شوبزنس سے تعلق رکھنے والے بہت سے فلم اور ٹی وی آرٹسٹ جو
اپنے عروج کے دور میں مقبولیت اور دولت میں کھیلے ، بڑھاپے میں مالی
تنگدستی کا شکار ہوئے اور شدید کسمپرسی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے ۔
متحدہ ہندوستان کی ایک بہت مشہور اداکارہ مینا شوری اپنی جوانی کھونے کے
بعد بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئی ۔ ایک مرتبہ لاہور کے کسی سینما گھر میں
کسی فلم کے پریمیئر کے موقع پر وہ سینما کے گیٹ پر جھولی پھیلا کر کھڑی ہو
گئی محمد علی مرحوم بھی تشریف لائے ہوئے تھے انہوں نے اسے ایسا کرنے سے
روکا اور پھر خود اس کی خاصی مالی امداد کی ۔
اور یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ مہدی حسن کے بیٹوں نے انہیں وہیل چیئر پر
بٹھا کر کراچی کرکٹ اسٹیڈیم کا چکر لگایا تھا تماشائیوں سے ان کی مالی
امداد کے لئے ۔ ناہید اختر کے صحافی شوہر نے ان سے شادی کے بدلے ان کے
کریئر کی قربانی لی مگر فیوچر کے لئے کوئی تحفظ نہ دیا ۔ جب وہ بیوہ ہو
گئیں تو کرائے کے مکان میں دال روٹی کے بھی لالے پڑ گئے ۔ اور مبینہ طور پر
پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ نے انہیں ایک کروڑ روپے کا چیک دیا ۔ اسی طرح
پچھلے سال ماجد جہانگیر اپنی گاڑی پر اپنے فالج کے علاج کے لئے عوام سے
امداد کی اپیل کا بینر لگائے گھوم رہے تھے اور دوائی لینے کے بعد ان کے پاس
آٹے کے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے حالانکہ انہوں نے تو ڈالروں میں بھی کمایا
تھا ۔
آہو چشم راگنی ، تمنا ، مالا ، سیما ، چکوری ، نصرت آراء یعنی بل بتوڑی اور
انہی کی بہن نمی ایک ڈائمنڈ جوبلی ہیروئین ، ماڈل نائلہ شاہ ، مستانہ ، ببو
برال ، منا لاہوری ، غیور اختر اور نجانے کتنے ہی اپنے دور کے مقبول اور
نامور فنکار اپنی عمر کے آخری ایام میں بیماری اور تنگدستی کے ہاتھوں
ایڑیاں رگڑتے ہوئے دیکھے گئے ۔ اور ہر بار خلقت دُہائی ڈال دیتی ہے کہ فلاں
لیجنڈ حکومتی اداروں کی بےحسی کا شکار ہے ریاست کو اس کے علاج و معالجے کی
سہولتیں اور مالی سرپرستی فراہم کرنی چاہیئے وغیرہ وغیرہ ۔ اب سوال یہ ہے
کہ یہ فنکار جب اندھا دھند کما رہے ہوتے ہیں تو اپنے بڑھاپے کو محفوظ بنانے
کی کوئی تدبیر کیوں نہیں کرتے؟ فضول خرچیوں اور شاہانہ ٹھاٹ باٹ کی بجائے
کچھ رقم پس انداز کیوں نہیں کرتے ، بلکہ اہم بات یہ کہ اپنے سے پہلے والوں
کے انجام سے کچھ سبق کیوں نہیں حاصل کرتے؟ یہ اپنی جوانی اور عروج کا دور
اپنی من مستیوں ، شاہ خرچیوں اور عاقبت نااندیشیوں میں گذار دیتے ہیں پھر
جب ان کی عمر اور صحت جواب دے جاتی ہے کام کے قابل نہیں رہتی تو یہ حکومت
اور پرستاروں کی نظر کرم کے منتظر بن جاتے ہیں اور احسان بھی جتاتے ہیں کہ
ہم نے اپنی اتنی زندگی فن کی خدمت میں گذاری ، تو کیا مفت میں گذاری؟ منہ
مانگا معاوضہ وصول نہیں کیا؟ پھر اسے سنبھال کے کیوں نہیں رکھا اپنی پچھاڑی
کے لئے کوئی انویسمنٹ کیوں نہیں کی؟ اور اسی وجہ سے ، جب یہ مرتے ہیں تو
کبھی ان کا دم بھرنے والے ان کے عاشقوں صادقوں کے پاس ان کے جنازے میں تک
شرکت کرنے کی فرصت نہیں ہوتی ۔ اور جس نام نہاد خلاء کے بارے میں کہا جاتا
ہے کہ مدتوں تک پُر نہ ہو سکے گا وہ تو ان کے جیتے جی ہی پُر ہو چکا ہوتا
ہے (رعنا تبسم پاشا) |