پیچھے تو دیکھو اور ہمارے حکمران

 

سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ ،نواز شریف کے ووٹ کو عزت دو ،عمران خان کے تبدیلی کے نعرے کے بعد اب ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے معصوم مسکراہٹ ،اداؤں سے ہر چھوٹے بڑے کو اپنا گرویدہ بنانے والے ساڑھے تین سال کے احمد شاہ کے نعرے پیچھے تو دیکھونے ملکی اور غیر ملکی ہزاروں کی تعداد میں شائقین کے علاوہ الیکٹرانک چینلز کو ایک سحر میں مبتلا کردیاہے ۔آپ یقین کریں کہ راقم بھی احمد شاہ کی ویڈیوں کو فیس بک ،یوٹیوب پر ڈھونڈ ڈھونڈ کر لطف اندوز ہورہا ہے ۔بچے جو کہ سب کے معصوم ہی ہوتے ہیں ان کی اداؤں او رقول وفعل میں ہمارے حکمرانوں کی طرح بناوٹ ،تضنع نہیں ہوتا لیکن احمد شاہ میں ایسی کونسی بات ہے کہ وہ دوسرے بچوں میں نہیں ہے ۔ایک تو اس کی جسمانی ساخت ،موٹے موٹے گال اور دوسرے انتہائی معصومانہ باتیں ہیں آج ہر دوسرا نوجوان احمد شاہ کے بے ساختہ کہے گئے الفاظ پیچھے تو دیکھو کو دہراتا ہوا نظر آئے گا ۔موجودہ عید کے موقع پر میں نے نمازعید تبلیغی مرکز زکریا مسجد میں ڈیرہ اسماعیل خان میں ادا کی ۔نماز کے بعد گاڑی کے لئے پارکنگ تک پیدل جاتے ہوئے میں نے دیکھا کہ عوام کسی بچے کے ساتھ سیلفیاں بنارہے ہیں کوئی اس کی چمی لے رہاہے تو کوئی کہہ رہا ہے کہ پیچھے تو دیکھو ۔قریب جاکر دیکھا تو احمد شاہ موٹرسائیکل پر دونوجوانوں کے درمیان بیٹھا ہوا ہے اور لوگوں کا ہجوم اس کی طرف متوجہ ہے ۔احمد شاہ نے پیچھے تو دیکھو کا نعرہ ویسے تو غیر نادانستہ طور پر لگایا لیکن آج بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان اور دنیا کے نمبر ون بلے باز ویرات کوہلی کی زبان پر بھی سناجاسکتاہے ۔ان کی ایک ویڈیو انٹر نیٹ پر وائرل ہوئی ہے جس میں وہ اپنے کسی دوست کے ساتھ یہ نعرہ لگاتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں ۔اسی طرح وہ پورے ماہ رمضان میں اے آر وائی کے پروگرام جیتو پاکستان اور شام رمضان میں دنیا بھر کے عوام اس بچے کی لائیوویڈیو سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔اوئے یہ میرا بستہ ہے کی پہلی ویڈیو سے مشہور ہونے والا یہ بچہ آج سوشل میڈیا پر چھایا ہوا ہے ۔مہنگائی ،بے روزگاری ،ناانصافی ،ماحولیاتی بیماریوں کے شکار پاکستان کے عوام کی وہ اکثریت جو سوشل میڈیا کا استعمال کرتی ہے اپنی فرسٹیشن کو اس بچے کی ویڈیو دیکھ کر دور کرتی نظر آرہی ہے ۔ویسے بھی اب تک احمد شاہ کی پہلی ویڈیو میرا بستہ وآپس کرو کو تیس لاکھ سے زائد افراد دیکھ چکے ہیں جبکہ اس کی دیگر ویڈیو ،انٹرویوز اور ٹی وی پروگرامز کو دیکھنے والوں کی تعداد کروڑوں تک جاپہنچی ہے ۔بعض لوگوں کے خیال میں اینکرز ہی احمد شاہ خان کو غصہ دلاتے ہیں تاکہ وہ ایسی حالت میں اس کی باتوں سے لطف اندوز ہوسکیں اور ان کے الیکٹرانک چینلز کی ریٹنگ بڑھے ۔ایسا کرنا بچے کے مزاج پر منفی اثرات ڈالے گا اور اس کی طبعیت میں غصہ ،اکھڑ پن پیدا کرے گا ۔احمد شاہ جو کہ بڑا ہوکر ڈاکٹر بننا چاہتاہے اور دکھی انسانیت کی خدمت کادعویدار ہے کہ جملے ،نعرے اوئے پیچھے تو دیکھوہمارے ملک کے حکمرانوں ،سیاستدانوں پر مکمل فٹ بیٹھتا ہے جو الیکشن سے پہلے کہتے کچھ ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد کرتے کچھ ہیں ۔عمران خان اس کی تازہ مثال ہیں ۔آئی ایم ایف سے قرضے نہیں لوں گا ۔پیٹرول ،ڈیزل ،گیس کے نرخ کم کروں گا ،نئی قیادت لاؤں گا ،وزراء کی تعداد کم رکھوں گا ،کشکول توڑ دوں گا ،کسی سے ڈیکٹیشن نہیں لوں گا ،وی آئی پی کلچر ختم کروں گا ،کرپشن سے پاک سیاست کروں گا۔میں میڑو اور اورنج ٹرین جیسے منصوبے نہیں لاؤں گا ۔انتقامی سیاست کا خاتمہ کروں گا ،ہر چھوٹے بڑے کا بلاامتیاز احتساب کروں گا،انصاف کا گلہ نہیں گھوٹوں گا ،بھارت سے دوستی کی بھیک نہیں مانگوں گا ،میڈیا کا گلہ نہیں دباؤں گا وغیرہ وغیرہ لیکن سب کچھ اس کے برعکس ہورہا ہے ۔ایساہی نعرہ روٹی کپڑا اور مکان کا بھٹو نے دیا لیکن غریب کاوہ حال بھٹو،زرداری ،بے نظیر اور اب ان کی سندھ کی صوبائی حکومت کررہی ہے کہ پوچھو نہیں ۔نوا ز شریف نے ووٹ کو عزت دو اور قرض اتاروملک سنواروکا نعرہ لگایا لیکن کیا اس کے الٹ ،ووٹرز تو چھوڑیں ان کے اپنے وزراء اورمشیروں سے نواز شریف کی دوریاں بڑھتی گئیں ،خوشامدی ،چاپلوس لوگوں نے انہیں ہمیشہ گھیرے رکھا ۔وہ فطرتاًخوشامد پسند واقع ہوئے ہیں ہمارا ڈکٹیٹرحکمران جنہوں نے 35 سال حکمرانی کرکے اس ملک کا بیٹراغرق کیا بھی خوشامد پسندواقع ہواہے ۔اس نے احمد شاہ کے نعرے پیچھے تو دیکھو سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ۔آج اگر مشرقی پاکستان کے سقوط کے بارے میں محمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ شائع ہوجاتی تو شاید ہم ماضی سے کچھ سبق حاصل کرسکتے ۔ہمارے سیاستدان ڈکٹیٹر جرنیل ،عوام ،صنعت کار اپنی کوتاہیوں ،خامیوں پر کچھ نظر ڈال سکتے لیکن ہمارا نظام آگے دوڑ پیچھے چوڑ پر چل رہاہے۔حالانکہ ترقی پسند اقوام اپنے ماضی اور تاریخ سے سبق حاصل کرتی ہیں لیکن ہم ایسا کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ہم نے کبوتر کی طرح بلی کو دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں ۔ہم آج بیرونی اور اندرونی طور پر جن سیاسی وجغرافیائی ،معاشی،دفاعی مسائل کا شکار ہیں ۔ان کے تدارک کیلئے ہمیں پیچھے مڑ کر دیکھنا ہوگا ۔اپنی سابقہ غلطیوں سے سبق حاصل کرنا ہوگا ۔اپنی ان پالیسیوں جن کے باعث ہمارے ڈکٹیٹر وں اور سیاستدانوں نے ملک کو گروی رکھ دیا ۔امریکہ جیسے مسلم کش ملک کے لئے 21 کروڑ عوام کے واحد مسلم ایٹمی طاقت کے حامل ملک کو ایک چراگاہ اور مقتل گاہ بنا کر رکھ دیا سے اجتناب اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی پالیسی پر عمل پیرا ہونا پڑے گا ۔اپنے تمام تر قدرتی وسائل کا درست استعمال اور اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرنے کی پالیسی بنانی ہوگی۔بصورت دیگر ہم یونہی قرضوں میں ڈوبتے رہیں گے اور ملکی اور غیر ملکی اقوام ہمیں سر اٹھا کر باوقار طریقے سے زندگی گزارنے کے قابل نہ رہنے دیں گی ۔
٭٭
 

Sohail Ahmed Azmi
About the Author: Sohail Ahmed Azmi Read More Articles by Sohail Ahmed Azmi: 181 Articles with 137153 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.