میجر محمد علی حیدری شہید (تمغہ بسالت)
(Muhammad Aslam Lodhi, Lahore)
15جون 1999ء کا سورج وادی کارگل کے دراس
سیکٹر کی بلند برف پوش چوٹیوں پر پوری رعنائی سے طلوع ہو رہا تھا ۔پے درپے
شکستوں کی وجہ سے بھارتی فوج پر نزع کی حالت طاری تھی ۔بھارتی توپ خانہ صبح
سے شام تک ہزاروں گولے کنٹرول لائن پر بیٹھے ہوئے پاک فوج کے جوانوں پر
برسا رہا تھا لیکن موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والے اﷲ کے شیر ‘ دشمن
کی بمباری کے باوجود سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنے مورچوں میں ڈٹے ہوئے تھے
۔ دشمن یکے بعد دیگرے تین ٹولیوں کی صورت میں آگے بڑھ رہا تھا ۔ان کے لیے
کارگل کی چوٹیاں واپس لینا زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا تھا ۔ زمینی فوج
کی ناکامی کے بعد بھارت نے اپنی فضائیہ بھی جنگ میں جھونک دی لیکن پاک
سرزمین کے رکھوالوں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے فضائی حملے بھی
برداشت کیے بلکہ حملہ آور طیاروں میں سے دو کوگرا بھی لیا۔تمام تر جارحانہ
اقدامات کے باوجود کارگل سے لداخ اور سیاچن جانے والی واحد رابطہ سڑک پاک
فوج کے کنٹرول میں تھی ۔یادرہے کہ یہ اہم ترین شاہراہ آٹھ مہینے شدید
برفباری کے موسم میں بند رہتی ہے اور مئی سے اگست تک ہی اس شاہراہ کو سیاچن
میں فوجی کمک پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتاہے اگر یہ سڑک ان تین مہینوں
میں پاک فوج کے کنٹرول میں ہی رہتی تو سیاچن میں بھارتی فوج از خود جہنم
واصل ہوجاتی ۔اس لیے دشمن ہر حال میں دراس اور کارگل کی چوٹیاں واپس لینے
کا آرزو مند تھا ۔ میجر محمد علی حیدری ‘ لداخ کے دشوار گزار علاقے میں
چترال سکاؤٹس کے ایک ونگ کی قیادت کررہے تھے ۔انہیں نادرن لائٹ انفنٹری کے
فوجی دستوں کو سامان حرب اور خوراک پہنچانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔اس مشکل
ترین ٹاسک کو وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ خوش اسلوبی سے نبھا رہے تھے ۔ کتنی
بار انہیں فضائی حملے کا سامنا ہوا۔ دوسری جانب بھارتی توپ خانہ کی مسلسل
گولہ باری بھی مشکلات پیدا کررہی تھی جس سے لینڈ سلائیڈنگ کا سلسلہ شروع
ہوجاتا اور ہزاروں من وزنی پہاڑی تودے راستے کی دیوار بن جاتے۔وقت گزرنے کے
ساتھ ساتھ اسلحے اور خوراک کی سپلائی جاری رکھنا انتہائی مشکل ہوتا جارہا
تھا ۔دشمن تو یہی چاہتا تھا کہ سپلائی لائن ٹوٹ جائے اور اگلے مورچوں میں
موجود پاک فوج کے جوان مزاحمت کے قابل نہ رہیں ۔دشمن کاطاقتور مواصلاتی
نظام کارگل کے چپے چپے کی سکینگ کرکے بمباری کروارہا تھا ۔معلومات کی روشنی
میں بھارتی فضائیہ حملہ آور ہوتی ۔پاک فضائیہ ابھی جنگ میں نہیں اتری تھی
اس لیے بھارتی فضائیہ آتشی اور جراثیمی بم برسا رہی تھی ۔15جون کو آپ اپنے
ساتھیوں سمیت خوراک اور اسلحہ لے کر وادی کارگل کی جانب بڑھ رہے تھے کہ
بھارتی طیاروں نے حملہ کردیا ۔بم کا ایک ٹکڑا آپ کی ٹانگ پر لگا جس سے آپ
زخمی ہوگئے اور خون بہنے لگا آپ کو ابتدائی طبی امداد کے لیے پیچھے آنے کا
حکم ملا لیکن آپ نے یہ کہتے ہوئے پیچھے آنے سے انکار کردیا کہ میدان جنگ
میں لگنے والا یہ زخم منزل شہادت کی پہلی کڑی ہے۔۔16جون کے دن میجر محمد
علی حیدری اپنے ساتھیوں کے ساتھ پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی میں مصروف
تھے کہ مشرق کی جانب سے بھارت کے آٹھ جنگی طیارے فضا میں اچانک نمودار ہوئے
اور شدید بمباری شروع کردی ۔آپ ابھی حفاظتی اقدامات کرہی رہے تھے کہ بمباری
کی زد میں آکر موقع پر ہی شہید ہوگئے ۔اسی رات ساڑھے دس بجے لاہور میں میجر
حیدری کی اہلیہ کے گھر فون کی گھنٹی بجی ‘ کرنل اخترعالم قریشی جو
میجرحیدری کے سسر تھے ‘ انہوں نے ریسور اٹھایا تو دوسری جانب میجر حیدری کے
کمانڈنگ آفیسر کرنل عمر بول رہے تھے انہوں نے بتایا کہ میجر حیدری کو فضائی
حملے میں چوٹیں لگی ہیں ان کو سکردو سے راولپنڈی لایاجا رہا ہے آپ بھی
راولپنڈی پہنچ جائیں ۔ میجر حیدری کے بھائی جو ان دنوں پاک فضائیہ میں ونگ
کمانڈر تھے ‘ صرف انہیں شہادت کی اطلاع دی گئی ۔ راولپنڈی سے میجر حیدری کے
تابوت کو کوئٹہ پہنچا یا گیا ۔ ہزاروں لوگوں نے ائیر پورٹ پر شہید کا
استقبال کیا۔ بلوچ ہزارہ قبائل کے فرزند ارجمند میجر حیدری کو ان کے آبائی
قبرستان کوئٹہ میں سپرد خاک کردیا گیا ۔بیٹے ذیشان نے اپنے شہید والد کو جب
لحد میں اتارا تو اس کے کپڑے شہید باپ کے لہو سے سرخ ہوگئے ‘ یہ وہ ذیشان
ہے جس کو" کارگل کے ہیرو" ٹی وی پروگرام میں جب پوچھا گیا کہ آپ بڑے ہوکر
کیا بنو گے تو اس نے کہا میں شہید بنوں گا اور وطن پر قربان ہوجاؤں گا۔میجر
محمد علی حیدری 30مارچ 1966ء کو کھاریاں کینٹ میں پیدا ہوئے جہاں ان کے
والد کرنل برکت علی اپنی یونٹ کے ہمراہ تعینات تھے ۔ ابتدائی تعلیم لارنس
کالج گھوڑا گلی مری ‘ میٹرک کاامتحان 1981ء میں کوئٹہ سے پاس کیا آپ کا
تعلق جنرل موسی خان کے جانباز قبیلے سے ہے آپ کے دادا بھی فوج میں شامل تھے
‘آپ کے بڑے بھائی ونگ کمانڈر سکندر علی ائیرفورس سے وابستہ رہے ۔آپ نے
میٹرک کے بعد ہی آرمی جوائن کرلی تھی۔بعدازاں سرگودھا پی اے ایف سے ایف اے
کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔1990ء میں آپ کی شادی میجر اظہر عالم
قریشی کی بہن اور کرنل (ر) اختر عالم قریشی کی بیٹی سے ہوئی ۔بیگم حیدری
ایک خواب کا ذکر کرتی ہیں کہ نورانی چہرہ والی عورتیں سیاہ رنگ کا چولا
پہنے گھر میں داخل ہوئیں ۔بیگم حیدری کے ہاتھ میں سبز رنگ کا چمکتا ہوا
کپڑا دے کرفرمایا یہ لے لو ۔بیگم حیدری نے کہا یہ رنگ میں نہیں پہنتی اس پر
جواب ملا آپ کے لیے یہ بھی ایک اعزاز ہے ۔بیگم حیدری کے بقول کوئٹہ قبرستان
میں ہر لمحے میجر حیدری شہید کی قبر پر لوگوں کاہجوم جمع رہتا ہے لوگ منتیں
مانتے ہیں اور مانتیں پوری ہونے پر حاضری دیتے ہوئے قرآن خوانی کرتے ہیں۔بے
شک شہید زندہ ہوتا ہے لیکن ہمیں اس کا شعور نہیں ۔آپ کو بعد از شہادت تمغہ
بسالت سے نوازاگیا۔ |
|