حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا میں بسنے والی مخلوق دو طرح کی ہے
ایک عاقل دوسری غیر عاقل۔ عاقل میں جن اور انسان شامل ، جبکہ غیرعاقل میں
دیگر تمام مخلوق۔
جب سے انسان نے زمین پر قدم جمایا عقل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمہ وقت زندگی
سہل بنانے میں مصروف عمل رہتا۔ ہر دور میں مفکر ہوئے، سائنسدان ہوئے،
سوشیالوجسٹ ہوئے، سائیکالوجسٹ ہوئے، طبیب ہوئے،ریاضی دان ہوئے،ماہر فلکیات
ہوئے گویا کہ ایک لمبی لسٹ ۔بظاہر تو انسان تھے دو کان ، دو آنکھیں، دو
ہاتھ ، دو پائوں اور سوچنے کے لیے ایک دماغ مگر دکھ درد بانٹنے میں برابر
کے شریک ہوئے۔
شاعر کے الفاظ میں
آدمی کا آدمی ہر حال میں ہمدرد ہو
اک توجہ چاہئے انساں کو انساں کی طرف
لوگو!
کہے دیتا ہوں۔
پھر یہ ہمدردری ایسی نتیجہ خیز ثابت ہوئی کہ
جس کام کو کٹھن پایا، مشکل سے دو چار پایا، زندگی اور موت کا مسئلہ سمجھا
انتہائی دانشمندی، سوچ و بکار اور تدبر سے کام لیا۔ میدان میں اترے، مشکلات
کو گلے لگایا، طعن و تشنیع کے تیر کھائے مگر اپنی کوششوں کو آڑے ہاتھ نہ
آنے دیا، خلوص سے مگن رہے اور سنگ میل ثابت ہوئے۔
ہائے
سورہ نجم کی آیت کس وقت یاد آئی ۔
عرش والے نے فرمادیا۔
لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ
انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہوگی۔
یقین جانئیے۔
ایسی کوشش، ایسی جدوجہد کہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ،بہرحال ذکر کیے دیتا
ہوں۔
لوگو!
مشکل آئی تو حل نکال دیا، بھاری وزن کو اٹھانے کا معاملہ آیا تو پلی دریافت
کردی، بلندی سر کرنی چاہی تو انکلائیڈ پلین بنادیا، پیمائشی معاملات کے لیے
ورنیئر کیلپر اور سکریو گیج ایجاد کر دیا، مال برداری کا مسئلہ آیا تو پہیہ
بنا دیا، بیماری آئی تو ویکسینیشن دریافت کردی، مرض کی تشخیص کے لیےجسم کو
سکین کرلیا، ظاہری خوبصورتی میں آضافے کے لیےکپڑوں کے پرنٹنگ پریس لگا
لیے،میدان کراکری میں عروج پالیا،معلومات عامہ کے لیے ریڈیو کےموجد بن گئے،
اندھیر ی راتو ں کو الیکٹرک قمقموں سے چراغاں کردیا،زمین کے سینے کو کاٹ کر
ایندھن اور دیگر معدنیات تک رسائی حاصل کر لی ، دہکتے سورج کی حرارت کو
محفوظ کرلیا، میخ نما پہاڑوں کو ہموار کر کے راستے بنا لیے، جنگی میدانوں
میں تلوار، نیزہ اور تیر کو چھوڑا میزائل ، ٹینک ، ہینڈ گرنیڈ بموں اور
جنگی طیاروں کا استعمال کر دیا، سمندرکی گہرائیوں میں آبدوز کو اتار دیا،
بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر غذائی قلت کو پورا کرنے کے لیے کھاد بنا دی،
زمین پر کمی محسوس کی توزمین سے حجم میں مزید بڑےسیارے دریافت کر لیے اور
اب ان پر پڑائو ڈالنے کے لیے ہمہ وقت تیار۔
لوگو!
شاعر نے اسی لیے کہاتھا۔
پیکر خاکی نے ڈالی ہے ستاروں پر کمند
خاک کے سینے سے اک سورج نیا پیدا ہوا
سلسہ رکا نہیں، تھما نہیں ، قافلہ رواں دواں ہو چکا ،سالہا سال بیت چکے نوع
انسانی ترقی کرتی چلی گئ گویا کہ ہر دور خود سے جدت کا شاہکار سمجھا جاتا ۔
ہر معاملہ سلجھا لیا، حل تلاش کر لیا کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا
سوائے موت کے۔
اتنی ترقی کہ
موجودہ دور گلوبل ولیج کے نام سے پہچانا جانے لگا۔
سبب کیا ہے؟
برق رفتار آئی، آہستگی دم توڑ گئی، دوری ختم ہوئی ہر کوئی قریب، سفر کے لیے
بیل گاڑی اور اونٹ کو خیر باد کہا، ہوائوں میں جہاز اڑا دیے، سمندروں میں
بیڑے لنگر انداز ، پیغام رسانی کے لیے سست روی کے طریقے ختم کمپیوٹرائزڈ
ٹیکنالوجی نے جگہ بنا لی، سیٹلائیٹ خلا میں چھوڑدیے، پوری دنیا سے
بروڈکاسٹنگ شروع ہوچکی، اب ہوا ہر پروگرام براہ راست۔
دوستو!
ماضی قریب نوے کی دہائی میں،
انٹرنیٹ کی ایجاد کے بعد فیس بک، انسٹاگرام، واٹس ایپ، ایمیل اور ٹوئیٹر
جیسی مقبول اپلیکیشنز نے ٹیکنالوجی کے میدانوں میں ہنگامہ برپا کردیا۔
پھر ہواکیا؟
گھنٹے منٹوں میں، منٹ سیکنڈوں میں، سیکنڈ لمحات میں۔ معلوم ہوتا دنیا تیز
ہو گئ بلکہ تیز سے تیز تر۔ اتنی تیز کہ بٹن دبانے کی دیر بس
اس کے پیچھے کون ہے؟
بڑوں کی، بزرگوں کی، ہم عمر کی، چھوٹوں کی محنت ہے۔ جنھوں نےاپنی مہارتوں
کا لوہا منوایا اور رہتی دنیا تک کتابوں کی زینت بنےہوئے۔ ایسی زینت کہ ہر
دور کی جنریشن ذکر کیے بغیر نہ رہے۔
شاعر کے الفاظ میں
محنت سے مل گیا جو سفینے کے بیچ تھا
دریائے عطر میرے پسینے کے بیچ تھا
لوگو!
آج کے اس دور میں ہرکوئی چاہتا تو
آسانیاں چاہتا ، معاملات کو آسانی سے نبھانا چاہتا، الجھی ہوئی گتھیوں کو
سلجھانا چاہتا، ان ایجادات سے مستفید ہونا چاہتا ، بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ
بدلنا چاہتا،تیز ی سے دنیا کے ہمقد م ہونا چاہتا۔
نہیں چاہتا تو
مشکلات کو گلے لگانا نہیں چاہتا،مصائب کے بھنور میں پھنسنا نہیں
چاہتا،دشواریوں سے ہمکلام ہونا نہیں چاہتا۔
سبب کیاہے؟
انسان ہیں ہر وقت آسانی ڈھونڈتے ، تھکن محسوس کرتے ،عادی ہوئے تو جدید
مشینری کے، منٹوں میں کام نمٹانے کے ، ہر کوئی سوار ہوا تو جدت پسندی
کاشہسوار ہوا۔
اسی لیے تو کہتا ہوں۔
دنیا تیز ہو گئی |