میڈیا پر مغرب کی قدغن

پریس یعنی صحافت کی آزادی کے حوالے سے امریکاقائدانہ کردارکاحامل نہیں رہا۔دنیابھرمیں جمہوری اقدارکوپروان چڑھانے کے حوالے سے امریکانے پریس کی آزادی سے متعلق قائدانہ کرداراداکرنے میں عشروں تک دلچسپی لی مگراب ایسالگتاہے کہ وہ اس کردارمیں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہا۔اس حوالے سے یورپ کو ٓگے بڑھ کراپنی ذمہ داری ادا کرنی ہے۔ 4 مئی کونیویارک ٹائمز میں نصف صفحے کا اشتہار شائع ہواجواسٹاک ہوم سینٹرفارفریڈم کی طرف سے تھا۔اس میں بتایاگیاتھاکہ191ترک صحافی جیلوں میں ہیں، 167جلاوطنی کی زندگی بسرکررہے ہیں اوران کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جاچکے ہیں جبکہ 34غیر ملکی صحافیوں کو انتقامی کارروائی کانشانہ بنایا جارہاہے۔ترک صدراردگان نے بہت بڑے پیمانے پرصحافیوں کوپابندِ سلاسل کیاہے اورامریکی ایوان صدرمیں اُن کے ہم منصب ٹرمپ نے اِس کاخیرمقدم کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا۔

ترک سیاست کارخ تھوڑاساتبدیل ہواہے۔اردگان پراپوزیشن کی طرف سے دباؤبڑھ رہاہے۔ایسے میں اس بات کاقوی امکان ہے کہ وہ صحافیوں پرپابندیوں میں اضافہ کریں گے۔ حال ہی میں6صحافیوں کی درخواستِ ضمانت منظورہوئی اورانہیں رہا کیاگیامگرحکومت نے اُنہیں پھرجیل میں ڈال دیا۔بہانہ وہی پرانایعنی انسدادِدہشت گردی۔ امریکی صدرصحافیوں کوعوام کے دشمن قراردینے میں تساہل سے کام لیتے ہیں نہ بخل سےاوراس کانتیجہ یہ برآمدہواہے کہ دنیابھرمیں آمرانہ حکومتیں پریس کی آزادی پر قدغن لگانے میں پھرغیرمعمولی دلچسپی لینے لگی ہیں۔ٹرمپ نے مین اسٹریم میڈیاکوزیادہ سے زیادہ پابند کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔یہ کوشش دنیا بھرمیں اظہارِرائے کی آزادی پرقدغن لگانے والوں کی غیرمعمولی حوصلہ افزائی کاذریعہ ثابت ہوئی ہے۔

رپورٹروِدھ آؤٹ بارڈر(آرڈبلیوبی)کے شائع کردہ دی ورلڈ فریڈمیپ کے مطابق اِس دقت دنیابھر میں پابندِ سلاسل صحافیوں کی تعداد250سے زائدہے۔دنیابھرمیں اُن صحافیوں کوزیادہ مشکلات کاسامناکرناپڑتاہے جواپنی حکومتوں کی کرپشن بے نقاب کرنے کے حوالے سے کلیدی کردارادا کرتے ہیں۔ آذربائیجان سے مصراور وینزویلا تک ایسے تمام صحافی حکومتوں کی ہٹ لسٹ پررہتے ہیں جوکرپشن کوبے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کواس حوالے سے باشعورکرنے کی اپنی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ٹرمپ نے ہنگری کے وزیراعظم وکٹرآربن کومدعوکیاہے۔اس ملاقات میں اورکچھ ہونہ ہو،اس بات کایقین ظاہرکیاجارہاہے کہ’’فیک نیوز‘‘کے نام پرکاروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے ٹرمپ مین اسٹریم میڈیاکومزیدنشانے پر لیں گے اوراُنہیں نیچے لانے کی کوشش کریں گے تاکہ اُن کے پروپیگنڈا آرگن فاکس نیوزکوزیادہ سے زیادہ آزادی مل سکے اوروہ کھل کراپنے حصے کاکام کرسکے کئی عشروں تک امریکانے پریس کی آزادی کویقینی بنانے کے حوالے سے عالمی سطح پرقائدانہ کرداراداکیا۔اس کابنیادی سبب یہ تھاکہ امریکادنیابھرمیں لبرل ڈیموکریسی کو پروان چڑھانا چاہتاتھا۔وہ چاہتاتھاکہ دنیابھرکی حکومتیں اپنے صحافیوں کو کھل کرلکھنے اوربولنے کی اجازت دیں۔ٹرمپ اوران کے ساتھیوں نے روش بدل دی ہے۔اُنہوں نے مین اسٹریم میڈیاکے خلاف جاتے ہوئے اظہارِرائے کی آزادی پرقدغن لگانے کے حوالے سے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔اس کا نتیجہ یہ برآمدہواہے کہ اظہارِرائے کی آزادی کے حوالے سے قیادت کاخلاپیداہوگیاہے۔یہ خلا فی الحال اگرکوئی پُرکرسکتاہے تووہ یورپ ہے۔یورپی حکومتیں اس حوالے سے اب تک تذبذب کاشکاررہی ہیں۔صرف جرمن چانسلراینجلامرکل نے سعودی عرب میں جمال خاشقجی کے قتل کی مذمت کرنے میں دیرنہیں لگائی۔دیگر یورپی قائدین سفارتی مصلحتوں کے تحت کسی بھی معاملے میں کھل کرکچھ کہنے سے واضح طورپرگریزکرتے آرہے ہیں۔

دنیا بھرمیں صحافیوں پرعائد کی جانے والی پابندیوں کے خلاف بولنے کے معاملے میں دی کاؤنسل آف یورپ بہت نمایاں رہی ہے۔اُس نے صحافت کی آزادی پر لگائی جانے والی ہر قدغن کی مذمت کی ہے تاہم افسوس ناک امریہ ہے کہ یورپی یونین کے کمیشن پراس حوالے سے کچھ زیادہ اثرات مرتب نہیں ہوئے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں قائدانہ کرداراداکرنے سے اب تک گریز کررہاہے۔ رپورٹروِدھ آؤٹ بارڈرکے چیف ایگزیکٹیوکرسٹوف ڈیلوئرکہتے ہیں کہ یورپی پارلیمان کے انتخابات کے بعدپریس یا صحافت کی آزادی پرلگائی جانے والی ہرقدغن کے خلاف بھرپورصدائے احتجاج بلند کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یورپی قائدین اِس حوالے سے اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے عالمی سطح پر قائدانہ کردار ادا کرنے کی تیاری کریں۔کرسٹوف ڈیلوئرکے نزدیک لازم ہوگیاہے کہ یورپی پارلیمنٹ کی انتخابی مہم میں پریس کی آزادی کوبنیادی نکتے کے طورپر شامل ہی نہ کیا جائے بلکہ سامنے بھی رکھاجائے۔کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے ٹام گبسن ایک قدم آگے جانے کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یورپی کمیشن کی نئی قیادت کیلئےصحافت کی آزادی ایک بڑی ذمہ داری ہونی چاہیے اوراُسے دنیابھرمیں کرپشن اوردیگربے قاعدگیوں کے خلاف کام کرنے والے صحافیوں کاتحفظ یقینی بنانے کیلئے بھرپور کرداراداکرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ٹام گبسن کہتے ہیں کہ یورپی کمیشن کو ایساماحول یقینی بناناچاہیے،جس میں صحافی اپناکام پوری آزادی، ایمان داری اور غیرجانب داری سے کرسکیں۔

ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ یورپی یونین کے ارکان کے ہاں صحافت کی آزادی پرقدغن کے حوالے سے چندایک معاملات پر بھی یورپی کمیشن کاردعمل زیادہ حوصلہ افزانہیں رہا۔اس حوالے سے بھی صدائے احتجاج بلندکی جاتی رہی ہےمثلاًاکتوبر 2017ء میں مالٹامیں ڈیفنی غالیزیاکوقتل کردیاگیاتھا۔ڈیفنی اپنی حکومت کی غیر معمولی کرپشن کے حوالے سے تحقیقات کررہی تھی اوربہت سے ملزموں کوبے نقاب بھی کرچکی تھی۔کاؤنسل آف یورپ نے چارہفتے قبل مالٹاکے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایاہے کہ پرمیننٹ کمیشن اگینسٹ کرپشن اورایسے ہی چنددوسرے ادارے اپنے قیام کے تیس سال مکمل ہونے پربھی کوئی قابلِ ذکرکام کرنے کے قابل نہیں ہوسکے ہیں۔ہوسکتاہے کہ سلوواکیہ کی نئی صدرزوزانہ کاپوتوواصحافت کی آزادی کے حوالے سے کوئی قابلِ ذکرکلیدی کردار ادا کرسکیں۔ انہوں نے چارہفتے قبل صدرکاعہدہ ایک ایسی انتخابی مہم کے نتیجے میں حاصل کیا ہے،جس میں کرپشن اورصحافت پرلگائی جانے والی ہرقدغن کے خلاف احتجاج کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ اشتراکیت کے خاتمے کے بعدسے سلوواکیہ میں کرپشن کے خلاف بڑے پیمانے پراحتجاج کیاجاتارہاہے۔27سالہ تفتیشی رپورٹر ژاں کشیاک اوراُس کی منگیترمارٹیناکشنیروواکوملک کی چندبااثرکاروباری شخصیات اورریاستی اداروں کی کرپشن بے نقاب کرنے پرقتل کردیاگیاتھا۔

یورپین گرین پارٹی کی صدارت مونیکافراسونی اوررائنہارڈبیوٹیکوفرکے ہاتھ میں ہے۔ان دونوں کاکہناہے کہ کرپشن اور اختیارات کے ناجائزاستعمال کوروکنے کے حوالے سے بنیادی انسانی اورشہری حقوق کامکمل تحفظ یقینی بنانے کیلئےہمیں ہر قیمت پرآزادیٔ صحافت کاتحفظ یقینی بناناچاہیے۔ دنیابھرمیں حکومتیں شدیدکرپشن میں مبتلا ہیں۔اُن کاایک بنیادی وتیرہ یہ ہے کہ جو بھی کرپشن کے خلاف آوازاٹھائے اُس کاگلادبادیاجائے۔ایشیا،افریقااوربحرالکاہل میں ایسے بہت سے صحافی ہیں جنہیں کرپشن کے خلاف آوازاٹھانے پرقید وبند کی صعوبتوں یاپھرموت کاسامناکرناپڑاہے۔آذربائیجان کاصحافی امین حسینوف اس وقت سوئٹزرلینڈمیں پناہ لیے ہوئے ہے۔حکومتی کرپشن بے نقاب کرنے پراُسے انتقامی کاروائی کا سامناتھا،جس سے بچنے کیلئےوہ ملک سے نکلنے پرمجبورہوا۔ اس کابھائی مہمن حسینوف اب بھی باکوکی جیل میں ہے۔اس کی رہائی کیلئے امین حسینوف نے اچھی خاصی کوشش کی مگر تاحال کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔بہر کیف،دوسال مکمل ہونے پرآذربائیجان کی حکومت نے مہمن حسینوف اورچنددوسرے صحافیوں کورہاتوکردیامگروہ ملک نہیں چھوڑسکتااورکسی بھی وقت گرفتار بھی کیاجاسکتاہے۔

ایران میں نیوزویب سائٹس انارپریس اورعبن پریس کے ایڈیٹرانچیف محمدرضانسب عبداللہی کو2018ءمیں اس الزام کی بنیادپرگرفتارکیاگیاکہ وہ غلط بیانی پرمبنی خبریں پھیلارہے ہیں۔ تین ہفتے قبل اُنہیں دوبارہ گرفتارکرلیاگیاہے۔اُن کی ویب سائٹس بندکردی گئی ہیں اورحکومتِ ایران نے اس اقدام کی کوئی وضاحت بھی نہیں کی ہے۔
 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 355487 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.