مشرق وسطیٰ میں فلسطین کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ
ٹرمپ ، یورپی یونین ، ان کے عرب حکمران اور اسرائیل ایک فارمولے کو حتمی
شکل دینے میں مصروف ہیں ، جس کو ڈیل آف سنچری کا نام دیا جا رہا ہے۔ سابق
امریکی صدر بارک اوباما جس خاکے کو تیار کرنے میں ناکام ہو گئے تھے۔مسٹر
ٹرمپ ، سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے تعاون سے فلسطین کے حتمی حل کے
قریب پہنچ گئے ہیں۔ امریکی جیوش کونسل واشنگٹن کی طاقتور ترین لابی ہے، جس
نے بھارت ، امریکا کا جوہری معاہدے کو کانگریس اور سینٹ سے منظوری دلوانے
میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مشرق وسطیٰ میں خصوصاََ اسرائیل اور سعودی عرب
کے درمیان بیک چینل تعلقات کے حوالے سے وہ خاصی سرگرم چلی آ رہی ہے ، یہ
تسلیم کر چکی ہے کہ اسرائیل کی تمام تر جارحانہ کاروائیوں کے با وجود ایک
حقیقت کا ادراک یہودیوں اور اسرائیلی حکام کو ہو گیا ہے کہ وہ قابل تسخیر
نہیں ہیں۔ توسیع پسندی اب کسی بھی صورت میں اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے ،
فوجی اعتبار سے اسرائیل چاہے تو سرحدوں کو وسیع کرنے کی قوت رکھتا ہے ، مگر
پھر مقبوضہ علاقوں کی آبادی کو بھی ملک میں شامل کرنا پڑے گا، جس سے ظاہر
ہے کہ یہودیوں کے اقلیت میں تبدیل ہونے کا خدشہ لاحق ہوگا ۔ دنیا بھر میں
یہودی محض ایک کروڑ ہیں، جن میں ساٹھ لاکھ کے قریب اسرائیل میں رہتے ہیں۔
اس لئے فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیلیوں کیلئے بھی اپنی بقا کے لئے سرحدوں کا
تعین کرنا ضروری ہے۔ ٹرمپ کیلئے شاید اس لئے بھی ضروری ہے کہ شام کے بحران
میں اگر کسی کو سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہوا ہے تو وہ روسی صدر ولادی میر
پوتن ہے۔ بنیا مین نیتن خود کئی بار دو ریاستی فارمولے کو مسترد کر چکے ہیں
، لیکن اب انہیں اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنا پڑے گا کیونکہ یک ریاستی حل کسی
بھی طور سے اسرائیل کے حق میں نہیں ہے۔ ایک ریاست کے قیام کا مطلب مستقبل
میں عرب اسٹیٹ کاقیام اور یہودی ریاست کا خاتمہ ہے۔ اس کے پیچھے ایک وجہ یہ
بھی ہے کہ اسرائیلی علاقوں میں مسلمانوں کی افزائش نسل یہودیوں سے کئی گنا
زیادہ ہے ۔ 1967 میں عرب اسرائیل کی آبادی کا چودہ فیصد تھے، جو ہنوز لگ
بھگ بائیس فیصد ہو چکے ہیں۔ یہ وہ مسلمان ہیں جنہوں نے اسرائیل کی شہریت
اختیار کی ہوئی ہے اور وطنی طور پر اسرائیلی عرب کہلاتے ہیں۔ اس حقیقت کے
پیش نظر اسرائیل کسی بھی صورت میں پچاس لاکھ فلسطینی مہاجرین کو واپس لانے
کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جن ممالک میں وہ پناہ گزین ہیں ، انہی کو ان کی
مستقل رہائش کا بندو بست کرنا پڑے گا، کیونکہ مغربی کنارہ اور غزہ بھی شاید
ان کو بسا نہیں پائے گا۔القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں اسرائیل کی نسبت عرب
ممالک کیلئے زیادہ خطرہ ہیں۔ اس لئے اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرنا ان عربوں
کے مفاد میں ہے۔ اس وقت خلیجی ممالک سعودی عرب ، اردن ، مصر وغیرہ سبھی
مسئلہ فلسطین کا حل چاہتے ہیں، کیونکہ فلسطین کے نام پر ہی دہشت گرد
تنظیمیں مسلم نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں اور تشدد کا جواز فراہم
کراتی ہیں۔ اس مسئلے کے حل کی صورت میں مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین
مکالمے کا دروازہ بھی کھل سکتا ہے۔یہودی اسلام سے زیادہ عیسائیت سے خائف
رہتے تھے اور مختلف ادوار میں عیسائیوں نے ان پر خوب ظلم ڈھائے تھے۔اگر اس
قدر خوں ریز تاریخ کے ہوتے ہوئے بھی عیسائی اور یہودی ایک دوسرے کو معاف کر
سکتے ہیں تو آخر اسلام اور یہودی کیوں نہیں! صدر ٹرمپ اور ان کے معاونین کی
طرف سے فلسطینی مسئلے کا جو حل منظر عام پر آیا ہے اس کے اہم نکات یہ ہیں
کہ مغربی کنارہ و غزہ پر مشتمل علاقے کو نئی فلسطینی ریاست قرار دیاجائے۔
فلسطینی مہاجرین کی اپنے گھروں کو واپسی کا معاملہ ہمیشہ کیلئے بند ہوجائے
گا۔ یا تو ان کو اس نئی فلسطینی ریاست میں رہنا ہوگا یا جس ملک میں مقیم
ہیں وہیں ضم ہونا پڑے گا۔ 1993 میں اوسلو میں اسرائیلی اور فلسطینی قیادت
کے درمیان طے پائے گئے سمجھوتے میں ایک فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں
آیا تھا اور چالیس لاکھ کی آبادی کو دو خطوں مشرق میں غزہ اور اور اردن کی
سرحد سے متصل مغربی کنار ے میں تقسیم کیا گیا تھا۔نسبتََا وسیع مغربی کنارے
کا انتظام الفتح کی قیادت کی حامل فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے پاس ہے اور
غزہ میں اسلامک گروپ حماس بر سرِ اقتدار ہے ۔ جہاں پی ایل او اسرائیل کو
تسلیم کرتا ہے وہاں حماس فلسطینی بستیوں میں بسائی گئی یہودی ریاست کے وجود
سے انکاری ہے۔چونکہ مغربی کنارہ اور غزہ کے درمیان کوئی زمینی رابطہ نہیں
ہے، اس لئے ان کو منسلک کرنے کیلئے اسرائیلی علاقوں سے تیس میٹر اوپر ایک
سو کلومیٹر طویل فلائی اوور بنایا جائے گا، جس کیلئے چین سے رابطہ کیا جا
رہا ہے۔متوقع معاہدے کی رو سے اسرائیل مرحلہ وار فلسطینی قیدیوں کی رہائی
عمل میں لائے گا اور اس میں تین سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ القدس شہر کو
تقسیم نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس کا کنٹرول اسرائیل کے پاس ہی رہے گا ۔ شہر
میں مکین عرب مسلمان اسرائیل کے بجائے فلسطین کے شہری ہوں گے ۔ ان کی بہبود
، تعلیم و صحت کیلئے نئی فلسطینی سٹیٹ اسرائیلی بلدیہ کو رقوم فراہم کرے
گی۔الاقصیٰ حرم پر جوں کی توں پوزیشن برقرار رہے گی۔ یعنی بدستور اردن کے
اوقاف کے زیر نگرانی رہے گا۔ ویسے سعودی عرب اس کے کنٹرول کا متمنی تھا۔
تاکہ ریاض میں موجود فرماں روا سبھی تین حرمین ، یعنی مکہ ، مدینہ و مسجد
اقصیٰ کے متولی یا خادم قرار پائیں۔اسرائیلی علاقوں کی ترقی دیکھ کر جہاں
یورپ اور امریکہ بھی شرما جاتا ہے، وہیں چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہی
فلسطینی علاقوں کی کسمپرسی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے،نو عمر فلسطینی بچے
سگریٹ، لائیٹر وغٖیرہ کچھ ایسی چیزیں بیچتے، پانی کے ٹینکر پر ایک جم غفیر
لپکتا دکھائی دیتے ہیں ۔ مقتدر فلسطینی لیڈر خالد مشعل اس ڈیل آف دی سنچری
کی نفی کرتے ہیں ۔حماس کا رویہ کسی بھی طرح سے امن و استحکام میں رکاوٹ
نہیں ہے۔ یاسر عرفات اورمحمود عباس نے اسرائیل کو تسلیم کیا، مگر ان کے
ساتھ کیا ہوا؟ تحریک میں شارٹ کٹ کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ اس کو منطقی انجام
تک پہنچانے کیلئے استقامت ضروری ہے۔ اپنے آپ کو مضبوط بنانا اور زیادہ سے
زیادہ حلیف بنانا بھی تحریک کی کامیابی کیلئے ضروری ہے۔ تاریخ کا پہیہ سست
ہی سہی مگر گھومتا رہتا ہے ۔ تاہم ابھی تک حماس 2006 کے نیشنل فلسطین
ایکارڈ پر کاربند ہے، جس کی رو سے وہ دیگر گروپوں کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ
مذاکرات میں رکاوٹ نہیں بنے گا، مگر یوں لگتا ہے کہ ان مذاکرات کا کوئی
مستقبل نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی جب امریکہ اور عرب کے مابین فلسطین کا
مسئلہ حل ہونے کے قریب تھا تو اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم نے امریکی صدر
کو دھمکی دی تھی کہ’’ ہمیں چیکو سلواکیہ نہ سمجھا جائے، اور ہمارے خرچ پر
عرب کی خوشامد نہ کرو، ہم اپنے زوربازو پر انحصار کرتے ہیں‘‘۔ کمزور اور
طاقتور میں کوئی معاہدہ نہیں ہو سکتا ، سیاسی لحاظ سے فلسطینیوں کو مضبوط
اور طاقت ور بننے کی ضرورت ہے۔
|