نہر اور آلودگی!

 مجھے قریباً دو کلومیٹر سفر نہر کے کنارے کرنا ہوتاہے، میری خواہش ہے کہ یہ سفر میری ذہنی آسودگی کا ساماں ثابت ہو۔ اس نہر کی چوڑائی پندرہ فٹ ہے ، اس کے اندرونی کنارے پختہ ہیں، بیرونی کناروں پر ایک طرف پختہ سڑک مکمل ہے ، دوسری طرف کچھ سڑک پختہ اور کچھ کچی ہے، میرا راستہ پختہ کنارے پر ہے۔ یہ مختصر سفر روزانہ درجنوں جھٹکے جسم اور ذہن کو لگاتا ہے، اگر گاڑی کو لگنے والے ہر جھٹکے کو شمار کیا جائے تو یہ دوطرفہ تین درجن سے زائد ہیں۔ سڑک کا جابجا ٹوٹا ہونا الگ کہانی ہے، مگر سڑک (نہر) کے کناروں پر بسنے والے مکینوں کی طرف سے توڑی گئی سڑک کی بات دوسری ہے اور یہی ذہنی جھٹکوں کا موجب ہے ۔ بہت سے مکینوں نے سڑک میں سے نالی سی کھود کر اپنے باتھ روم وغیرہ کی غلاظت کو نہر کے سپرد کرکے اپنی صفائی کا اہتمام تو کر لیا ہے، مگر گندگی کو نہر میں گرانے سے تو کثافت اور تعفن نہر میں گیا، اس کا کوئی احساس نہیں کیا۔ تعلیم، تہذیب، امارت اور غربت وغیرہ کا فرق رکھنے والے تمام لوگ غلاظت کو نہر میں پھینکنے کے سلسلے میں ایک ہی ذہنی سطح کے مالک دکھائی دیتے ہیں، کہ ہر کسی کی نالی سڑک کو برباد کرتی ہوئی نہر میں گر کر پانی کو خراب کر رہی ہوتی ہے ۔ کھودی جانے والی نالی میں پائپ وغیرہ ڈال کر اوپر مٹی ڈال دی جاتی ہے، وہ جگہ یا تو مستقل سپیڈ بریکر کی صورت اختیار کر گئی یا پھر ایک کھڈے کی صورت سطح سڑک سے نیچے رہ گئی ، ہر گزرنے والی سواری کو دونوں صورتوں میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

نہر کے کنارے رہنے والے یہ مہربان صرف باتھ روم کا گند ہی نہر میں نہیں ڈالتے، بلکہ اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ بھی نہر میں گرانے سے نہیں ہچکچاتے۔ یہ لوگ رات کی تاریکی یا صبح منہ اندھیرے کا انتظار نہیں کرتے بلکہ جس وقت دل چاہا، کچرے کا شاپرنہر میں اچھال دیا، شاپر کی شرط بھی ضروری نہیں، ٹوکری نما کسی کھلے برتن میں کچرا ڈالا اور کنارے پر کھڑے ہو کر نہر کے حوالے کردیا، کچھ اندر جا گرا اور کچھ ہوا کے دوش پر دوبارہ کنارے اور سڑک پر آرہا۔ یوں دو کلومیٹر میں جہاں آبادی کچھ زیادہ ہے، نہر کا کنارہ کچرے کے ڈھیر کا منظر پیش کر رہا ہے۔ نہر کے کنارے پختہ ہیں، مگر وہاں بھل صفائی کا خیال کم از کم تین برس سے کسی ذمہ دار کو نہیں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ نہر میں کنارے سے دو دو تین تین فٹ اندر تک مٹی (بھل) جم چکی ہے، اس بھل پر گھاس پھوس خوب پھل پھول رہا ہے، کیونکہ اسے زرخیز مٹی اور نہری پانی ہمہ وقت دستیاب رہتا ہے۔ کناروں کے باہر جڑی بوٹیوں اور خود رو خار دار جھاڑیوں نے بھی اپنا حصہ وصول کیا ہوا ہے۔ کم از کم تین برس سے محکمہ نہر کا کوئی اہلکار یہاں نہیں دیکھا گیا، البتہ گزشتہ دنوں ایک صاحب ا یک لمبے ڈنڈے کے ساتھ گھی نکالنے والی ٹیڑھی انگلیوں جیسی لوہے کی سلاخیں لگے آیا اور کنارے پر کھڑے ہو کر پانی میں پھیلنے والی جڑی بوٹیوں اور بیلوں وغیرہ کو کھینچ کر باہر نکالنے لگا۔ کچھ لیپا پوتی کرتا آگے بڑھتا گیا، تاہم معاملہ جوں کا توں ہی رہا۔ اس اندرونی مٹی پر جڑی بوٹیوں کی افزائش کا عالم یہ ہے کہ بعض مقامات پر نہر کا پانی صرف تین چار فٹ ہی دکھائی دیتا ہے، گویا نہرکی چوڑائی محض اتنی ہی ہے۔

دو چار جگہوں پر تو یار لوگوں نے نہر کے کنارے گوبر کے ڈھیر لگانے سے بھی گریز نہیں کیا، یعنی گھر کے سامنے خالی جگہ چھوڑی، پھر سڑک پار کی اور پھر نہر کے کنارے گوبرکا ڈھیر لگا دیا، جب ڈھیر کچھ بڑا ہوگیا تو گوبر نے نہر کی طرف رخ کر لیا اور کچھ سڑک پر لوٹ آیا، یوں گھروں کے دیگر کچرے کے لئے علاوہ یہ نئی ورائٹی پیش کی گئی ہے۔ یہی نہیں، گوبر کے ڈھیروں کے قریب ہی خواتین پختہ کنارے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے (تمام تر کچرے اور غلاظت کے باوجود) کپڑے دھوتی ہیں، اپنے بچوں کو نہلاتی ہیں، برتن دھوتی ہیں، اورموقع پا کر خود بھی ڈبکی لگا لیتی ہیں۔موسم گرما میں یہاں عجیب سماں ہوتا ہے، بھینسوں کے جتھے نہر میں لیٹ کر اپنی زندگی کے خوبصورت لمحات سے لطف اندوز ہوتے ہیں، غوطے کھانے کے ساتھ ساتھ کناروں پر اُگے گھاس پر بھی ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ اِ ن بھینسوں کے علاوہ نہر کے کناروں پر بکریوں اور بھیڑوں کے ریوڑ بھی اپنے لئے رزق کی تلاش کرتے پائے جاتے ہیں، اگر کسی ہم جیسے سادے آدمی پر نہر کے کنارے جڑی بوٹیاں اکھاڑ کر پودے وغیرہ لگانے کا خبط سوار ہو گیا تو چرندوں کے یہ ریوڑ امیدوں، خوابوں اور کوششوں پر پانی پھیرنے میں لمحے کا توقف بھی نہیں کرتے۔ یوں کناروں پر اگائے جانے والے پودے غیر طبعی موت سے دوچار ہو جاتے ہیں۔

ہمارے شہر میں پی ایچ اے (پارکس انیڈ ہارٹیکلچرل اتھارٹی) بھی ہے، جس نے شہر کو خوبصورت بنانے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے، یقینا شہر کی بڑی سڑکوں کو خوبصورت بنانے کے لئے کافی اقدامات کئے گئے ہیں، مگر مذکورہ بالا چھوٹی سی نہر کے تین چار کلومیٹر کے ٹکڑے پر اگر اتھارٹی کی نگاہِ کرم پڑ جائے توشہر والوں کے لئے ایک نہایت خوبصورت اور منفرد پارک کا بندوبست ہو سکتا ہے، سڑک کی مرمت اور مکمل ہو جائے، غلاظت کی نالیاں بند ہو جائیں ، کچرا پھینکنے پر پابندی لگ جائے، کناروں پر درخت اور پھول لگ جائیں، بھل صفائی ہو جائے، تو شہر یوں کو ایک نیا اور زبردست پارک دستیاب ہو سکتا ہے۔ مگر کیا کیجئے کہ حکومتوں اور سرکاری محکموں سے مطالبات تو کئے جاسکتے ہیں، کسی حد تک توقعات بھی رکھی جاسکتی ہیں، مگر کتنے خواب شرمندہ تعبیرہوتے ہیں؟ اور کتنی خواہشیں پایہ تکمیل کو پہنچتی ہیں؟ یہ مراحل صبر آزما ہیں۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427229 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.