مولانا چراغ سب کے بجھیں گے

اور یہ حسرت ہی رہے گی کہ آپ بزور بازو حکومت ختم کر سکیں گے آکر کون سا گنہا عظیم سر زد ہوا ہے اس حکومت سے کہ جس کی سزا آپ دینا چاہتے ہیں۔کہیں احتساب کے شکنجے سے تو خوف نہیں ہے؟چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں اگر گاجریں کھائی ہیں تو پیڑ تو ہو گی اور اگر دامن صاف ہے تو خوف کیسا؟

حیرت ہے مولانا افسوس ہے حضرت گرچہ ہے بڑا مشکل لیکن برداشت تو کریں۔کیا ہو گیا الیکشن میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔مدتوں یہ سنگھاسن آپ کا تھا اگر میانوالی کے ایک مرد جری نے ہما آپ کے کندھے سے اڑا دی ہے تو کیا ہوا

مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے میں اسلام آباد آرہا ہوں میرا ایمپائر اﷲ تمہارا ایمپائر تمہیں نہیں بچا سکتا۔ پہلی بات ہے موصوف کا منسٹر ہاؤس سے نکلنا بقول غالب بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے۔انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ میرے ساتھ یہ بھی ہو جائے گا حالنکہ دیکھا جائے تو جمعیت العلمائے اسلام نے 2013سے زیادہ نشستیں سال گزشتہ میں ہونے والے انتحابات میں حاصل کیں۔گمان نہیں یقین واثق ہے کہ وہ خود اس اسمبلی میں نہ ہونے کی وجہ سے بلبلاتی زندگی گزار رہے ہیں ۔سال ابھی پوار نہیں ہوا تو احتجاجی چیخیں آسمان تک پہنچ رہی ہیں ان کا خیال تو یہ تھا کہ نتائیج بلکل نہ مانے جائیں لیکن مانتا کون اس لئے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی بر سر اقتتدار ہونے جا رہی تھی مرکز میں اسے پہلے سے زیادہ نشستیں ملی تھیں۔ نون لیگ خود موئی مکی تھی لہذہ سب نے ہی کہہ دیا کہ بخشو بی بلی چوہا لنڈورہ ہی بھلا۔پاکستان کے انتحابات کے بارے میں ہر ہارنے والے کی وہی احتجاجی سوچ ہوتی ہے جو ستر سے لے کر دو ہزار اٹھارہ کے انتحابات میں سامنے آئی ہے۔ایک بات تیح کے لئے عرض کر دوں کہ سال انیس سوستر کے انتحابات بھی اسی قدر دھاندلی زدہ تھے جس طرح 2013کے۔مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن نے ایم کیو ایم طرز کی بنیاد رکھی تھی اور وہاں کسی کو پر نہیں مارنے دیا تھا سوائے راجہ تری دیو رائے کے کسی کو پھڑکنے نہیں دیا ۔لیکن ایک تواتر سے کہا جا رہا ہے کہ پاکستانی تاریخ کے شفاف ترین انتحابات ستر کے تھے ۔2018کے انتحابات شفاف ترین انتحابات تھے لوگ کہتے ہیں کہ خلائی مخلوق نے پی ٹی آئی کو کامیاب کرایا اور بقول پسر مفتی محمود ایمپائر نے عمران خان کو کامیابی دی۔حضور یہ کیسی کامیابی اور کیسی مدد تھی جس نے عمران خان کو حکومت بنانے کے لئے کبھی بلوچستان کے اختر مینگل کراچی کی ایم کیو ایم پنجاب کی ق لیگ ،جنوبی پنجاب اور ادھر ادھر سے اراکین کو جمع کر کے حکومت بنانا پڑی۔یہ وہ واحد انتحابات تھے جس میں فوج نے اپنی ڈیوٹی با حسن نبھائی اور ووٹ کے تحفظ کو یقینی بنایا۔ان انتحابات میں ٹھپے بازی پر پابندی لگی۔

حضرت مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ وہ لاکھوں لوگوں کو اسلام آباد لا رہے ہیں ان کی یہ خواہش ایک خواب ہے اور خواب دن میں دیکھنے پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے۔ان کے حلقے کے عوام نے انہیں مسترد کیا ہے عمران خان نے نہیں یاد رہے قارئین مولنا فضل الرحمن اس حلقے سے علی امین گنڈا پور سے ہارے ہیں جہاں سے ان کے والد محترم مفتی محمود نے ستر کے انتحابات میں ذوالفقار علی بھٹو کو شکست دی تھی۔یہ امر نھی یاد رہے اس وقت پیپلز پارٹی کا طوفان برے بڑے لوگوں کو بہا لے گیا تھا لیکن اس حلقے کے لوگوں نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کو شکست دی تھی۔نہ صرف مولانا ہارے بلکہ ان کے بیٹے بھی شکست کھا گئے۔یوں خاندانی سیٹ کا دفاع نہ کر سکنے والے مولانا کی چیخیں تو جائز بنتی ہیں۔پاکستان کی بد قسمتی یہ بھی ہے کہ یہاں موروثیت طاقتور ہے اور ایک سیاسی لیڈر کے گھر میں جمہوریت برتن مانجھتی رہتی ہے۔یہی حال یہاں بھی تھا لیکن پی ٹی آئی نے پہلی بار یہ بت توڑے ہیں۔سوال یہ ہے کہ وہ کس چیز اور کس طاقت کے بل بوتے پر یہ دعوی کر رہے ہیں اور تواتر سے دعوے جاری ہیں کہ حکومت کو ختم کر دوں گا۔اقتتدار کے حصول کے لئے انہوں نے بڑے ہاتھ پاؤں مارے یہ بات تو ریکارڈ پر ہے کہ انہوں نے ایک بار میڈن البرائٹ سے بھی کہا تھا کہ کبھی ہم پر بھی اعتبار کر کے دیکھ لیں گویا ان کے نزدیک طاقت کا سر چشمہ واشنگٹن ہے۔عمران خان کے خلاف تحریک کوئی مذہبی تحریک نہیں ہے کہ لوگ ان کے پیچھے چل نکلیں گے۔جس پنڈی اور اسلام آباد کے مدارس کی شہہ پر جناب مولانا چہکرہے ہیں وہاں کے امیر جمیعت نے راقم کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے اقدامات سے نوجوان مدرسوں کے طلباء نے اپنی سیاسی سوچ تحریک انصاف سے جوڑ لی ہے۔پنڈی کے مدرسے کی وہ سہ پہر مجھے اچھی طرح یاد ہے جب وہ فرما رہے تھے کہ پی ٹی آئی کو خود پتہ نہیں کہ یکم محرم کی چھٹی،جامعہ حقانیہ کی معاونتِ تحفیظ القران کے لئے عملی اقدامات،مساجد کی سولورائزیشن،خطباء کے وظائف ان اقدامات نے ایم ایم اے کو پیچھے چھور دیا ہے جو وہ اپنے دور حکومت میں نہ کر سکی پی ٹی آئی نے کر دکھایا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سیاسی تجزیہ نگار مولانا کے ملین مارچ کو ایک گیدڑ بھبکی سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے ۔لوگ جانتے ہیں کہ لال مسجد کے واقعے پر موصوف مکہ مکرمہ چلے گئے تھے اور یہ عمران خان نے اس واقعے کو دو جانبی انتہا پسندی قرار دیا تھا اور مشرف کے اس قدم پر مخالفت کی تھی۔ڈرون اٹیکس پر پی ٹی آئی کا نقطہ ء نظر دنیا نے دیکھا پھر کوئی کیسے کہہ رہا ہے کہ میں اسلام آباد پر دس لاکھ لوگوں کے ساتھ یلغار کروں گا۔

مولانا کی غضب ناکیاں دیکھنے کو آ رہی ہیں ۔ان کے بیانات ریاست کو چیلینج کرنے کے مترادف ہیں۔منے کے ابا کے تضحیکی بیانات تو وہ دے رہے ہیں لیکن یہ نہیں کہتے کہ وہ ایم ایم اے جسے ملٹری ملا الائینس کہا جاتا تھا ان کا اقتتدار بھی جنرل مشرف کا ہی مرہون منت تھا۔اے پی ڈی ایم کے اسلام آباد میں میاں اسلم کے گھر اجلاس کی روداد اٹھائیے قاضی حسین احمد ان کی جانب سے گواہی دے رہے تھے کہ مکہ مکرمہ سے مجھے فون پر بتا دیا گیا ہے کہ ایم ایم اے صوبہ سرحد کی اسمبلی سے استعفی دے گی لیکن ہوا اس کے بر عکس حالنکہ اگر ایم ایم اے مشرفی دور میں اسمبلی سے مستعفی ہو جاتی تو الیکٹول کالج کی شکستگی کے بعد مشرف بر سر اقتتدار نہیں رہ سکتے تھے-

راقم ان اجلاس کا چشم دید گواہ ہے بحیثیت ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات یہ راقم کی ذمہ داری تھی۔وہ مولانا کی سیاست کا کمال دور تھا صوبہ سرحد میں وہ بر سر اقتتدار تھی اور مرکزی اسمبلی میں حزب مخالف کے سرتاج کا اعزاز جناب فضل الرحمن کے پاس تھا۔یہ کچھ سابق دور میں ہوا سندھ کی حکومت پیپلز پارٹی اور حزب اختلافی ٹوپی مرکز میں بھی انہی کے پاس رہی۔

مولانا فضل کو آج کشمیر کمیٹی دے دی جائے وہ تہتر کے آئین کے تناظر میں اپنا راستہ بناتے ہوئے پتلی گلی سے نکل کر حکومت کی مدح سرائی میں لگ جائیں گے۔دنیا جانتی ہے عورت کی سربراہی کے خلاف جو مہم انہوں نے چلائی اس کا انجام کشمیر کمیٹی کی سربراہی کی صورت میں ملا اور پھر وہ اسی عورت کی لیڈر شپ میں مزے کرتے رہے۔

اقتتدار کے پانی سے باہر تڑپتی اس مچھلی کو اس وقت تک سکون نہیں آئے گا جب تک یہ خود اپنے سر پر تاج نہیں رکھ لیتی۔

مولانا ملین مارچ ایسے نہیں ہوتے اس کے لئے کوئی بنیاد چاہئے ہوتی ہے عمران خان نے اگر آصف علی زرداری کی زبان کو نرم کیا ہے تو آپ بھی موم بن جائیں گے اگلے روز جب آصف علی زرداری جو کہا کرتے تھے میں اداروں کو تھکا کے ماروں گا فرمایا کہ پچھلے کھائے پئے کے حساب کتاب کو بھول جائیں آئیں نئے سرے سے آگے بڑھتے ہیں۔بھولے ہیں وہ لوگ جو عمران خان کو بھولا سمجھتے ہیں کہ وہ حزب اختلاف کے دباؤ میں آ کر ان سے دست پنجہ کر لیں گے۔

عمران خان کو چوروں اور لٹیروں کا احتساب کرنے کے نام پر ووٹ ملے ہیں اگر وہ شہباز شریف کے بقول میثاق معیشت کر لیں جس کا مطلب یہ ہے کہ کھایا پیا اور ہڑپ کیا مان لیا جائے اور نئے سرے سے مک مکا کے بعد لوٹ مار کی اجازت دی جائے اگر اسے تسلیم کیا گیا تو عمران خان کا ووٹر ہی ان کا احتساب کرے گا اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پی ٹی آئی کا سپورٹر آنکھیں بند نہیں کرتا کسی بھی غلط قدم کے خلاف پارٹی کے کارکنان کھڑے ہو جاتے ہیں ایک نئی کئی بار ایسا ہوا اور کارکنوں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔یہی وجہ ہے کہ پارٹی لیڈر شپ پارٹی کے حکومتی اراکین پھونک پھونک کر
چلتے ہیں۔

مہنگائی کے باوجود پاکستان کا بڑا طبقہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کے ان برے دنوں کی وجہ سابقہ حکومتیں ہیں خاص طور پرگزشتہ دس سال میں اقتتدار کے مزے لوٹنے والی حکومتیں پاکستان کی بربادی کی ذمہ دار ٹھہرائی جاتی ہیں۔اس عشرے میں ہونے والی لوٹ مار پر بنائے جانے والے کمیشن کے قیام کو سراہا جا رہا ہے۔ادھر اسد عمر کی اسمبلی میں کی جانے والی تقریر کو بھی پذیرائی ملی ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ بنیادی ضروریات کی چیزوں کو سستا کرنا ضروری ہے۔

مولانا فضل الرحمن کو علم ہونا چاہئے کہ مدارس کے بائیس لاکھ طلباء کے بہتر مستقبل کی بات بھی عمران خان نے ہی کی تھی۔وزیر اعظم پاکستان آج سے نہیں مدت سے کہہ رہے تھے کہ ان بچوں کو قومی دائرے میں لانا ایک چیلینج ہے۔یکساں نصاب تعلیم جس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ اٹھارویں ترمیم ہے ۔پاکستان میں اس وقت تک ایک قوم نہیں بن سکتی جب تک اسے ایک جیسا نظام تعلیم میسر نہ ہو۔پی ٹی آئی اس سلسلے میں جان لڑا رہی ہے تا کہ قوم سے کئے گئے وعدوں کا ایفاء ہو۔قومی جائزے اور سروے عمران خان کے حق میں ہیں ایسے میں حیرت ہے مولانا۔۔اگر گاجریں کھائی ہیں تو پیڑ تو ہو گی زرداری نواز حمزہ اندر ہین تو آپ بھی تیاری پکڑیں چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں-
 

Engr Iftikhar Ahmed Chaudhry
About the Author: Engr Iftikhar Ahmed Chaudhry Read More Articles by Engr Iftikhar Ahmed Chaudhry: 418 Articles with 323589 views I am almost 60 years of old but enrgetic Pakistani who wish to see Pakistan on top Naya Pakistan is my dream for that i am struggling for years with I.. View More