سیاحت کا منظر نامہ؟

 اُس موضوع کی قسمت کے کیا کہنے ، جس کے لئے ایوانِ صدر میں تقریب منعقد ہو جائے۔ یہاں سے برآمد ہونے والی خبریں تین قسم کی ہوتی ہیں، ایک صدر صاحب نے زبانی خطاب فرمایا، دوسرے، خطاب لکھا ہوا تھا، اور تیسرے یہ کہ بس خبر جاری کر دی گئی کہ اس اعلیٰ تر ایوان میں تقریب سے صدر کے خطاب میں یہ کچھ کہا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ الفاظ کا چناؤ بزبانِ خود بتا رہا ہوتا ہے کہ اِن کے پیچھے فرائض منصبی نبھاتے ہوئے کسی سرکاری افسر کی محنتوں کی جھلک ہے ۔ خیر اپنے موجودہ صدر مملکت اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیت ہیں، وہ خود بھی کسی موضوع پر بات کرتے ہوئے الفاظ کی جُڑت بُنت سے کام لے سکتے ہیں۔ گزشتہ روز ایوان صدر میں ایسی ہی ایک تقریب ہوئی جس سے صدر کے خطاب میں بتایا گیا کہ’’․․․ پاکستان میں سیاحت کے لئے مہمانداری کی صنعت کی بہت گنجائش ہے، یہاں متنوع ثقافت،منظر نامہ اور بہت سے مذہبی مقامات ہیں․․․ نجی شعبہ سرمایہ کاری کرے ․․․ہر سال ہزاروں غیر ملکی سیاح پاکستان آتے ہیں، حکومت ای ویزا اور سیاحتی مقامات کی ترقی وغیرہ کے ذریعے اس شعبے میں کشش اور سہولت پیدا کرتی ہے ․․‘‘۔ انہوں نے ٹور آپریٹرز و گائیڈز، ہوٹل منیجمنٹ اور گیسٹ سروسز کے لئے تربیتی کورسز پر بھی زور دیا اور بتایا کہ پاکستان میں موہنجوداڑو، ہڑپہ، ٹیکسلا اور بدھا کے مقامات جیسے آثارِ قدیمہ کے علاوہ ہمالین ہل سٹیشنز اور دیگر پہاڑی چوٹیوں میں سیاحت کے بہترین مواقع ہیں۔

دنیا کے بے شمار ممالک سیاحت سے بے حد زر مبادلہ کماتے اور اپنا کاروبارِ زیست چلاتے ہیں۔ وہ اپنے تفریحی مقامات کو بھی اس قدر بنا سنوار کر رکھتے ہیں کہ وہ سیاحتی مقامات کا درجہ پا جاتے ہیں۔ مگر کیا وجہ ہے کہ پاکستان بے شمار حسین مناظر اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہونے کے باوجود کسی گنتی شمار میں نہیں۔ ہمارا وطن ہر قسم کے موسم اور مختلف انواع کی سطح زمین کا حامل ہے، سمندر سے لے کر فلک بوس اور برف پوش چوٹیوں تک یہاں موجود ہیں، پوٹھوہار ہے ، دریا ہیں، میدان ہیں اور صحرا بھی۔ یہی نہیں آثار قدیمہ کے بے شمار نشانات ہیں، جو موجود ہیں اور مزید تلاش کئے جاسکتے ہیں۔ تاریخی عمارتوں کی بھی یہاں کمی نہیں۔ صدیوں پر محیط بیرونی حملہ آوروں اور بہت سے علاقوں میں پھیلے چھوٹے بڑے حکمرانوں کے بنوائے ہوئے قلعہ جات کے آثار بھی شہروں اور ویرانوں میں ماضی بعید کی داستان سنا رہے ہیں ۔ قدرتی مناظر میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات اپنی مثال آپ ہیں۔

سیاحت کے لئے جو کچھ درکار ہے وہ پاکستان میں موجود ہے، اگر نہیں تو سنجیدگی اور ذمہ داری کا احساس نہیں، یہ دونوں ایسی چیزیں ہیں، جن کا تعلق اخلاص، رویے اور مثبت سوچ سے ہوتا ہے۔ عمران خان کی ذات سے یہ توقع تھی کہ وہ سیاحت کے فروغ کے لئے بہت سے اقدامات کریں گے، شمالی علاقوں میں درخت لگانے کی بات تو سنتے تھے، یار لوگ تو اس منصوبے پر بھی طنز کے تیر برساتے رہے ہیں، مگر اس کے علاوہ کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، نہ وہاں سڑکوں کی کوئی حالت ہے، نہ صفائی کا خیال ہے، نہ لوٹ مار مافیا کے جِن کو قابو کرنے کی کوئی منصوبہ بندی ہے، نہ سیاحوں کے لئے ضروری سہولتوں کا اہتمام ہے، بس خواہشیں اور دعوے ہیں، اُدھر عوام کی حسرتیں اور مطالبے ہیں۔یہ تو سیاحت کا قدرتی منظرنامہ ہے، جس پر بہت زیادہ اخراجات نہیں اٹھیں گے، اگر اخراجات ہوں گے بھی تو اس کا آؤٹ پُٹ بھی بہت جلد سامنے آجائے گا۔ قلعہ جات اور تاریخی مقامات خستہ حالی اور عدم توجہی کا شکار ہیں، سوشل میڈیا کے اس زمانے میں بھی ایسے مقامات کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔

پاکستان میں تاریخی عمارات کی بھی کمی نہیں، سندھ کے شہروں میں محلات اور دیگر عمارات موجود ہیں، پاکستان کے سب سے بڑے صحرا چولستان میں دسیوں قلعے اپنی ہستی کھو کر ریت کے ٹیلوں میں غائب ہو رہے ہیں، بہاول پور میں ریاست کے زمانے کے محلات تعمیر کے نادر نمونہ جات ہیں، مگر خاندانِ عباسیہ کے باہمی تنازعات کی وجہ سے کھنڈر بن رہے ہیں، جو محلات افواج پاکستان کے تصرف میں ہیں وہ بہترین شکل میں موجود ہیں، تاہم وہ عام لوگوں کی پہنچ سے دور ہیں۔ وسطی پنجاب سے ذرا اوپر جہاں سے پوٹھوہارسلسلہ کا آغاز ہوتا ہے، وہاں جگہ جگہ قلعے اور خوبصورت مقامات موجود ہیں۔ جیسا کہ صدر صاحب نے بھی نشاندہی کی کہ متنوع ثقافت کے علاوہ مذہبی مقامات بھی ہیں۔ بہت سے مقامات ایسے ہیں جہاں مقامی سیاح یا زائرین بہت زیادہ آتے جاتے ہیں، مگر وہاں بھی سہولتیں اور سڑکیں ایسی کہ ایک دفعہ انسان چلا جائے تو آئندہ کے لئے توبہ کرلیتا ہے۔ جنوبی پنجاب میں ڈیرہ غازی خان کے علاقہ میں فورٹ منرو پر حکومتوں کی توجہ کم اور دعوے زیادہ چلتے آئے ہیں، (اب بھی یہ علاقہ دعووں کی زد میں ہے) اگر اس کو ترقی دی جائے تو مری کا رش کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

حکومت نے سیاحت کے نام پر ادارے بھی بنا رکھے ہیں اور وزارتیں بھی قائم ہیں، مگر مجال ہے اس تاریکی میں روشنی کی کوئی کرن دکھائی دے؟ یہ ادارے اور وزارتیں صرف دفاتر کی حد تک کام کر رہے ہیں، یا پھر تقریبات منعقد ہو جاتی ہیں، فائلوں کے پیٹ بھرے ہوتے ہیں، بریفنگ بہترین ہو جاتی ہے، کاغذوں میں پاکستان سیاحوں کی جنت نظر آتی ہے، مگر حقیقت میں سیاحت جنت نہیں کھنڈر ہے۔ سیاحت کے فروغ کے لئے تربیتی کورسز یقینا اچھی پیش رفت ہے، مگر نفیس ماحول، بہترین پروٹوکول، مہنگے بندوبست اور قوم کے کاندھوں پر بے جا بوجھ کے علاوہ ایسے پروگرواموں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔یہ درست ہے کہ شمالی علاقہ جات میں کسی حد تک سیاحت میں کمی کی وجہ دہشت گردی بھی ہے، مگر پاک فوج کی بیش بہا قربانیوں کے طفیل اب امن بحال ہو چکا ہے۔ صدر صاحب کے بیان میں ہزاروں غیر ملکی سیاحوں کی آمد کی خبر بہت حد تک افسوسناک ہے، یہ تعداد ’’ہزاروں‘‘ نہیں لاکھوں میں ہو سکتی ہے، ملک کو زرمبادلہ مل سکتا ہے، بشرطیکہ بے حس ادارے اور لاعلم حکومتیں کچھ کرنے کے لئے تیار ہوں۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 473279 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.