پچھلے دنوں ایک معروف کالم نگار جاوید چوہدری کی تحریر "دس
روحانی ٹپس "کی سوشل میڈیا پر بڑی سرکولیشن تھی۔ کئی بار یہ تحریر واٹس ایپ
/ فیس بک کے ذریعے مجھ تک پہنچی ہے ۔میں ہر بار اس تحریر کو مکمل طور پر
پڑھتی ہوں۔ اس میں دیئے گئے روحانی ٹپس پڑھنے کے بعد یہ تحریر آپکے دل پر
اثر کرتی ہے اور آپ اسکی کسی بھی بات سے انکار نہیں کر پاتے مگر آج میرا
دل چاہا کہ اس تحریر میں ایک اضافہ اور بھی کر دوں جو کہ میری ذاتی زندگی
کا تجربہ ہے ۔
کالم نگارنے سب سے پہلے نمبر پر جو ٹپ بتائی ہے وہ ہے کہ کبھی اپنے گھر سے
کسی سایہ دار درخت کو نہ کٹوائیں خواہ وہ کتنا ہی پرانا کیوں نہ ہو جائے ۔جب
بھی کس گھر یا خاندان کی تباہی و بربادی کا آغاز ہوا تو یہ بات بھی مشاہدے
میں آئی کہ متعلقہ گھر میں سایہ دار پرانا شجر ہوا کرتا تھا جسکو بعد میں
کٹوا دیا گیا ۔پرانے سایہ دار شجر جو شائد پھل دینے کے قابل تو نہیں رہتے
مگر ٹھنڈک ،سایہ اور رونق ضروزفراہم کرتے ہیں ۔
انہیں پرانے سایہ دار درختوں کا سا حال ہمارے خاندان میں بوڑھے اور بزرگ
افراد کا ہے۔خواہ وہ دادا دادی ہوں یا نانا، نانی ، یا پھر بوڑھے ماں باپ،
جس گھر سے ان بزرگوں کا وجود اٹھ جاتا ہے یا انکو گھروں سے نکال دیا جائے
تو پھر اس گھر سے اللہ کی رحمت اور برکت بھی ختم ہو جاتی ہے ۔ہمارے یا
ہمارے بچوں کے ہاتھوں سے انجام دئے گئے کاموں کے نتیجے میں وہ ہمیں گھنٹوں
دعائیں دیتے ہیں بار بار ہماری اچھائی کا ذکر کرتے ہیں دوران نماز ، نماز
کے بعد دعائیں یونہی سوتے جاگتے میں انکے منہ سے ہر وقت ہمارے لئے جو
دعائیں نکلتی ہیں وہ دیوار بن کر ہمارے اور ہمارے اوپر نازل ہونے والی
مصیبتوں اور پر یشانیوں کے درمیان کھڑی ہو جاتی ہیں وہ دعائیں ہماری حفاظت
کرتی ہیں اللہ کے قہر و غضب کو ہم پر نازل ہونے سے روکتی ہیں اور ہر وقت
ہمارے لئے سایہ داری شجر کی طرح ٹھنڈک اور سکون کا باعث بن جاتی ہے جب یہ
بزرگ کسی خاندان میں نہیں رہتے یا انکو پوتوں پوتیوں یا نواسے نواسیوں کے
ذریعے ستا یا جائے انکو تنگ کیا جائے یا انکو تکلیف دی جائے تو اللہ کی
ناراضگی قہر و غضب بن کر ہم پر ٹوٹ پڑتی ہے میں نے اپنی آنکھوں سے ایک
مکمل خاندان کو ان بزرگوں کی دعاؤں کی وجہ سے دنیا میں ایک مثالی عروج پر
فائز ہوتے دیکھا ۔ مگر جب یہ بزرگ جو کہ میرے دادا اور دادی اما ں تھے اور
جب و ہ اس عمر کو پہنچےکہ ایک بچے کی طرح انکا خیال رکھا جائے اور انکی
خدمت کی جائے تو انکو خوب نظر انداز کیا گیا، بچوں کے ہاتھوں انکو کھلونا
بنا دیا گیا ۔ان بزرگوں کا مذاق اڑانا انکو تکلیف دینا اور انکے ہر حکم سے
انکار کرنا ایک عادت بن گئی تو میں نے انکو خوب روتے ہوئے بھی دیکھا جب
دادا ابو دادی اماں اپنی طبی موت کے بعد اس دنیا سے چلے گئے تو انکی دعاؤں
کا وہ حصار جس نے سارے خاندان کو اپنی حفاظت میں لے رکھا تھا ٹوٹ گیا اور
مصیبتیں اور پریشانیوں نے تسبیح کے ٹوٹے ہوئے دانوں کی طرح گرنا شروع کر
دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ خاندان جسکی ترقی اور عروج مثالی تھا پے در پے
زوال اور بلاؤں میں ایسا گھِرا کر سارے علاقے سے میں عبرت افسوس کا مقام بن
گیا میں آج بھی جب ماضی پر نظر ڈالتی ہوں تو اس زوال کی سب سے بڑی وجہ ان
بزرگوں سے محرومی اور انکی دعاوں کی وجہ سے جو رحمت اور برکت اس خاندان پر
تھی ان سب چیزوں کے ختم ہو جانے کو سمجھتی ہوں لہذا پرانے درخت اور بزرگوں
کی ہمیشہ قدر کریں اور عبادت سمجھ کر انکی خدمت کریں ۔
|