ٹیکنالوجی کے سائنسی مشیر کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر ارکان میں محکمہ موسمیات کے تین جبکہ سپارکو کا ایک نمائندہ شامل ہے۔جب کہ اس کمیٹی میں کوئی بھی مذہبی نمائندہ شامل نہیں۔ یہی وجہ ہے علماء کرام نے قرآن و حدیث کی روشنی میں شرعی شہادتوں کی روشنی میں عید کا اعلان کرنا تھا جبکہ حسب روایت پشاور کی قاسم جان مسجد کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے 22 شہادتوں کی بنیاد پر آج مورخہ 4 مئی بروز منگلوار عید منانے کا اعلان کر دیا ہے۔ جس کا باقاعدہ اعلان صوبائی حکومت نے شہادتوں کی بنا پر اظہار یکجہتی کے لئے کیا ہے
سوال پیدا ہوتا ہے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلوں کو کیوں مشکوک بنایا جاتا ہے حالانہ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی چوہدری فواد حسین نے پانچ سالہ کلینڈر جو سائنسی بنیادوں پر بنوایا ہے اس سے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلہ یکم رمضان 7 مئی کو درست مانا گیا ہے ۔ اسی سائنسی کمٹی کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ کمیٹی کے چیئر مین مفتی ِ اعظم مفتی منیب الرحمان کی صدارت میں ہونے والے تمام فیصلے شرعی اور سائنسی اعتبار سے درست ہیں ۔ دوسری جانب پشاور کی قاسم جان مسجد کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے 22 شہادتوں کی بنیاد پر آج مورخہ 4 مئی بروز منگلوار عید منانے کا اعلان کیا ہے۔ علماء کرام پر شک شبہات کرنے کی بجائے تحقیق کی جائے کہ پشاور میں نظر آنے والہ چاند پاکستانی حدود کا ہے یا پٹروسی ملک سعودی عرب کا ہے؟ اور پھر تحقیق کی جائے مرکزی رویت ہلال کمیٹی سے چاند کیوں اوجھل رہتا ہے۔ اور ہاں جدت پسندی اور سائنسی مہارت رکھنے والوں کو بھی پوچھا جائے۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی چوہدری فواد حسین سے گزارش ہے پورا ملک ایک روز ہی عید اور رمضان المبارک شروع کرنے کے حق میں ہے ۔ آپ سائنس والوں مرکزی رویت ہلال کمیٹی مفتی ِ اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمٰن سمیت پشاور کی قاسم جان مسجد کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کو حکمت و دانش سے ایک جگہ پیار محبت اور عقیدت و احترام کے ساتھ بیٹھا کر مستقل حل نکالا جائے ورنہ ایک ملک میں ایک نہیں تین تین عیدیں ہونگیں ۔

 

Dr Tasawar Hussain Mirza
About the Author: Dr Tasawar Hussain Mirza Read More Articles by Dr Tasawar Hussain Mirza: 301 Articles with 346725 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.