خون کا عطیہ کسی کی زندگی بچا سکتا ہے……!
(Rana Aijaz Hussain, Multan)
خون جسم انسانی کا ایک لازمی جزو ہے
جو کہ دل اورشریانوں کے ذریعے جسم کے مختلف اعضاء میں گردش کرتا رہتا ہے ۔
طبی ماہرین کے مطابق ہر بالغ انسان کے جسم میں تقریبا 1.2 گیلن سے 1.5 گیلن
تک یعنی 4.5 لیٹر سے 5.5 لیٹر تک خون ہوتا ہے۔ جبکہ کسی بھی حادثاتی
صورتحال ، شدید بیماری یا سرجری کی صورت میں انسان کو خون، پلازما، وائٹ
سیل کی ضرورت ضرورت پیش آسکتی ہے ۔ قیمتی انسانی جانوں کو بچانے کے لیے خون
کے عطیات انتہائی اہم اور ضروری ہیں۔ دنیا بھر میں ہر سال 14 جون کو بلڈ
ڈونر ڈے (Blood Donor Day ) یعنی خون عطیہ کرنے والوں کے دن کے طور پر
منایا جاتا ہے، جس کا مقصد خون کی محفوظ منتقلی کے بارے میں شعور اجاگر
کرنے کے ساتھ ساتھ تمام ان افراد کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جو بغیر کسی ذاتی
لالچ کے اپنا خون دوسروں کی زندگیاں بچانے کیلئے عطیہ کرتے ہیں۔ کسی بھی
ضرورت مند مریض کو خون عطیہ کرنا صدقہ جاریہ میں شمار ہوتا ہے، قرآن پاک کی
سورۃ المائدہ میں اﷲ تعالیٰ نے ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت کی
جان بچانے کے مترادف قرار دیاہے۔ جبکہ کسی بھی دوسرے انسان کی مدد سے قدرت
الٰہی کی جانب سے قلبی سکون و راحت حاصل ہوتی ہے اور انسان ہر قسم کی آفات
اور محرومیوں سے نجات پاتا ہے۔
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ خون عطیہ کرنے سے انسان کی صحت پر منفی اثرات
مرتب ہوتے ہیں جبکہ یہ بات بالکل درست نہیں۔ ہر تندرست انسان کے بدن میں
تقریباً ایک لیٹر (یعنی دو سے تین بوتلیں) اضافی خون ہوتا ہے، ماہرین صحت
کا کہناہے کہ ہر تندرست انسان کو سال میں کم از کم دو بار خون کا عطیہ ضرور
د ینا چاہئے اس سے صحت پر کسی قسم کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے ، بلکہ خون
کا عطیہ دینے والے افراد صحت مند رہتے ہیں ۔ خون عطیہ کرنے میں جتنا خون
لیا جاتا ہے وہ انسانی جسم تین دن میں پورا کرلیتا ہے، جبکہ خون کے سیلز 56
دن میں بن جاتے ہیں اور نئے خون کے خلیات پرانے خون سے زیادہ صحتمند اور
طاقتور ہوتے ہیں جو انسان کو کئی امراض سے بچاتے ہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ
ایک بار خون کا عطیہ دینے کے بعد دوبارہ تین ماہ یا اس سے بعد دینا چاہیے۔
امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کی ایک ریسرچ کے مطابق جو لوگ وقتاً فوقتاً خون
کا عطیہ دیتے ہیں ان میں دل کا دورہ پڑنے اور کینسر لاحق ہونے کے چانسز95
فیصد تک کم ہو جاتے ہیں۔ جسم میں آئرن کی زیادہ مقدار اور اس کے کم اخراج
کی وجہ سے آئرن انسان کے دل ، جگر اور لبلبہ کو متاثر کرتا ہے، جبکہ ریسرچ
سے ثابت ہوا ہے کہ جسم میں آئرن کی مقدار کو بیلنس رکھنے کیلئے خون عطیہ
کرنا ایک نہایت مفید عمل ہے۔ اس عمل سے رگوں میں خون کے انجماد کو روکنے
اور جسم میں خون کے بہتر بہاؤ میں مدد ملتی ہے۔ باقاعدگی سے خون دینے والے
ڈونرز موٹاپے کا شکار نہیں ہوتے کیونکہ خون دینے کا عمل جسم کی چربی کو کم
اور وزن کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ خون عطیہ کرنے کے بعد نئے خون
کے بننے سے چہرے میں نکھار پیدا ہوتا ہے اور یہ چہرے پر بڑھاپے کے اثرات کو
زائل کرتا ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک میں خون کا عطیہ دینے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے
لیکن افسوس کہ ہمارے ملک میں صرف1سے 2 فیصد ایسے افراد ہیں جوکہ رضاکارانہ
طور پر خون کا عطیہ دیتے ہیں جبکہ دیگر افراد حادثات یا دیگر سنگین صورتوں
میں خون عطیہ کرتے ہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق ہمارے جسم میں اضافی خون کی
زندگی محض 120 دن ہوتی ہے تو کیوں نہ ہم وہ خون ضائع ہونے سے بچائیں، اپنے
اندر خدمت خلق کا جذبہ بیدار کریں ، خون کا عطیہ دیں اور کسی کی زندگی
بچائیں۔ خون کی محفوظ منتقلی کے لیے خون کا گروپ معلوم ہونا ضروری ہوتا ہے
، بنیادی طور پر خون کے گروپس کو چار اقسام یعنی A , B , O , اور AB میں
تقسیم کیا گیا ہے جس میں ہر ایک قسم کی Positive اور Negative میں مزید
تقسیم ہے۔ گروپ O خون کو تمام گروپس کے مریضوں کو منتقل کیا جاسکتا ہے جبکہ
گروپ A خون کو A اور AB ، گروپ B کو B اور AB اور گروپ AB خون کو صرف AB
گروپ کے مریضوں کو منتقل کیا جا سکتا ہے۔جبکہ ہر وہ شخص جس کی عمر17سے
50سال اور وزن تقریباً50کلو سے زائد ہو وہ خون کا عطیہ دے سکتاہے۔اس کے
علاوہ خون کا عطیہ دیتے وقت ڈونر کے ٹیسٹ کئے جاتے ہیں، جن میں ہیپاٹائٹس
بی سی، ایڈز ، ملیریا اور آتشک کے ٹیسٹ شامل ہیں، جس کی وجہ سے ڈونر اپنی
کسی بھی پوشیدہ بیماری سے بھی اس کے لاعلاج ہونے سے پہلے آگاہ ہو جاتا ہے۔ |
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.