آج تک کسی فلمی شاعر نے یہ جرأت نہیں کی ہے کہ اس نے کسی
مشہور نعت کی زمین میں کوئی گانا لکھا ہو اور نہ ہی کسی میوزک ڈائریکٹر نے
یہ جسارت کی ہے کہ کسی مشہور نعت کی طرز پر کسی گانے کی دھن ترتیب دی ہو ۔
مگر غیر فلمی لوگ مشہور فلمی گانوں کے وزن میں نعتیں مرثیے یا حمدیہ کلام
تحریر کرتے ہیں اور پھر ان کو نوے فیصدی بھارتی فلمی گانوں کی طرز میں پڑھا
جاتا ہے ۔ اور بر صغیر کے بہت سے معروف و غیر معروف نعتیہ شعراء حضرات کا
جو پہلے سے موجود ذخیرہء کلام ہے تو اس میں سے بھی اکثر کے ساتھ یہی سلوک
کیا گیا ہے ۔ اس سے ہوتا کیا ہے کہ جب ہم کوئی ایسی نعت یا مرثیہ وغیرہ
سنتے ہیں تو اصل گانے کے بول دماغ میں گونجنے لگتے ہیں ۔ چند ایک بہت سینئر
نعت خواں حضرات کو چھوڑ کر آج باقی کے جتنے بھی نعت خواں ہیں ان میں شاید
ہی کوئی ایسا ہو جس نے کسی فلمی گانے کی طرز پر نعت نہ پڑھی ہو بلکہ بعض کا
تو اوڑھنا بچھونا ہی بھارتی گانوں کی دھنوں میں ترتیب دی گئی نعتیں پڑھنا
ہے ۔
اور پھر ظاہر ہے کہ ہوبہو نقل بنانے کے لئے ان گانوں کو درجنوں بار سننا
بھی پڑتا ہو گا اور ایسا کرنے والوں میں بہت بڑے بڑے نام بھی شامل ہیں تو
کیا یہ کوئی بہت اچھی بات ہے؟ کیا یہ نعت کی توہین نہیں ہے کہ اسے گانے کی
طرز پہ پڑھا جائے؟ کیا عشق رسول میں اتنی محنت بھی نہیں کر سکتے کہ نعت کو
اپنے انداز میں پڑھیں کہ وہ سن کر کسی فلمی گانے کا چربہ نہ لگے اور مرثیے
کو گانے کی طرز میں پڑھنا تو بجائے خود کتنا بڑا المیہ ہے ۔ آج جتنی محنت
اور توجہ رنگ برنگے کامدار خالص زنانہ سٹائل کے کُرتوں اور صافوں پر دی جا
رہی ہے بھاری بھرکم معاوضے ساؤنڈ سسٹم سٹیج سیٹ اپ وغیرہ تو نعت خوانی بھی
ایک ٹھیک ٹھاک منافع بخش کاروبار کی صورت اختیار کر گئی ہے پھر نعت کے
بولوں کے وزن کے مطابق ان پر کسی بھارتی فلمی گانے کی دھن فٹ کر دی جائے تو
بغیر محنت کے رنگ اور بھی چوکھا ۔ ان کی مفت میں پبلسٹی اور پبلک بھی راضی
(رعنا تبسم پاشا)
|