پاکستان کی سیاسی تاریخ اِس بات کی شاہد ہے کہ ہمیشہ
اقتدار کی غلام گردشوں میں گھومنے والا طبقہ اشرافیہ کا ہی ہے۔ عوام کے لیے
سماجی و معاشی انصاف ہنوز کوسوں میل دور ہے۔ اقتدار اعلیٰ اﷲ پاک کا ہے کہ
عقیدہ رکھنے والی مسلم قوم کا ملک پاکستان ایسے حکمرانوں کے قبضے میں ہے جو
انسان کو غلام سمجھتے ہیں اور خود کو اوتار گردانتے ہیں۔ وہ اپنے لیے اور
اپنی اولادوں کے لیے اِس ملک کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ
پچھلے بہتر سالوں میں جمہوریت بدترین انتقام کا نعرہ لگانے والوں ، دائیں
بازو کی سیاست کے لیے دستیاب مُلاؤں کی مدد سے ملک پرآسیب کے طرح چمٹے ہوئے
ہیں۔ پاکستان میں خواہ فوجی حکومت رہی ہو یا سیاسی حالات وہی ہیں۔ اشرافیہ
ہی اِس ملک کے بائیس کروڑ عوام کی ان داتا ہے۔ عوام کو نہ تو تعلیم نہ ہی
صحت کی سہولتیں میسر ہیں۔ روزگارنہ ملنے کے سبب نوجوان جرائم پیشہ گرہووں
میں شامل ہو کر اپنی رگوں میں اندھیرے دالے ہوئے ہیں۔عمران خان کو تبدیلی
کے لے اقتدار میں لایا گیا عدالتیں اگر عام آدمی کو سزا دیں تو وہ رٹ آف
اسٹیٹ ہے اور اگر وہی عدالتیں اشرافیہ کو سزا دیں تو وہ کنگرو کورٹس قرار
دے دی جاتی ہیں یہ ہے ہماری اشرافیہ کا ہمارے ساتھ سلوک ۔ پاکستان میں
بدترین قسم کی جمہوریت ہے۔ اِس نظام میں میں صرف سرمایہ دار لٹیرے،ٹیکس چور
ہی سیاست کر سکتے ہیں۔ شریف پڑھے لکھے انسان کے لیے موجودہ نظام جمہوریت
میں کوئی جگہ نہیں ہے۔اِس ملک کے لوگوں کو سرمایہ داروں ،جاگیرداروں ،ڈبہ
پیروں، ملاؤوں نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ اور اب ایک مرتبہ پھر عمارں خان کی
حکومت کے خلاف مختلف انداز میں کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ چونکہ دونوں طرف
اشرافیہ ہی ہے اگر مرنا پڑئے گا تو ٖیر عوام کو خواہ وہ مہنگائی سے مرے یا
کسی کی گولی سے۔ جس اشرافیہ کہ ہی ہونی ہے اور ہار عوام بے چاری کی۔
سپریم کورٹ کے جج،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر وزارت
قانون و انصاف نے وضاحت جاری کردی جس میں کہاگیاہے کہ ریفرنس کی نہ ہی زبان
میں تبدیلی کی گئی نہ ایوان صدر کی جانب سے کوئی ہدایت جاری ہوئیں،وزارت
قانون کے پاس کوئی طریقہ کار نہیں جس کے تحت جج کے اثاثوں کا جائزہ لیا
جائے،وزیر قانون کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیس بنانے پر تنقید کا
نشانہ بنانے سے متعلق خبریں درست نہیں۔ اعلامیہ میں کہاگیاکہ وزارت قانون و
انصاف نے صدر پاکستان کی ہدایات پر ریفرنس کی زبان میں تبدیلی نہیں کی۔
اعلامیہ میں کہاگیاکہ میڈیا کے کچھ حلقوں میں خبر چلائی گئی کہ وزارت قانون
نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں سخت زبان استعمال کی۔ اعلامیہ
میں کہاگیاکہ چلائی گئی خبروں میں کہا گیا کہ صدر نے ریفرنس کے الفاظ میں
تبدیلی کی، ایسی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔ اعلامیہ میں کہاگیاکہ ریفرنس
کی نہ ہی زبان میں تبدیلی کی گئی نہ ایوان صدر کی جانب سے کوئی ہدایت جاری
ہوئیں۔اعلامیہ میں کہاگیاکہ خبروں میں یہ تاثر دیا گیا کہ وزیر قانون نے
ریفرنس بنایا اور وہی اس کے سرغنہ ہیں۔ اعلامیہ میں کہاگیاکہ ایسی خبریں من
گھڑت اور بے بنیاد ہیں، وزارت قانون کے پاس کوئی طریقہ کار نہیں جس کے تحت
جج کے اثاثوں کا جائزہ لیا جائے۔ اعلامیہ کے مطابق ملکی مفاد میں وزارتِ
قانون اس شکایات پر کارروائی کی پابند ہے جو اثاثہ بحالی یونٹ یا ایف بی آر
کی جانب سے موصول ہو۔ اعلامیہ میں کہاگیاکہ وزارت قانون اور وزیر قانون،
قانون کی حکمرانی پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔ اعلامیہ میں کہاگیاکہ وزیر قانون
کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیس بنانے پر تنقید کا نشانہ بنانے سے
متعلق خبریں درست نہیں۔پاکستان کے ایوانِ بالا میں صدرِ پاکستان کی جانب سے
اعلیٰ عدلیہ کے دو ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرینس بھیجے جانے
کے خلاف قرارداد منظور کر لی گئی ہے۔صدرِ پاکستان نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس
فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف چند دن قبل
ریفرینس بھیجے ہیں۔ ان ججوں پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنے بیرون ملک اثاثوں
کو انکم ٹیکس کے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا۔ان صدارتی ریفرنسوں کی سماعت
14 جون کو ہو گی اور پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں
سپریم جوڈیشل کونسل ابتدائی سماعت کرے گی۔
سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف راجہ ظفر الحق کی طرف سے پیش کی جانے والی اس
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ
ہائی کورٹ کے جج کریم خان آغا کے خلاف صدارتی ریفرنسز خفیہ انداز میں دائر
کیے گئے اور ان پر شدید نتقید کی جا رہی ہے۔قرارداد میں کہا گیا ہے کہ خفیہ
انداز میں ریفرنس دائر کرنے سے اس شبہے کو تقویت ملتی ہے کہ اس ریفرنس کا
تعلق سپریم کورٹ کے معزز جج کے حالیہ فیصلوں سے ہے۔اس قرارداد میں یہ کہا
گیا کہ اس طرح کے ریفرنس عدلیہ پر براہ راست حملہ ہیں اور ایوان ان ججز کے
ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔ قرارداد میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ ان
ریفرنسوں کوواپس لے۔سینیٹ میں قائد ایوان شبلی فراز کا کہنا ہے کہ اس
قرارداد کو پیش کرنے سے پہلے حکومتی بینچوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
واضح رہے کہ سینیٹ میں حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف اور اس کے
اتحادیوں کو اکثریت حاصل نہیں ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں حزب مخالف کی
جماعتوں نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اعلیٰ عدلیہ کے ان ججز کے
خلاف صدارتی ریفرنس واپس لے۔پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سپریم جوڈیشل
کونسل نے صرف دو ججز کے خلاف کارروائی کی ہے۔صدر کی طرف سے بھجوائے گئے ان
ریفرنسوں میں ان دونوں ججوں کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی
کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔سپریم جوڈیشل کونسل نے اس ضمن میں اٹارنی جنرل کو
نوٹسں جاری کر دیا ہے۔ اٹارنی جنرل ان صدارتی ریفرنسوں میں پراسیکیوٹر جنرل
کا کردار ادا کریں گے اور اعلیٰ عدلیہ کے ان ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل
کونسل کی کارروائی ان کیمرہ ہو گی۔سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو ایک خط بھی لکھا تھا جس میں صدر مملکت سے
کہا گیا تھا کہ ان کے خلاف بھیجے گئے ریفرنس کی کاپی انھیں فراہم کی
جائے۔واضح رہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر ہونے کی
وجہ سے ایڈشنل اٹارنی جنرل زاہد فخرالدین جی ابراہیم اپنے عہدے سے مستعفی
ہو گئے تھے۔دوسری طرف اس صورتحال کے تناظر میں پاکستان بار کونسل نے اپنا
ہنگامی اجلاس 12 جون کو طلب کیا ہے جس میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف
دائر کیے جانے والے ریفرنس پر غور کیا جائے گا۔پاکستان بار کونسل کے وائس
چیئرمین امجد شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان بار کونسل اعلیٰ عدلیہ
کے ججوں کا احتساب کرنے کے حق میں ہیں لیکن اعلیٰ عدلیہ کے ایک دو ججوں کو
ٹارگٹ کر کے ان کا احتساب کرنا کسی طور پر بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو
ایک خط بھی لکھا ہے۔انھوں نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ میں بدعنوان اور نااہل
ججوں کی بھرمار ہے جس کی نشاندہی پاکستان بار کونسل کرے گی۔ امجد شاہ کا
کہنا تھا کہ اس ضمن میں اعلیٰ عدلیہ میں تعینات ایسے ججوں کی ایک فہرست
تیار کی جا رہی ہے جو پاکستان کے چیف جسٹس کو پیش کی جائے گی۔انھوں نے کہا
کہ فیض آباد دھرنے سے متعلق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جو فیصلہ تحریر کیا ہے
اس سے حکمراں جماعت ان کے خلاف بغض رکھتی ہے اور اس صدارتی ریفرنس کی بنیاد
بھی یہی بغض ہے۔ وائس چیئرمین کا کہنا ہے کہ 14 جون کو ان دونوں ججوں کے
خلاف ان صدارتی ریفرنسوں کی ابتدائی سماعت ہو گی۔انھوں نے کہا کہ اگر ان
ریفرنسوں کو جاری رکھنے کے بارے میں کوئی فیصلہ ہوا تو پھر پاکستان بار
کونسل وکلا کی دیگر تنظیموں کے ساتھ مشاورت کر کے اپنا لائحہ عمل تیار کریں
گے۔اس سے پہلے ماضی قریب میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف فوج اور اس کے
خفیہ اداروں کے خلاف بیان دینے پر مس کنڈکٹ کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف
ریفرنس دائر کیا گیا تھا اور محض دو تاریخوں میں ہی ان کے خلاف فیصلہ دے کر
انھیں جج کے منصب سے فارغ کر دیا گیا۔شوکت صدیقی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے
فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے جس کو ابھی تک سماعت کے
لیے مقرر نہیں کیا گیا۔ شوکت صدیقی کے خلاف فیصلہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے
تحریر کیا تھا جو اس وقت پاکستان کے چیف جسٹس ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ان
پر اپنے اثاثے چھپانے کا الزام ہے اور ریفرنس کی سماعت کے بعد ممکنہ طور پر
انہیں برخواست کیا جا سکتا ہے۔ جسٹس قاضی عیسیٰ سپریم کورٹ میں بلوچستان کی
نمائندگی کرنے والے واحد جج ہیں جو اپنے دلیرانہ فیصلوں کے حوالے سے شہرت
رکھتے ہیں۔ جسٹس قاضی عیسیٰ نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران بلوچستان
میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعہ پر بلوچستان کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے
اپنی رپورٹ میں حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت کے وزیر داخلہ
نثار علی خان کی دفاع پاکستان کونسل کے وفد سے ملاقات انتہائی غیر مناسب
اقدام تھا جس میں ایک کالعدم تنظیم کے سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی
بھی شامل تھے۔اُس وقت کی حکومت نے جسٹس قاضی عیسیٰ کے رپورٹ پر شدید تنقید
کی تھی۔
سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن نے موجودہ صورت حال کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے
کہ جسٹس فائز عیسیٰ کا ہر حال میں دفاع کیا جائے گا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف ریفرنس کے معاملے پر حکومت نے فی الحال سپریم
جوڈیشل کونسل کے اجلاس کی تصدیق کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ سپریم جوڈیشل
کونسل نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا ہے اور 14 جون کو سماعت ہو گی،
جس میں اٹارنی جنرل بطور پراسیکیوٹر پیش ہوں گے۔مشیر اطلاعات فردوس عاشق
اعوان نے تصدیق کی ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 14 جون کو ہو گا جس
میں اٹارنی جنرل پیش ہوں گے۔ انہوں نے مزید کچھ بتانے سے یہ کہتے ہوئے
انکار کر دیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی سماعت خفیہ رکھی جاتی ہے۔
دوسری جانب صدر سپریم کورٹ بار امان اﷲ کنرانی نے اسلام آباد میں ایک نیوز
کانفرنس میں کہا ہے کہ کسی ادارے اور حکومت کو جج کی عزت سے کھیلنے نہیں
دیں گے۔ کسی کے خلاف کوئی شکایت ہے تو آئین اور قانون کے مطابق چلا
جائے۔سپریم کورٹ بار کے سابق صدر کامران مرتضیٰ کہتے ہیں کہ اگر جسٹس فائز
عیسیٰ کے خلاف کوئی ریفرنس آیا تو اس پر شدید ردعمل آئے گا۔سپریم کورٹ کے
جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف فیض آباد دھرنا کیس میں ان کے فیصلے اور
اس میں دیے گئے ریمارکس پر بعض اداروں کی طرف سے اعتراضات کیے گئے تھے اور
نظرثانی کی اپیلیں دائر کی گئیں تھیں۔ تاہم جسٹس فائز عیسیٰ اپنے فیصلوں کے
حوالے سے وکلا اور عام لوگوں میں بہت مقبول ہیں۔فائز عیسیٰ اور کے کے آغا
کے خلاف بیرون ملک جائیداد کو اپنے اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے کا الزام لگائے
جانے کی اطلاعات ہیں، تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بلوچستان میں ایک بڑی
جائیداد کے مالک ہیں اور امان اﷲ کنرانی کے بقول ان پر جو الزام لگایا جا
رہا ہے اس سے کہیں زیادہ مال اور دولت سے اﷲ نے انہیں نواز رکھا ہے۔وزارت
قانون اور ایسیٹس ریکوری یونٹ نے ججز کے خلاف ریفرنس کے معاملے پر مشترکہ
بیان جاری کیا ہے۔حکومت کی جانب سے ججز کے ریفرنس کے معاملے پر وزارت قانون
اور ایسیٹس ریکوری یونٹ نے مشترکہ اعلامیے میں کہا ہے کہ ایسٹس ریکوری یونٹ
کو تین ججوں کے بیرون ملک جائیدادوں کی اطلاع ملی۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے
کہ ججوں سے متعلق معاملہ 1973 کے رولز آف بزنس کے تحت وزارت قانون و انصاف
کا دائرہ اختیار ہے، ججز کی جائیدادوں سے متعلق شکایت پر کارروائی کے لیے
معاملہ وزارت قانون کو بھجوایا گیا۔وزارت قانون نے ایسٹس ریکوری یونٹ کو
شکایت میں درج معاملے کی تصدیق کی ہدایت کی، ایسٹس ریکوری یونٹ نے تصدیق کے
لیے ایف بی آر، نیب اور ایف آئی اے سے مل کر معلومات اکٹھی کیں۔اعلامیے میں
کہا گیا ہے کہ یہ واضح ہے کہ کارروائی صرف تصدیق شدہ اطلاعات پر ہی ہو سکتی
ہے اور وزیر اعظم کے ایسٹس ریکوری یونٹ نے ججز کی جائیدادوں سے متعلق تصدیق
شدہ رجسٹریز حاصل کیں، یہ رجسٹریاں برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن سے
نوٹرائز اور تصدیق شدہ ہیں، یہ اطلاعات ملنے پر معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل
کے سامنے رکھا گیا۔ اعلامیے کے مطابق صدر، وزیر اعظم، وزارت قانون اور
ایسٹس ریکوری یونٹ آئین و قانون اور عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں،
آرٹیکل 209 سے متعلق صدر اور وزیر اعظم اقدام نہ کرتے تو اپنے فرائض سے
غفلت کے مرتکب ہوتے۔دوسری طرف ترجمان وزارت قانو و انصاف نے اتوار کو میڈیا
میں جاری رپورٹس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی جج کیخلاف کوئی نیا
ریفرنس دائر نہیں ہورہا۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے چھپنے والی
خبروں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ترجمان نے کہ ہے کہ اس طرح کی من
گھڑت خبروں کے ذریعے بلاوجہ متنازعہ صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی
ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے آئین کے آرٹیکل 209 کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ وہ
جسمانی یا پھر ذہنی طور پر کام کرنے سے معذور نہیں ہیں اور شاید ریفرنس کی
وجہ ’مِس کنڈکٹ‘ یا نظم و ضبط کی خلاف ورزی ہے۔انھوں نے اپنے تازہ خط میں
صدر سے پوچھا ہے کہ کیا اسی آرٹیکل کے تحت ان کے خلاف شواہد صدر کو دکھائے
گئے جن کی بنیاد پر انھوں نے اسے مِس کنڈکٹ قرار دیا؟جسٹس فائز عیسیٰ کے
مطابق اس سے پہلے کہ انھیں اس ریفرنس کی کاپی موصول ہوتی اور وہ اس کا جواب
دیتے، ان کے خلاف ایک مہم چلا دی گئی۔انھوں نے الزام لگایا کہ وزیر قانون،
وزارت اطلاعات کے سینئر ارکان اور دیگر حکومتی ارکان ریفرنس کے مخصوص حصے
کی دستاویزات پھیلا رہے ہیں۔’جناب صدر، کیا یہ مناسب رویہ ہے اور کیا یہ
آئین سے مطابقت رکھتا ہے؟ کیا ریفرنس سے متعلق مخصوص مواد پھیلا کر اور
گفتگو کر کے حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہو رہے؟‘ان کا کہنا تھا: ’وہ
حکومتی ارکان جو یہ سمجھتے ہیں کہ مجھ پر دباو ڈال کر وہ مجھے میرے حلف کے
برخلاف کام کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں غلطی پر ہیں‘انھوں نے صدر سے یہ سوال
بھی کیا کہ آیا انھوں نے وزیراعظم کی تجویز پر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا
ہے۔ ’میں صرف یہ تصور ہی کرسکتا ہوں کہ الزام لندن کی تین جائیدادوں کے
بارے ہیں۔‘جسٹس عیسیٰ کا موقف ہے کہ یہ جائیدادیں ان کی بیوی اور بچوں کے
نام پر ہیں۔ ان کے بچے کم سن نہیں اور ان کی کفالت کی ذمہ داری ان پر
نہیں۔انھوں نے کہا کہ جائیدادوں کو کسی بھی طرح چھپانے کی کوئی کوشش نہیں
کی گئی، نہ ہی یہ جائیدادیں کسی ٹرسٹ یا کسی آف شور کمپنی کی ملکیت
ہے۔اتوار کو وزارتِ قانون اور وزیرِاعظم آفس میں اثاثہ جات کی واپسی کے لیے
قائم کیے گئے یونٹ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ انھیں تین
فاضل ججوں کی غیر ملکی جائیدادوں کے حوالے سے شواہد موصول ہوئے۔اپنے خط میں
سپریم کورٹ کے جسٹس نے صدر سے یہ بھی پوچھا کہ ’کیا اس بات کی جانچ کی گئی
کہ وزیر اعظم نے اپنی بیویوں اور بچوں کے اثاثہ جات گوشواروں میں ظاہر
کیے؟‘انھوں نے صدر سے کہا ہے کہ ’کیا آپ وزیر اعظم سے کہیں گے کہ وہ اپنے
گوشوارے مجھے فراہم کریں جن میں انھوں نے اپنے اہل خانہ کی بیرون ملک
جائیدادوں کی تفصیلات دی ہوں؟‘جسٹس فائز عیسیٰ لکھتے ہیں کہ ’میں پاکستان
کے ٹیکس قوانین پر مکمل طور پر عمل کرتا ہوں، ان جائیدادوں بارے مجھے کبھی
کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔ نہ ہی میری بیوی اور بچوں کی جائیدادوں بارے
کوئی نوٹس موصول ہوا۔‘ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’مجھ پر کوئی حکومتی ٹیکس
واجب الادا نہیں ہے۔‘خط کے آخر میں انھوں نے کہا کہ ’جب آئینی ڈھانچے کی
بار بار خلاف ورزی ہوتی ہے تو جمہوریت آٹوکریسی (یعنی استبدادی نظامِ
حکومت) کی طرف کھسکنا شروع ہو جاتی ہے اور عوامی حکومت بھی آمریت پسند بن
جاتی ہے۔‘اس سے قبل وزارتِ قانون اور وزیرِاعظم آفس میں اثاثہ جات کی واپسی
کے لیے قائم کیے گئے یونٹ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ
انھیں تین فاضل ججوں کی غیر ملکی جائیدادوں کے حوالے سے شواہد موصول ہوئے
تھے، جنھیں وزارتِ قانون کے حوالے کر دیا گیا تھا۔مراسلے کے مطابق دیگر
سرکاری اداروں (بشمول ایف بی آر، ایف آئی اے اور نیب) کے ذریعے ان اطلاعات
کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد وزارت نے برطانوی ہائی کمیشن کے ذریعے ان اثاثوں
کی ملکیت کی تصدیق کی۔ اس سے قبل 29 مئی کی صبح پاکستان کے ایڈیشنل اٹارنی
جنرل زاہد فخرالدین جی ابراہیم نے یہ کہتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے
دیا تھا کہ سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے کچھ ججوں کے خلاف سپریم
جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس دائر کیا جا رہا ہے۔
قارئین بات تو سیدھی سی ہے کہ بے شک پراپرٹی قاضی فیض عیسیٰ کی اپنی نہیں
ہے بلکہ بیوی بچوں کے نام ہے لیکن انصاف کا تقاضا ہے کہ اِس کی منی ٹریل دی
جائے تاکہ قاضی فیض عیسی سرخرو ہو سکیں۔بیشک قاضی صاحب کے خاندان کے
پاکستان پر احسانات ہیں اور وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بننے والی لسٹ میں
بھی ہیں۔اِس لیے اِن پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتیہے کہ وہ منی ٹریل دیں۔
اداروں کے خلاف محاذ آرائی موجودہ حالات میں ملک میں ابتری پھیلائے گی۔ اﷲ
پاک پاکستان کی خیر کرئے۔
|