خدا اور محبت میں ایک چیز مشترک ہے کہ وہ دونوں نظر نہیں
آتے صرف محسوس کیے جا سکتے ہیں۔خدا نے محبت کو پیدا کیا یا محبت نے خدا کی
پہچان کرائی یہ بھی ایک راز ہے جو ابھی تک کوئی نہیں جان سکا۔انسان نے جب
سے شعور کی منزل کو حاصل کیاوہ اِسی کھوج میں ہے کہ خدا کیا ہے،خدا کون ہے،
خدا کہاں ہے۔انسان نے خدا کو فطرت میں تلاش کیا،دوسرے جاندار اور غیر
جاندار اجسام میں تلاش کیا اور کبھی مایوس ہو کر اِس کے وجود سے ہی انکار
کر دیا۔مگر اس ناقص العقل انسان کو ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آ ئی کہ خدا
کیا ہے، کب نظر آتا ہے اور کہاں رہتا ہے۔خدا کو پانے کی چاہت نے انسان کو
بت پرستی پر مجبور کر دیا، کبھی وہ خدا کو بتوں میں ڈھونڈتا ہوا پایا گیا
تو کبھی وہ سورج، چاند اور ستاروں کو خدا ماننے پر راضی نظر آیا۔کڑکتی
آسمانی بجلی سے ڈرا تو اسے خدا مان لیا،سمندر اور دریا نے تباہی پھیلائی تو
خوف نے اِسے اِنکو خدا ماننے پر راضی کر لیا۔انسان کو ڈرا ر،دھمکا کر،لالچ
دے کر اور کبھی آخرت کی آسائشوں کا ذکر کرکے خدا کا احساس دلایا گیا۔خدا کو
ایک انسانی فطرت کے مطابق بنا کر پیش کیا گیا جو کہ غلطی پر سزا دیتا ہے
اور گہرے گڑھے میں ڈال دیتا ہے اور نیکی پر اجروثواب دیتا ہے جو کہ جنّت کی
شکل میں انسانی خواہشا تک کو پورا کرتا ہے جیسا کہ حوریں،شہد،شرابِ طہوراور
مکمل آرام کی زندگی۔آپ کو تمام عقیدت مندوں کی باتوں میں دنیا سے بے
زاری،انسانی زندگی سے نفرت،مزاج میں سختی، شدت پسندی اور تنگ نظری نظر آئے
گی۔ خدا کا تصوّر ان لوگوں کی نزدیک ایک انسان کا سا ہے۔جو ناراض بھی ہوتا
ہے، خوش بھی ہوتا ہے، اگر اس کی تعریف کی جائے توراضی بھی ہو جاتا ہے۔گویا
ساری کائنات کے خدا کو ہم لوگوں نے اپنی تنگ نظری کے مطابق ایک خاص حد تک
محدود کر دیا ہے۔گوپال متا ل نے کہا تھا
فطرت میں آدمی کی ہے مبہم سا ایک خوف
اس خوف کا کسی نے خدا نام رکھا دیا
مذہبی پیشواؤں نے بھی انسان کی اِس کمزوری کا بھرپور فائدہ اُٹھایا۔مختلف
مذاہب بنے کچھ الہامی کہلائے اور کچھ انسانی۔ الغرض ارتقاء کا عمل چلتا رہا
اور انسان کا شعور بھی آہستہ آہستہ کامل ہوتا رہا۔
شاید کچھ لوگوں کو اِس بات پر اعتراض ہو کہ انسان کا شعور تو شروع ہی سے
کامل ہے اور یہ تمام مخلوقات میں سے اشرف ہے۔انسان پیدائشی طور پر ایک مہذب
مخلوق ہے۔ اگر ایسا ہے تو آپ کبھی جنگلوں میں بسنے والے انسانوں کا مشاہدہ
کریں وہ آپ کو شکل و صورت میں انسان اور گوریلا کے درمیان کے لوگ نظر آئیں
گے۔بالکل جنگلی، وحشی،تہذیب اور معاشرت سے بہت دور۔ ڈارون نے دنیا بھر میں
گھونے کے بعد اِسی بات کی تصدیق کی کہ انسان اور گوریلا ایک ہی خاندان سے
ہیں۔ڈارون نے گوریلے کو انسان کے آباؤاجداد قرار دیا۔ڈارون کے خیال کے
مطابق آج کا مہذب انسان انہی جنگلی اور وحشی بندروں کے ارتقائی عمل کا
نتیجہ ہے۔
بہرحال سائنس کی بات اپنی جگہ جو کہ سِرے سے ہی خدا کا انکار کرتی ہے مگر
اب آہستہ آہستہ ایک اہم قوّت یا ایک پُراسرار طاقت پر یقین کرنے لگی ہے جس
کے ثبوت اور نشاندہی ابھی باقی ہے۔ تمام موجودہ تحریری ریکارڈ اور شعوری
منازل طے کرلینے کے بعد انسان یہ کہنے پر مجبور ہے کہ خدا محبت کا روپ ہے۔
مبارک عظیم آبادی نے ایک با کہا تھا
رہنے دو اپنی بندگی زاہد
بے محبت خدا نہیں ملتا
حقیقت میں خدا ایک احساس کا نام ہے۔ خدا محبت ہے۔ خدا تو دل میں موجود
ہے۔خدا ہرپل ساتھ ہے۔خدا شہ رگ سے بھی قریب ہے۔بشیر بدر کا ایک شعر ہے
خد ا ایسے احساس کا نام ہے
رہے سامنے اور دکھائی نہ دے
اکبر الہ آبادی نے کہا تھا
بس جان گیا ہوں میں تیری پہچان یہی ہے
تودل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
بزرگانِ دین اور تصوّف کے لوگوں نے دل کا صاف رکھنے کا مشورہ دیا۔ دل خانہ
خدا ہے اگر یہ صاف ہو گا تو خدا اس میں رہے گا۔ورنہ دنیا گھوم لیں خدا کہیں
نہیں ملے گا۔آج ہی دل کو صاف کر لیں خدا مومن کے دل میں موجود ہے۔
تسلیم فاضلی نے خدا اور محبت کے بارے میں کیا خوب کہا تھا
خدا خود پیار کرتا ہے محبت ایک عبادت ہے
یہ ایسا خواب ہے جس خواب کی تعبیر جنت ہے
فرشتے پیار کر سکتے تو پھرانسان کیوں آتے
نہ یہ دنیا بنی ہوتی نہ تارے روشنی پاتے
زمانے کی ہر اِک شے کو محبت کی ضرورت ہے
محبت پھول ہے خوشبو ہے دریا کی روانی ہے
ہر ایک جذبہ ادھورا ہے ہر ایک شے آنی جانی ہے
قیامت تک رہے گی جو محبت وہ حقیقت ہے
خدا خود پیار کرتا ہے محبت ایک عبادت ہے |