ذہنی غلامی کا نیا رنگ
(Syed Shahid Abbas, Rawalpindi)
پاکستانی من حیث القوم ایک عجیب و غریب قوم
ہیں۔ یہ جنگ جیتنے کے صرف 5 سال بعد ہی آدھا ملک گنوا کر دنیا کو حیران کر
دیتے ہیں۔ تو کبھی دنیا کی سپر پاور کے ٹکڑے کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ کبھی
یہ نامساعد معاشی صورت حال کے باوجود ایٹمی قوت بن جاتے ہیں اور کبھی اپنے
سے کئی گنا بڑے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیتے ہیں۔ کبھی یہ پتے کھا کے جنگ
لڑنے کا نعرہ لگاتے ہیں تو کبھی عالمی معاشی اداروں کے چنگل سے نکلنا ان کے
لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ کبھی یہ ایسے بادشاہ بن جاتے ہیں کہ دنیا کو انہیں
ٹھنڈا کرنے کے لیے لالچ دینا پڑتا ہے اور کبھی یہ جی حضوری کا اعلیٰ نمونہ
بن جاتے ہیں۔
پاکستانی شاید واحد قوم ہیں جو سیاسی طور پر غلامی کی بھی تمام جہتوں پہ
پورا اترتے ہیں۔ موجودہ دور میں پاکستانی سیاسی طور پر ایک نئے غلامی کے
دور میں داخل ہوا چاہتے ہیں۔ یہ دور ناموں کی تبدیلی کے ساتھ منسلک ہے۔
بھٹو خاندان کی ایک تاریخ ہے۔ بھٹو تختہء دار پہ جھول گئے، شاہ نواز بھٹو
گئے، میر مرتضیٰ بھٹو خون میں نہلا دیے گئے، نصرت بھٹو آئرن لیڈی کے طور پہ
ابھریں۔ اور جہدو جہد کی نئی تاریخ رقم کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی نسل کی
آخری سیاسی چشم و چراغ (سیاسی حوالے سے، کیوں کہ نہ صنم بھٹو کا ابھی سیاست
میں آنے کا کوئی ارادہ نظر آتا ہے، نہ ہی مرتضی بھٹو کے خاندان کا سیاسی
طور پہ مستقبل قریب میں کوئی واضح کردار نظر آتا ہے لہذا یہ کہنا بے جا
نہیں کہ سیاسی لحاظ سے بھٹو کی وارث بینظیر ہی تھیں) بھی عوام کے جم غفیر
کے بیچ خون میں نہلا دی گئیں۔
بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد چہ مگوئیاں شروع ہوئیں کہ سیاسی قیادت اس
پارٹی کی اب کس کے ہاتھ میں آئے گی۔ یہ سیاسی پارٹی شروع ذوالفقار علی بھٹو
نے کی تھی اور ہم جتنے بھی قلابے عقل و دانش کے ملاتے رہیں اس بات میں شک
نہیں کہ بھٹو خاندان کے علاوہ اس پارٹی کا شیرازی یقینی طور پر بکھر جائے
گا۔ لہذا قرعہ فال بلاول زرداری کے نام نکلا۔ اب اندریں حال سب کو معلوم
تھا کہ پارٹی بھٹو کے نام پہ چل رہی ہے لہذا بلاول زرداری کے نام میں بھٹو
کا لاحقہ زبردستی شامل کر دیا گیا۔ بلاول کا ووٹ اپنے اصل نام سے ہے، ان کا
شناختی کارڈ ان کے اصل نام پہ ہو گا، ان کے دیگر قانونی کاغذات یقینی طور
پر ان کے اصل نام پہ ہوں گے (اگر ایسا نہیں تو یہ یقینی طور پر ایک اور
المیہ ہے) لیکن پاکستانیوں سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے۔ زرداری کے نام کے
بجائے خود کو بی بی کا بیٹا کہلوانے کے لیے، اور بھولی عوام کی ہمدردیاں
حاصل کرنے کے لیے اپنے اصل نام میں ایک نظریاتی نام لگا لیا گیا۔ اور نام
ہو گیا بلاول بھٹو زرداری۔پاکستانی قوم کو کس طرح غلامی کے ایک نئے انداز
میں جکڑا گیا کہ دادا کے بجائے نانا کا نام لگا لیا گیا ۔ پاکستانی عمومی
طور پر ایک جذباتی قوم ہیں۔ اور ان کی بھٹو کے نام کے ساتھ جذباتی وابستگی
ہے۔ غلامانہ ذہنوں پہ وار کرنے کے لیے ناموں میں رد و بدل کیا گیا۔
اب ایک اور قضیہ ملاحظہ کیجیے۔ بحث چل نکلی ہے کہ مریم صفدر کو مریم
نوازپکارا جائے۔ یعنی اندھی تقلید والے کہیں اور جانے نہ پائیں۔ نام اپنا
ہم بدل لیں گے کہ لیکن پاکستانی عوام سے غلامانہ صفات کی وجہ سے ووٹ
اینٹھیں گے نہ کہ کارکردگی ک بنیاد پہ۔ مریم بی بی کو مریم صفدر پکارا جائے
یا مریم نواز فرق کیا ہے؟ مریم صفدر پکارے جانے سے نواز شریف سے جذباتی
وابستگی رکھنے والے اکثریتی ووٹ بینک سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں۔ لہذا یہ
گوارا نہیں کیا جا سکتا۔ ہم نام ہی تبدیل کر لیتے ہیں۔ اور ہماری عوام کا
تو مزاج ہی نرالا ہے۔ یہ جانے بنا کے موروثیت کا دیمک کس طرح وطن عزیز کی
بنیادیں کھوکھلی کر رہا ہے۔ کل کے بچوں کو ان کے باپ دادا کے نام پہ کندھوں
پہ اٹھائے پھیریں گے۔ وہ یہ پوچھنا گوارا نہیں کریں گے کہ آپ خلافِ عام
کیوں اپنے نام تبدیل کر کے ہم کو غلامی میں دھکیل رہے ہیں۔ بلکہ یہ عوام
خود اس غلامی کی زنجیریں پہننے پہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اور زنجیریں کھلنے
کی نوید بھی سنائی دے تو وہ ان زنجیروں کو اور مضبوطی سے تھام لیتے ہیں۔ کہ
یہ غلامی کی ایسی دلدل میں پھنس چکے ہیں کہ ان کو غرض نہیں کہ کون اپنے نام
کے ساتھ کس کا نام لگا کے انہیں بے وقوف بنا رہا ہے۔ ان کا تو بس کام ہے بے
وقوف بننا اور وہ بنتے رہیں گے۔
بلاول زرداری ہوں یا مریم صفدر قصور ان کا نہیں ہے۔ قصور تو عوام کا ہے جو
یہ سوچے بنا کے اگر کارکردگی پہ ہی وہ ہمارے حکمران بننے چلے ہیں تو ناموں
کی تبدلی کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ عوام بس غلامی کی ایک نئی قسم کو اپنے
اوپر حاوی کرتے جائیں گے۔
حکمرانوں کے بچے بھی حکمرانی کے خواب لیے جھولے سے اقتدار کی راہداریوں میں
قدم رکھتے ہیں۔ اور پھر وہ ابھی طفل مکتب ہی ہوتے ہیں تو انہیں ہمارے نجات
دہندہ کے طور پہ پیش کیا جانے لگتا ہے۔ اور ہم کیوں کہ غلامی اپنی سرشت میں
رکھتے ہیں۔ ہم ان کے مقابل اعلیٰ سیاسی اقدار کی مالک شخصیات ہونے کے
باوجود نعرے لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ اور حیرت اس امر پہ ہے کہ کئی سینئر
سیاستدان بھی ان کل کے بچوں کو اپنا راہنما مان لیتے ہیں۔ حالانکہ ان بچوں
کی عمریں تو ان کی تقلید کرنے والے سیاسی راہنماؤں کے سیاسی تجربے سے بھی
کم ہوتی ہیں۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے ان راہنماؤں کا سارا سیاسی تجربہ
ہی غلامی سیکھنے پہ مشتمل ہو۔۔ |
|