دوزخ کا سوداگر

فضل خالق خان (مینگورہ سوات)
دنیا میں کئی قسم کے سوداگر پائے جاتے ہیں۔ کوئی کپڑا بیچتا ہے، کوئی زمین، کوئی دوائی، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دھوکہ اور جھوٹ کا کاروبار کرتے ہیں۔ وہ جھوٹ بیچتے ہیں، مگر انداز ایسا ہوتا ہے جیسے سچ کا بازار لگا رکھا ہو۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اکثر لوگ بنا سوچے سمجھے، ان کے خریدار بن جاتے ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ ایک شہر میں پیش آیا، جہاں ایک چالاک، چرب زبان شخص نے جنت بیچنے کا انوکھا دھندہ شروع کیا۔ وہ لوگوں کو بتاتا کہ جنت میں زمین کا ایک ایک ٹکڑا دستیاب ہے، بس تھوڑے سے پیسے دو اور جنت میں اپنی مستقل رہائش کا بندوبست کر لو۔ وہ باقاعدہ ملکیتی کاغذات بناتا، مہر لگواتا، اور لوگوں کو تسلی دیتا کہ مرنے کے بعد یہ کاغذ تمہیں جنت کے دروازے کھلوا دیں گے۔
یہ کاروبار چل نکلا۔ لوگ خوش، نوسرباز خوش، اور شہر کی فضا میں ایک جعلی مذہبی اطمینان کی خوشبو پھیل گئی۔ کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا، کیونکہ جنت کا خواب کسے اچھا نہیں لگتا؟ بس ذرا سا سکہ دو، اور اطمینان سے جنت کے سپنے دیکھو۔
لیکن ایک دن ایک عقل مند، باشعور اور حق شناس شخص اس شہر سے گزرا۔ اُس نے یہ ماجرا سنا تو حیران رہ گیا۔ اُس نے شور نہیں مچایا، نہ ہی مناظرہ کیا۔ وہ جانتا تھا کہ سوتے ہوؤں کو جھنجھوڑنے سے بہتر ہے کہ اُن کے سامنے ایک نئی حقیقت رکھی جائے، جو اُن کے خوابوں کو حقیقت کی زمین پر لا گرا دے۔
وہ سیدھا اُس نوسرباز کے پاس گیا اور کہا!
"بھائی! جنت تو تم بیچ رہے ہو، کیا دوزخ بھی فروخت کے لیے دستیاب ہے؟"
نوسرباز نے قہقہہ لگایا، "ارے بھائی! دوزخ کون خریدتا ہے؟ مفت میں لے جاؤ!"
عقل مند نے کہا: "نہیں، میں قیمت دے کر خریدنا چاہتا ہوں۔ رسید بھی بناؤ، گواہ بھی لاؤں گا۔"
نوسرباز نے جب پیسے دیکھے تو فوراً آمادہ ہو گیا۔ دانا شخص نے دوزخ کے ملکیتی کاغذات بنوائے، رسید لی، گواہوں کے دستخط لیے اور سب کے سامنے اعلان کر دیا!
"لوگو! سن لو! میں نے پوری دوزخ خرید لی ہے۔ اب اس میں کسی کو رہنے کی اجازت نہیں۔ تم سب صرف جنت میں ہی جا سکتے ہو، چاہے تم نے یہاں سے پلاٹ خریدا ہو یا نہیں۔"
بس پھر کیا تھا، پورے شہر میں ہلچل مچ گئی۔ وہ لوگ جو جنت خرید کر مطمئن تھے، یکایک سوچ میں پڑ گئے۔ اُن پر یہ حقیقت کھلی کہ اصل مسئلہ جنت کا حصول نہیں، دوزخ سے بچاؤ ہے۔ اور جب دوزخ ہی بند ہو گئی، تو جنت کے کاروبار کا جواز بھی ختم ہو گیا۔ نوسرباز کا دھندہ بیٹھ گیا۔ اس کی چالاکی اس پر الٹ پڑی۔
یہ کہانی صرف کہانی نہیں بلکہ ایک پیغام ہے
یہ واقعہ کسی فرضی بستی کا افسانہ نہیں، بلکہ ہمارے آج کے معاشرے کا آئینہ ہے۔ ہم لوگ دین کو، نیکی کو، اور آخرت کو بھی تجارت کی نظر سے دیکھنے لگے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ پیسوں، رسومات، یا کسی روحانی تعلق کی بنیاد پر جنت حاصل کی جا سکتی ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ نیکی کا راستہ صرف اس لیے اپناتے ہیں تاکہ جنت مل جائے، مگر کبھی یہ نہیں سوچتے کہ دوزخ سے بچنے کا اصل راستہ کیا ہے؟
یہ دانا شخص ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ!
جنت صرف خواہش سے نہیں، عمل سے ملتی ہے۔ اور نیکی صرف انعام کے لالچ سے نہیں، برائی کے انجام کے خوف سے بھی کی جاتی ہے۔اگر انسان کے دل میں دوزخ کا سچا خوف پیدا ہو جائے تو وہ خود بخود سیدھی راہ پر آ جاتا ہے۔ وہ نیکی کرنے میں جھجکتا نہیں، عبادت میں سستی نہیں کرتا، اور دھوکہ بازوں کے جھانسے میں نہیں آتا۔ جب دوزخ کا دروازہ اس کے لیے بند ہوتا ہے، تب جنت کی راہیں خود کھل جاتی ہیں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے دلوں میں سچی توبہ، دوزخ کا خوف، اور آخرت کی جواب دہی کا احساس پیدا کریں۔ جنت کا سودا کرنے والوں سے ہوشیار رہیں، کیونکہ نجات کا راستہ کاغذی سندوں سے نہیں، بلکہ اعمال کے وزن سے طے ہو گا۔
جنت نہ خریدی جا سکتی ہے، نہ بیچی جا سکتی ہے، لیکن دوزخ سے بچا ضرور جا سکتا ہے، اگر دل جاگ جائے تو ۔

 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 112 Articles with 77608 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.