ماہ صیام کی ایک افطاری جو بلاول بھٹو کی جانب سے دی گئی
اس میں متفقہ فیصلہ ہوا کہ اے پی سی بلائی جائے گی اور حکومت وقت کے خلاف
عید کے بعدایک احتجاجی تحریک چلانے کا عندیہ دیا گیا لگتا یوں ہے کہ سب
تدبیریں الٹ ہوتی دکھائی دیتی ہیں اپوزیشن کی بجائے نیب زیادہ متحرک نظر
آیااور یوں لگا جیسے نیب نے ہی پکڑ دھکڑ کی تحریک شروع کر دی ہے سابق صدر
پاکستان آصف علی زرداری پابند سلاسل ہو چکے ہیں یہ ان کے لئے یہ کوئی نئی
اور انوکھی بات نہیں موصوف پہلے بھی برسوں پہ محیط جیل کی سزا کاٹ چکے ہیں
لمبی سزا پانے پہ ’’سیاسی قیدی‘‘ اور ’’مرد حر‘‘ جیسے لقبات سے نوازا گیا
پی پی پی کی سیاسی تاریخ پہ نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ جیلیں اور
صعوبتیں پارٹی میں ایک نئی روح پھونک دیتی ہیں زرداری کی گرفتاری کے اگلے
ہی روز جب حکومت وقت اپنے وزیر خزانہ کے بغیر اپنا پہلا بجٹ پیش کرنے جاری
تھی سابق خادم اعلی کے بیٹے اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں حمزہ
شہباز کی گرفتاری سامنے آئی اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں سے موسم کی گرمی
کے ساتھ ساتھ سیاسست کے ایوانوں میں ایک تلاطم پیدا ہوتا دکھائی دے رہا ہے
اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریاں درست یا غلط اس کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے
اور محض الزامات کی بنیاد پہ مجرم اور چورچور کا شور مچانا مہذب افراد کا
شیوہ نہیں ۔
قومی اسمبلی میں وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے آئندہ مالی سال
2019-20ء کا 8238.1ارب روپے حجم کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا
‘جو 2018-19کے بجٹ کے مقابلے میں 38.9فیصد زیادہ ہے ، آئندہ مالی سال
2019-20کے بجٹ میں چینی ،گھی، مشروبات ،تیل،سگریٹ ،خٹک دودھ ، پنیر ، کریم
، سیمنٹ ، سی این جی ،مہنگا کر نے ،سنگ مرمر کی صنعت پر 17 فیصد سیلز ٹیکس
لگانے، سیمی پراسسڈ اورپکے ہوئے چکن،مٹن، بیف اورمچھلی پر 17 فیصد سیلز
ٹیکس لگانے کی تجویز جبکہ پنشن میں 10 فیصد ،ایک سے سولہ گریڈ کے سرکاری
ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد اور سولہ سے بیس گریڈ کے ملازمین کی
تنخواہوں میں 5فیصد اضافہ ہوگا ،21سے 22گریڈ کے ملازمین کی تنخواہیں نہیں
بڑھائی جائیں گی ،مزدور کی کم از کم تنخواہ 17500روپے مقرر کر دی گئی ،تنخواہ
دار طبقے کیلئے بارہ لاکھ روپے سالانہ آمدن پر چھوٹ ختم کر کے اس کی حد چھ
لاکھ روپے سالانہ کر دی گئی ،اس طرح پچاس ہزار روپے سے زائد ماہانہ تنخواہ
وصول کر نے والو ں کو ٹیکس دینا ہوگا ،ترقیاتی بجٹ کیلئے 1800 ارب سے روپے
،دیامر بھاشا ڈیم کیلئے 20 ارب روپے ، داسو ہائیڈرو منصوبے اور مہمند ڈیم
کے لیے 15، 15 ارب روپے، اعلیٰ تعلیم کے لیے ریکارڈ 43 ارب روپے ، زرعی
شعبے کے لیے 12 ارب روپے، کراچی کے 9 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 45.5 ارب روپے
مختص کئے گئے ہیں ،دفاعی بجٹ 1150 ارب روپے برقرار رہے گا حسب روایت حکومتی
حلقے نئے وفاقی بجٹ کوعوام کی امنگوں کے عین مطابق قرار دے رہے ہیں ان کا
موقف کہ ہے نئے بجٹ سے نئے سفراور نئے پاکستان میں ترقی اور خوش حالی کا
دور دورہ ہوگا ہر سو امن شہد اور دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوں گی غربت کا
خاتمہ ہوجائے گا مہنگائی اور ڈالر جس کا چولی دامن کا ساتھ ہے حکومت کے
کنٹرول میں ہوگا جبکہ متحدہ اپوزیشن پی ٹی آئی حکومت کے نئے بجٹ کو عوام
دشمن کہہ کر مسترد کر چکی ہے ایوان اور باہر ہر جگہ نئے بجٹ کی پھرپور
مخالفت کا اعلان کر چکی ہے نئے بجٹ کو لفظوں کا ہیر پھیر قرار دے رہی
ہیمنگل کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2019-20ء کے وفاقی بجٹ کی تقریر
وزیر مملکت حماد اظہر نے شروع کی تو اس وقت ایوان میں اپوزیشن کے اراکین
موجود نہیں تھے تاہم بعد ازاں تقریر کے دوران اپوزیشن ارکان ایوان میں آئے
اجلاس کے دور ان مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر
قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں شرکت کی بجٹ اجلاس میں اپوزیشن اراکین تاخیر
سے ایوان میں آئے تو انہوں نے آتے ہی بجٹ تقریر کی کاپیاں نہ ملنے پر کھڑے
ہوکر احتجاج کیا جس پر سپیکر کے کہنے پر انہیں فوری طور پر بجٹ کی کاپیاں
مہیا کی گئیں حکومت کے پہلے بجٹ میں اشیاء خوردو نوش پہ نئے ٹیکس لگانے سے
ہوش ربا اضافے کا سوفیصد امکان ہے پاکستان کی عوام تو پہلے ہی مہنگائی کی
چکی میں پس کے رہ گئی نئے ٹیکسز سے رہی کسر بھی پوری کر دی جائے گی عام
استعمال اور کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافے سے حکومت کی نیک نامی
میں اضافہ نہیں بلکہ ذلت و رسوائی کا موجب ہوگا عوام دشمن پالیسیوں سے
اپوزیشن کی جانب سے متوقع تحریک کو تقویت ملے گی جو حکومت کے لئے باعث
پریشانی ہے۔ |