پیروں کے آستانوں میں یا اللہ و
رسول کی اطاعت میں
میاں بیوی خاندان کی بنیادی اکائی سمجھے جاتے ہیں،عقدِ نکاح کے بعد دونوں
کا تعلق استوار ہوتا ہے جو اس دنیا میں موت تک قائم رہتا ہے۔ یہ سارا عرصہ
دونوں کو مل جُل کر گزارنا ہوتا ہے.... اس حقیقت سے کسی کو جائے فرار نہیں
کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی طبیعت اور مزاج مختلف بنائے ہیں۔ طبیعتوں کا
اختلاف اور مزاجوں کا سردو گرم ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ خاندانی زندگی میں دونوں
فریقوں میں سے کسی ایک کا دوسرے سے الجھ جانا انہونی بات نہیں مگر اس الجھاﺅ
کا طویل ہوجانا خطرناک ہوتا ہے۔ آج کے دور میں خاندانی جھگڑے اتنے عام
ہوگئے ہیں کہ معمولی بات پر مار پٹائی، طلاق اور قتل تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔
آپ اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں درجنوں خبریں میاں بیوی کے جھگڑوں کی ہوں گی....
جھگڑے ہوتے ہیں تو لوگ ان کے حل کے لئے تگ و دو کرتے ہیں.... زیادہ تر
پیروں فقیروں کے پاس بھاگتے ہیں.... آپ پیروں فقیروں کے آستانوں پر چلے
جائیں آدھے سے زیادہ مرد و خواتین خاندانی جھگڑوں کو ختم کرانے کے لئے
تعویز لینے آئے ہوں گے۔ کسی کی بیوی روٹھ کر میکے گئی ہوگی اور کسی کا
خاوند دوسری عورت کے دام زُلف کا اسیر ہوگا، کسی کو شکایت ہوگی کہ اس کی
نند نے تعویذ کردئے اور کوئی کہے گی کہ میرے اوپر ساس نے کالا جادو کروا
دیا ہے۔ پیر صاحب بھی اپنے آستانے پر راجہ اندر بنے بیٹھے کسی کو پانی دم
کرکے دے رہے ہوں گے، کسی کو تعویذ اور کسی کو دھاگے پڑھ کے دے رہے ہوں گے۔
آنے والے مجبوروں کا کچھ بنے نہ بنے پیر صاحب کی تو چاندی ہوجاتی ہے، دم
درود کا نذرانہ تو ہے ہی غیر محرم عورتوں کو دیکھ دیکھ کر آنکھیں سینکنے کا
بہانہ بھی بن جاتا ہے۔ نام نہاد پیروں نے جنوں بھوتوں کی بھی عجیب و غریب
ڈراﺅنی قسم کی کہانیاں گھڑی ہوتی ہیں جو اپنے مریدوں اور سائلوں کے سامنے
بیان کر کر کے انہیں خوب ڈراتے دھمکاتے اور ان سے پیسے بٹورتے ہیں۔ کتنے ہی
گھر انہی پیروں فقیروں کے چکروں میں تباہ ہوچکے ہیں، کتنے ہی پیروں کے
واقعات ہیں کہ اسی دم درود کے چکر میں گناہوں کی دَل دَل میں جاگرے ہیں
جہاں سے واپسی کا امکان کم ہی ہوتا ہے.... خیر بات بہت دور نکل گئی عرض یہ
کرنا چاہتا تھا کہ ہماری سادگی کی بھی انتہا ہے کہ ہم قرآنی آیات کے ورد
کرنے، وظیفے پڑھنے اور چلے کاٹنے کے لئے طرح طرح کی مشقتیں برداشت کرتے ہیں۔
اگر کوئی پیر صاحب کہہ دیں کہ چالیس دن تک روزانہ آدھی رات کے بعد تم
قبرستان جاکر فلاں وظیفہ پڑھو گے تو اولاد ہوگی تو اس کے لئے فوراً تیار
ہوجائیں گے لیکن اگر کوئی یہ کہہ دے کہ پانچ وقت کی نماز پڑھو، اپنے مال کی
زکوٰة دو، تقویٰ اور پاکیزگی اختیار کرو، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی
ادائیگی میں کوتاہی نہ کرو جو مانگنا ہے اللہ سے مانگو، تو طبیعت پر بہت
گراں گزرتا ہے۔ الحمدللہ یہ بندہ پورے یقین و اعتماد سے کہتا ہے کہ اگر کسی
گھر میں حرام داخل نہ ہوتا ہو، زکوٰة اور صدقہ و خیرات کا اہتمام ہو، اللہ
تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کو پامال نہ کیا جاتا ہو، اس کے احکام کی تعمیل
کی جاتی ہو، طہارت و پاکیزگی کا اہتمام ہو تو اس گھر میں جن، بھوت پریت،
آسیب کا کبھی ڈیرا نہیں ہوسکتا، نہ ہی اس گھر میں لڑائی دنگا فساد ہوگا،
آپس کی ناچاقی، ایک دوسرے کے خلاف بُغض و کینہ، دوسرے کو پریشان اور رسوا
کرنے جیسے ناپاک جذبات قطعاً پیدا نہیں ہوں گے۔ گھریلو ناچاقیاں اسی وقت
ہوتی ہیں جب اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدوں کو پامال کیا جاتا ہے۔ آج کا
انسان جب گھریلو پریشانیوں سے تنگ آتا ہے تو پیروں فقیروں کے پاس بھاگتا ہے
کہ وہ کوئی ”وظیفہ“ بتائیں.... پیر بتائے کہ روز ایک لاکھ مرتبہ ”یَا
عَزِیزُ“ پڑھنا ہے تو کیا اس طرح پڑھ لینے سے مسئلے کا حل ہوجائے گا؟ جبکہ
گھر میں ٹی وی چل رہا ہے، عورتیں بے پردہ ہیں، حرام کی کمائی دھڑا دھڑ پیٹ
کا ایندھن بن رہی ہے.... ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ بعضے پریشان حال اور
پراگندہ لوگ یارب یارب پکارتے ہیں لیکن ان کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں....
اس لئے کہ ان کا کھانا حرام، پینا حرام، پہننا حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا کہ صدقہ کیا کرو اس سے بلائیں اور بیماریاں دور ہوتی
ہیں“ لیکن ہمارے بھولے بھالے مسلمان کا عمل یہ ہے کہ وہ یتیموں مسکینوں اور
غریبوں کو تو اپنے دروازے سے دھکے دے کر بھگاتا ہے جبکہ ایک تعویذ حاصل
کرنے کے لئے عاملوں کی تجوریاں بھرنے کے لئے تیار رہتا ہے.... یہ مسلمان کی
سادگی نہیں کہ وہ قرآن کی آیتوں کو گھول کر پی گیا، تعویذ بنا کر گلے کا
ہار بنالیا، نئی دکان بنائی یا مکان تعمیر کیا تو ”برکت“ کے لئے سیپارے
پڑھوالئے، گھر والوں میں سے کوئی بیمار ہوگیا تو سورہ یٰسین کا ورد کرالیا....
کوئی مرگیا تو اُسے بخشوانے کے لئے سوا لاکھ گٹھلیوں پر درود پڑھوا لیا....
لیکن اگر کچھ نہ کرسکا تو قرآن کے پیغام پر غور و فکر نہ کرسکا، اسے دل کی
گہرائیوں اور دماغ کی وسعتوں میں جگہ نہ دے سکا.... کبھی یہ سمجھنے کی کوشش
نہیں کی کہ میرا رب مجھ سے کیا کہتا ہے.... ہا!.... میری قوم کتنی سادہ
مزاج ہے۔ محترم قارئین و قاریات! جائزہ لیجئے غلطی کہاں ہے؟ ہمارا کردار و
عمل کیا ہے؟ دین کے تقاضے کیا ہیں؟ سوچئے کہ قرآن کی سورتیں بھوت پریت کو
بھگانے کے لئے اتریں تھیں یا ان کا مقصد کچھ اور بھی تھا؟ .... اللہ تعالیٰ
ہمیں دین کے تقاضوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما دیں۔
آمین یا رب العالمین |