پہلے سال کے آغاز ہی پر نواز شریف کی جانب
سے حکومت کو الٹی میٹم اور پھر ڈیڈ لائن مکمل ہونے کے باجود چوں چراں، سندھ
کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کی طرف سے کبھی ایم کیو ایم اور کبھی مسلم لیگ
ن کے خلاف زہر افشانی کو دیکھ کر واقعی یہ محسوس ہوتا ہے کہ انقلاب کی
باتوں کے پردے میں در اصل سیاسی ڈرامہ ہی چل رہا ہے۔اس ڈرامے کی ریہرسل تو
گزشتہ تین ساڑھے تین سالوں سے جاری ہے لیکن تازہ ترین ایکٹ کا آغاز امسال
چار جنوری کو ہوا جب پہلے اسلام آباد میں میاں نواز شریف نے”اب یا کبھی
نہیں“ کا نعرہ لگا کر دس نکاتی ایجنڈا دے مارا اور ساتھ ہی ساتھ حکومت کو
اس پر عمل کے لئے تین روز کا حکمنامہ بھی جاری کر دیا ۔ پنجاب کے مقتول
گورنر سلمان تاثیر یوں تو اپنی زندگی میں بھی مسلم لیگ ن کے لیے درد سر بنے
رہے لیکن عین میاں نواز شریف کی دھماکہ خیز پریس کانفرنس کے بعد وہ ایک بار
پھر اہلیان رائے ونڈ کے راستے کی رکاوٹ بن گئے اور مجبوراً مسلم لیگ ن کے
قائد کو اپنا الٹی میٹم دس جنوری تک بڑھانا پڑا، اس دوران دونوں جانب سے
کمیٹیاں بنی، مذاکرات ہوئے، ایجنڈے کے نکات پر عمل درآمد کی خوشخبریاں بھی
سنائی گئیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات!
ن لیگ کے الٹی میٹیم اور حکومتی تسلیوں کو دیکھتے ہوئے سیاسی اٹھکیلیوں پر
نظر رکھنے والوں کو کوئی خوش فہمی نہیں تھی لیکن جب اس ڈیڈ لائن کے ختم
ہونے کے ٹھیک ایک دن پہلے سندھ کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی جانب
سے حکومتی اتحاد ایم کیو ایم کے بعد توپوں کے رخ کو ن لیگ کی جانب موڑنے نے
بڑی حد تک واضح کر دیا کہ آئندہ کیا ہونے جارہا ہے۔ حکومت نے یہ دعویٰ کیا
کہ وہ نواز شریف کے ایجنڈے کے بیشتر نکات پر عمل کر چکی ہے جبکہ مسلم لیگ ن
کو کہنا تھا کہ کچھ بھی نہیں ہوا۔حکومت سے تو ہمیں کوئی لینا دینا نہیں کہ
وہ شروع دن ہی سے آسمان سے تارے توڑنے کے دعوے کرتی چلی آرہی ہے لیکن ن لیگ
کا کیا کیجئے کہ بنی بنائی عزت خراب کروانا کوئی اس سے سیکھے۔ بندہ پوچھے
جب آپ کے تلوں میں تیل نہیں تھا تو اس قدر بڑھکیں لگانے کی کیا تک، سیدھا
سیدھا تسلیم کر لیں کہ وہ ابھی تک فرینڈلی ہیں بلکہ ہمارے خیال میں تو یہ
ٹرم اب”فیملی “ ہونی چاہیے کہ حکومت اور اپوزیشن کا اٹ کھڑکا ان دو بھائیوں
جیسا ہی ہے جو قرض خواہ کو آتا دیکھ کر آپس میں الجھ پڑتے ہیں لیکن جیسے ہی
وہ رخصت ہوتا ہے دونوں ایسے یکجان ہوجاتے ہیں کہ کبھی تو تکرار کا گمان تک
نہیں ہوتا۔
کہنے کو تو میاں نواز شریف اور ان کی جماعت ابھی تک ”اصولوں “ کی سیاست کی
دعویدار ہے اور حکومت کو بار بار چنوتی دے رہی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس
کے پاس اس ظاہری تو تو، میں میں کے علاوہ سیاست کا کوئی آپشن نہیں باقی
نہیں رہا۔ عوام اور وسیع تر عوامی مفاد کے نعرے کی آڑ میں شور شرابہ تو بہت
کیا جاتا ہے لیکن مندرجہ بالا ایجنڈے کے ساتھ کیے جانے والے حکومت سلوک اور
پھر مسلم لیگ ن کو سندھ میں سبق سکھانے کی دھمکیاں سب یہی ثابت کرنے کے لئے
کافی ہیں کہ ن لیگ در حقیقت پیپلز پارٹی سے خوفزدہ ہے اور عوامی جذبات سے
آگاہ ہونے کے باوجود کھل کھیلنے اور اپوزیشن کا روایتی کردار ادا کرنے کا
حوصلہ نہیں رکھتی۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہماری اس بات سے متوالوں کو خاصی تکلیف
پہنچے گی لیکن کیا کیجئے کہ حقیقت، حقیت ہی ہوتی ہے اور اس کو تبدیل کرنے
کے لئے تاریخی کردار ناگزیر ہوتے ہیں لیکن شومئی قسمت کہ مسلم لیگ ن اس کی
اہل دکھائی نہیں دیتی۔ اب یہ تو معلوم نہیں کہ اسے صرف پیپلز پارٹی کی
دھمکیوں ہی کا خوف ہے یا پھر میاں برادران کی وطن واپسی کے وقت ہونے والے
معاہدوں کی پاسداری لیکن اتنا ضرور ہے کہ وہ اپنی ہی ناقص ترین قوت فیصلہ
کی بدولت حکومت اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں ایک بار پھر”ماموں“ بن چکی ہے
اور یہی صورت حال تمام تر حالات اور بیانات کو محض ڈرامہ ہونے کے خدشات کو
بھی مزید تقویت بخش رہی ہے۔
ن لیگ کے بعد ایم کیو ایم کی سیاسی روش پر نظر ڈالیں تو ڈرامے کا عنصر یہاں
بھی نمایاں ہے۔ کوئی ڈیڑھ ماہ پہلے جب پہلی بار ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے
متحدہ کو الزامات کا”انجکشن“ لگایا تو جے یو آئی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے
ایم کیو ایم نے بھی اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا اعلان دے مارا۔ رام رولا
شروع ہوا، بات وزارتیں چھوڑنے سے اپوزیشن کا حصہ بن کر بھر پور کردار ادا
کرنے تک پہنچی لیکن نتیجہ ”صلح“ ہی کی صورت میں سامنے آیا اور صدر آصف علی
زرداری کے مندوب خاص رحمٰن ملک اپنا مذاکراتی جادو دکھانے میں کامیاب
ہوگئے۔امید تو یہی تھی کہ نائن زیرو یاترا اور مشترکہ پریس کانفرنس کے بعد
ذوالفقار مرزا کوئی مزید”ڈوز“ نہیں دیں گے لیکن یہ امید امید ہی رہی اور
ڈاکٹر صاحب نے ایک اور”دھماکہ“ کر ڈالا جس کا خمیازہ خاص طور پر میڈیا کو
پیر اور منگل کی رات”بڑی سٹوری“ کے انتظار کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ کہنے کو
تو ابھی بھی معاملہ مذاکراتی مراحلے میں ہے لیکن دکھائی یہی دے رہا ہے بات
ایک بار پھر”پر امن“ طور پر نمٹ جائے گی، اگر واقعی ایسا ہوا تو پھر” سب
ڈرامہ ہے “ کی باتیں کرنے والوں کا منہ بند کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔
پیپلز پارٹی،حکومتی اتحادی متحدہ قومی موومنٹ اور اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن
کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ تینوں ہی اپنے تئیں
تو عوام کو بیوقوف بنارہی ہیں لیکن ذرا دور اندیشی کے تناظر میں دیکھیں تو
تمام تر سیاسی کرتوت اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے سوا کچھ بھی نہیں اور اس
کا خمیازہ تینوں ہی جماعتوں کو آنے والے عام انتخابات میں بہر کیف بھگتنا
ہی پڑے گا۔ مبصرین کی رائے اپنی جگہ، الیکشن بھی ابھی کم از کم دو سال دور
ہیں لہٰذا ان کے نتائج پر بھی کچھ کہنا قبل از وقت ہی ہوگا لیکن اپنے ہی
پاؤں پر کلہاڑی مارنے کا محاورہ ہمیں یوں صادق دکھائی دے رہا ہے کہ سبھی
جماعتوں نے نئے زمانے اور چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے پہلوانی انداز اخیتار کر
لیا ہے اور قریباً سبھی جماعتوں نے اپنے اپنے مخصوص”پہلوانوں“ کو ابھی سے
اکھاڑے میں اتار دیا ہے جو نورا کشتی میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے میں اس
قدر محو ہیں کہ ان کو اور ان کی قیادت کو اس کے غیر محسوس نقصانات کا انداز
ہی نہیں جبکہ جو بھی صاف گوئی سے کام لیتا ہے اسے عہدے اور پارٹی رکنیت تک
سے ہاتھ دھونا پڑ جاتے ہیں کیونکہ ایک طرف تو صاف گوئی ان کی پارٹیوں کے
اندر بعض منافقین کو پسند نہیں آتی جبکہ دوسری جانب یہ صاف گوئی ٹوپی ڈرامے
کا راز فاش کرنے کا بھی سبب بن جاتی ہے۔ |