الطاف حسین ،نواز شریف :بار بار فوج کو دعوت کیوں؟

اب نواز شریف صاحب نے بھی وردی والوں کو دہائی دی ہے کہ وہ ملک کی حالت سنوارنے کے لئے مدد کریں۔اخباری اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی صاحب کو فون کر کے فوج،عدلیہ اور سیاسی قیادت کے ساتھ ملک کر ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے کی حکمتِ عملی تیار کرنے کی تجویز دی ہے۔ یہ تجویز کتنی اچھی ہے یا اس کے کیا مضر اثرات ہیں اس پر بات کرنے سے پہلے ہم یہ بات کریں گے کہ آخر ہمارے سیاسی لیڈران گاہے بگاہے مسائل کے حل کے نام پر فوج کو کیوں آواز دے رہے ہیں۔ میاں نواز شریف صاحب سے قبل متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین صاحب بھی فوج کو مداخلت کی دعوت دے چکے ہیں۔

ہمارے نزدیک اس کی اہم وجہ ریمنڈ ڈیوس کا کیس ہے۔ کیوں کہ ریمنڈ ڈیوس کا کیس امریکہ اور پاکستان دونوں کی حکومت کے لئے چھچھوندر کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے جس کو نہ اگلا جاسکتا ہے اور نہ ہی نگلا جاسکتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے لئے امریکی پریشانی اور بے تابی تو سمجھ میں آتی ہے کہ وہ ان کا اہم ہتھیار، ایک اہم کارندہ ہے جس کو وہ گنوانے کا رسک نہیں لے سکتے لیکن اس حوالے سے پاکستانی حکومت،دفتر خارجہ اور حکومت کی اتحادی و وپوزیشن جماعتوں کا موقف بہت غیر مبہم،ڈھکا چھپا اور خوف میں ڈوبا ہوا ہے۔ مذکورہ بالا جماعتوں نے اگرچہ لاہور کے سانحے کی مذمت تو کی ہے لیکن کسی نے بھی اس واقعے پر امریکی حکومت سے باقاعدہ احتجاج نہیں کیا ہے حتیٰ کہ پاکستانی حکومت اور دفتر خارجہ نے بھی نہیں!دیکھا جائے تو اس واقعے پر امریکی سفارت خانے اور قونصل ہاؤس پر احتجاج کرنے،اور حکومت کی جانب سے کمزور موقف کے خلاف آواز اٹھانے میں حکومتی اتحادی و اپوزیشن جماعتوں کے بجائے مذہبی جماعتیں، تحریک انصاف اور پاسبان وغیرہ نمایاں ہیں جبکہ مسلم لیگ ن ق ،پی پی پی ،ایم کیو ایم ،اے این پی وغیرہ نے صرف بیانات کی حد تک لاہور کے سانحے کی مذمت کی ہے لیکن عوامی سطح پر کسی بھی قسم کا کوئی رابطہ یا احتجاج نہیں کیا گیا۔

اب صورتحال یہ ہے کہ وفاقی حکومت اس کیس کو پنجاب حکومت کے سر ڈال کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کررہی ہے اور رحمان ملک و بابر اعوان سمیت پی پی پی کے کئی اہم رہنما یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ’’ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ پنجاب حکومت کا ہے وہ جانے اور امریکہ جانے‘‘ ادھر صدر مملکت امریکہ کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے اور دوسری جانب وہ کچھ کر بھی نہیں پارہے ہیں اس لئے وہ اور ان کی پارٹی کے ترجمان و دیگر رہنما ریمنڈ ڈیوس کو ایک سفارت کار کے تحت سزا سے مستثنیٰ قرار دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں ،پی پی پی کی سابقہ سیکرٹری اطلاعات محترم فوزیہ وہاب صاحبہ نے تو گزشتہ ماہ کراچی پریس کلب پر ایک پر ہجوم پریس کانفرنس میں باقاعدہ دستاویز اور کتابیں ہاتھوں میں لیکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ امریکی قاتل ایک سفارت کار ہے۔ اور دوسری جانب خادمِ اعلیٰ پنجاب اور ان کی پارٹی کھل کر یہ بھی نہیں کہتے کہ رینمڈ ڈیوس ایک قاتل ہے اور قتل کی سزا سزائے موت ہے اور نہ ہی اس کی کھل کر حمایت کرتے ہیں بلکہ وہ ایک ڈپلومیٹک جواب دیتے ہیں کہ ’’ معاملہ عدالت میں ہے اور عدالت ہی اس کا فیصلہ کرے گی‘‘ ویسے ایک لحاظ سے یہ پالیسی درست بھی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکی قونصل خانہ اور امریکی سفیر و دیگر امریکی اہلکاروں پر یہ بات واضح کردی جائے کہ وہ اس کیس میں مداخلت نہ کریں لیکن ایسا بھی نہیں ہورہا ہے۔

اب چونکہ امریکی قاتل کا جرم واضح ہے،کیس مضبوط ہے اور اس کے خلاف شہادتیں بھی موجود ہیں،جبکہ سول سوسائٹی،سیاسی جماعتیں ،میڈیا اور عدلیہ نے بھی اس حوالے سے قابل تحسین کردار ادا کیا ہے ۔ اس لئے امریکی قاتل کا قانونی طور پر بچاؤ تو ممکن نہیں ہے اس لئے اب دو طرفہ پالیس کے تحت کام کیا جارہا ہے۔ پہلی پالیسی تو یہ ہے کہ مقتولین کے اہل خانہ سے مذاکرات اور دھمکیاں دونوں باتیں کی جارہی ہیں ایک طرف ان کو اسلامی قانون کے مطابق خون بہا اور تصفیہ کرنے کے لئے راضی کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ چوہدری شجاعت صاحب تو کھل کر اس کی حمایت کرچکے ہیں جبکہ اب مسلم لیگ ن نے بھی اس جانب اشارہ دیدیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب مقتولین کے اہل خانہ کو کو دھمکایا بھی جارہا ہے۔ کیس کے مدعیان کے گھروں پر نامعلوم افراد کی جانب سے گمنام ٹیلفون کے ذریعے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں جبکہ مقتول فہیم کے ماموں کے گھر میں گھس کر ان کو زہر دینے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔

الطاف حسین ،نواز شریف :فوج کو دعوت کیوں؟

دوسری پالیسی کے تحت پی پی پی ،حکومتی اتحادی جماعتوں اور میڈیا کی کچھ کالی بھیڑوں کے ذریعے یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ ’’امریکہ ایک سپر پاور ہے۔ اس سے ٹکر نہیں لینا چاہئے۔ ہم اس کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے،اگر ہم نے امریکہ کی بات نہ مانی تو ہماری امداد بند ہوجائے گی،ہماری معیشت تباہ ہوجائے،ہماری تجارت ختم ہوجائے گی وغیرہ وغیرہ‘‘ جبکہ یہ ساری باتیں نئی نہیں ہیں بلکہ دس سال قبل نائن الیون کے بعد جنرل مشرف بھی قوم کو یہ ساری باتیں کہہ کر ڈراتے رہے ہیں کہ اگر امریکہ کی بات نہ مانی تو پتھر کے دور میں بھیج دیا جائے گا۔ ( لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی بات مان کر ہم اس سے بھی بدتر حالات سے دوچار ہیں ۔ہماری میعشت تباہ ہورہی ہے، پوری دنیا میں ہمارا امیج خراب ہوا،ہمارا ملک بد امنی کا شکار ہوا،)یہ ساری باتیں تمام قارئین کے علم میں بھی ہیں۔ اس طرح کی باتیں کر کے عوام کے ذہنوں کو منتشر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

امریکہ کو اتنی محنت اس لئے کرنا پڑ رہی ہے کہ اس وقت ملک میں لولی لنگڑی،جیسی تیسی ہی سہی بہر حال جمہوریت موجود ہے اور جمہوریت میں دستور فعال ہوتا ہے ،پارلیمنٹ موجود ہوتی ہے جو دستور کے مطابق کام کرتی ہے۔ عدلیہ آزاد ہوتی ہیں،میڈیا عوام تک حقائق پہنچانے میں آزاد ہوتا ہے۔ عوام کی آزادی (کم ہی سہی لیکن بہر حال کچھ آزادی تو ہے ) سلب نہیں کی جاتی،فوج اپنے دائرہ کار میں رہتی ہے۔ اور صدر یا وزیراعظم مطلق العنان نہیں ہوتے بلکہ وہ بھی عوام اور پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں (اگرچہ صرف نام کے لئے ہی سہی لیکن بہر حال جواب دہ تو ہوتے ہیں ) ۔ جبکہ آمریت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا ۔ایک فرد واحد ریاست کے سیاہ و وسفید کا مالک ہوتا ہے۔دستور معطل ہوتا ہے۔پارلیمنٹ اول تو ہوتی ہی نہیں ہے اگر ہو بھی تو وہ ایک ربر اسٹمپ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی،عدلیہ آزاد نہیں ہوتی بلکہ وہ بھی فوجی آمر کی مرضی کی پابند کردی جاتی ہے،میڈیا پر پابندیاں عائد کردی جاتی ہیں کہ وہ صرف وہی دکھائے جو آمر دکھانا چاہتا ہے،وہی کہے جو وہ کہنا چاہتا ہے ۔ عوام کی آزادی سلب کردی جاتی ۔آمریت کے دور میں استعمار کو اپنے کسی بھی مقصد کے لئے کسی سیاسی جماعت،کسی لیڈر،کسی قانون کی پاسداری کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ فرد واحد سے معاملات طے کرلیجئے جاتے ہیں،اور بس بات ختم!

اسی لئے اس وقت پاکستان میں لولی لنگڑی اور کمزور سی جمہوریت بھی امریکی عزائم کی راہ میں رکاوٹ ہے۔اور اسی لئے امریکہ اپنے انہی ایجنٹوں کے ذریعے ایک بار پھر بہانے بہانے سے فوج کو سیاسی عمل میں مداخلت کی دعوت دے رہا ہے تاکہ جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جائے۔ اس کے بعد کونسی عدالت،کونسا قانون،کیسا تصفیہ اور کیسا خون بہا۔بس جو کرنا ہوگا وہ ایک فرد واحد کے ذریعے کردیا جائے گا۔ اور یہی وجہ ہے کہ سیاسی لیڈران کرام معاملات کے حل کے نام پر فوج کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ ان کا یہ دیکھنا اپنی مرضی سے نہیں ہے بلکہ یہ سارے تو کٹھ پتلی ہیں۔ نواز شریف ہوں یا شہباز شریف،چوہدری برادران ہوں یا اے این پی،صدر زرداری ہوں یا الطاف حسین ۔یہ لوگ آقاؤں کی مرضی کے مطابق ایجنڈ ا ترتیب دیتے ہیں اور پھر بڑی خوبصورتی سے اس کو عوامی مفاد کے نام پر عوام کے سر پر مسلط کرنے کی کوششیں شروع ہوجاتی ہیں۔اور ہوگئیں ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں جمہوری عمل میں فوج کو مداخلت کی دعوت دینا دراصل امریکی عزائم کی تکمیل کا راستہ ہموار کرنا ہے۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520088 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More