نیشنل پارلیمنٹ کے ممبر تحریک انصاف رمیش کمار آزادکشمیر
کے دورے پر آئے ہوئے تھے جو پاکستان ہندو کونسل کے اُمور کی دیکھ بھال
سرانجام دیتے ہیں۔ رمیش کمار نے یہاں عدلیہ سے منسلک شخصیات اور آثار قدیمہ
کے حکام سے ملاقاتیں بھی کیں یہ خوشگوار پہلو ہے کہ وہ یہاں اقلیتوں اور
حکومتی محکمانہ سطح پر ان کی حفاظت‘ بحالی کیلئے دلچسپی پر اطمینان مسرت کے
جذبات کے ساتھ واپس گئے ہیں۔ جنہوں نے نیلم ضلع جا کر اپنی مذہبی تاریخ سے
منسوب جگہوں کا دورہ کیا اور نیلے پانی میں آشنان بھی کیا ضلع نیلم کے اندر
شاردہ ٹمپل کے بطور آثار قدیمہ پتھروں کے ایک سرخ وجود کو ہندو اور بت مت
جینی مت والوں کے نزدیک تاریخی اہمیت حاصل ہے۔جن کے نزدیک یہاں بدھا
یونیورسٹی (ایک مذہبی تعلیمی درسگاہ) تھی۔ جس کو ان کے عقائد عبادات کے
تناظر میں مرکزی مقام حاصل رہا ہے۔ ریاست جموں وکشمیر کے اندر اس سے منسلک
عقائد والے اس کی جانب رخ کر کے اپنی دعائیں کرنا سب سے بہتر عمل سمجھتے
تھے۔ ان عقائد کو ماننے والے ناصرف جموں‘ لداخ بلکہ چین‘ جاپان‘ ہانک کانگ
میں کثرت سے موجود ہیں۔ شاردہ ٹمپل کے علاوہ ساری پٹی تہجیاں‘ دھوسٹ‘
دودھنیال‘ دومیل بہک سمیت علاقوں آبادیوں کے اندر شونٹھر نالے کے ساتھ ساتھ
کیل سے شونٹھر تک ان کے دھیان گیان مرکز کے درجہ پر رہا ہے۔اس طرف رخ ہندو
جینی بدھ مت والے دور دور سے کیا کرتے تھے اور مرحلہ وار ترتیب کے ساتھ ہر
ایک جگہ پر اپنی پوجا پاٹ مذہبی رسومات ادا کرنے کا چکر پورا کر کے آخر میں
کشن گنگا نالے (دریائے نیلم) کے نیلے پانی میں ڈبکیاں لگا کر (آشنان) نہایا
کرتے تھے جس کے ساتھ ہی واپس کر لیتے تھے جن کی اس یاترہ (حاضری عبادت) کا
عرصہ ایک ماہ قیام پر محیط ہوتا تھا ان عقائد کے ماننے والوں کے مطابق اس
عبادت اور مقام کی ان کے نزدیک سب زیادہ اہمیت افادیت رہی ہے کہ یہ دریائے
نیلم (کشن گنگا نالہ) میں آشنان کے بعد خود کو ایک بار پھر اندر باہر روح
جسم نیا‘ صاف ستھرا دھویاہوا محسوس کرتے تھے جس کی یاد اثر عرصے تک چلتا
تھا لہٰذا تاریخی طور پر ہندو جین بدھ مذاہب والے کیلئے اس کا مقام ان کے
دماغ و دل میں پہلے جیسا ہی قائم دائم ہے اس حقیقت پر کس کا کوئی اختلاف
نہیں ہے کہ شاردہ لال پتھروں کے موجود نشانات ایک تعلیمی درسگاہ کے ہیں جس
کو بدھ جین ہندومت میں خاص مقام حاصل تھا اور یہ نالہ نیم کو کشن گنگا کے
نام سے پکارتے جانتے ہیں یہ دریا نہیں بلکہ چشمہ انت ناگ سے پھوٹنے والے
تیز دھار پانی کے ساتھ ارد گرد کے چشموں نالوں کے آملنے اور گلیشیئر برف
باری کے پگھلنے ٹھنڈے بہاؤ سے ملکر برف سے کئی گنا زیادہ ٹھنڈا اور تیز
رفتار کیفیت میں دریا جیسا اثر بہاؤ رکھتا ہے۔ جنگلات‘پہاڑی سلسلوں جڑی
بوٹیوں سبزہ زار کیفیات کے وجود سے مزین ہو کر یہ خاص آسمانی کیفیت جب وہ
چمکتا نیلہ نظر آتا ہے ایسا ہی رنگ اس کے بہتے بہاؤ کو دیکھنے والی آنکھ
محسوس کرتی ہے۔جس کے کناروں پر کھڑے ہو کر مضبوطی کے ساتھ پاؤں جماتے ہوئے
ڈبکیاں لگائی جائیں نہایا جائے تو ہفتوں کے تھکے ہارے انسان کو ایسا محسوس
ہوتا ہے جیسے وہ تکھا ہوا تھا ہی نہیں یہ رب کے نظارے عنائیات ہیں جن کا
انسان اور اس کے دماغ ہاتھ سے وجود میں انے والی سائنس ٹیکنالوجی کے پاس
بھی کوئی نعم البدل نہیں ہے‘ ماسوائے اسکے کہ ان کی حفاظت کی جائے اور نشو
ونما کے فریضے کو پوری ذمہ داری سے ادا کیا جائے۔ جس کا ذکر ہمارے سامنے
ایک بار اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران چوہدری عبدالمجید اور وزیر تعلیم میاں
عبدالوحید کے مابین بھی ہوا تھا کہ اس وقت چین میں سردار مسعود خان (موجودہ
صدر ریاست) سفیر تھے ان کا اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کے چین کے ساتھ
ملکی اُمور میں آنے جانے کے استفادہ کر کے شاردہ یونیورسٹی قیام بحالی کے
لئے کام کیا جائے جس کے بعد یہ سوچ ماند پڑھ گئی تاہم عمران خان حکومت کی
طرف کرتاس پور پنجاب راہداری سکھ مذہب کے ماننے والوں کیلئے کھولنے کے
شاندار منصوبے کے بعد راقم سمیت بہت سے لوگوں نے شاردہ ٹمپل کی بحالی اور
قدرتی راستہ اس کے عقائد سے منسلک لوگوں کیلئے کھولنے کیلئے اپنی اپنی بساط
کے مطابق آواز عالمی توجہ کے حصول کیلئے عمران خان حکومت تک پہنچانے کی سعی
کی‘ آزادکشمیر اسمبلی نے حالیہ بجٹ اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے مطالبہ
کیا کہ شاردہ ٹمپل سمیت آزاد مقبوضہ کشمیر میں تمام مذاہب کے ماننے والوں
کے لیے ان کے قدیمی‘ مذہبی مقامات تک آنے جانے کی اجازت و بحالی کیلئے
عملدرآمد کیا جائے بلکہ اس نالے کا آزادکشمیرکی طرف آنے والے بہاؤ کو روکنے
کیلئے بھارت نے جس قدر ہو سکتا تھا اپنی طرف سے رُخ موڑ کر کشن گنگا ڈیم
بنا دیا ہے جس کی افتتاحی تقریب میں وزیر اعلیٰ وقت مقبوضہ کشمیر محبوبہ
مفتی نے نریندر مودی کی تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے شاردہ بحالی کیلئے
مطالبہ کیا تھا جس کے بعد مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا پہلے سے زیادہ قتل
عام مودی نے گورنر راج نافذ کر کے جواب دیا تاہم عمران خان حکومت کے اہم
رکن پارلیمنٹ رمیش کمار کا یہاں کا دورہ اسی بحالی تجویز کی طرف ایک کڑی ہے
اور یہاں اقلیتوں کے مذہبی مقامات کی بحالی کیلئے اقدامات پر ان کا حکومت
آزادکشمیر عدلیہ کیلئے خوشگوار تاثر اطمینان کا اظہار فرط بخش ہے۔چیف جسٹس
چوہدری ابراہیم ضیاء‘ایڈووکیٹ جنرل کے ڈی خان۔سیکرٹری اطلاعات آثار قدیمہ
مدحت شہزادمبارکباد کی حقدار ہیں کہ ان کے حسن سلوک سے رمیش کمار اچھی سوچ
لے کر روانہ ہوئے ہیں۔ اُمید ہے کہ عمران خان حکومت کرتار پور کے بعد یہ
شاندار اقدام کا فیصلہ لے کر ایک اور عالمی علاقائی سطح پر بریک تھرو اپنے
نام کریں گے مگر نیلم دریا کے اس طرف کے رہنے والے لوگوں خصوصاً جنگلات کے
تحفظ سے متعلق اختیار والوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ دوسرے کنارے بھارتی فوج
کی بربریت کے باوجود لوگوں نے جنگلات کی حفاظت کی ہے مگر یہاں اس کا قتل
عام کر کے اُجاڑنے میں کوئی کسر چھوڑی نہیں گئی ہے اس کے حوالے سے وہی
راستہ قوت جذبہ اختیار کریں جو امن کیلئے کرتے ہیں یہ نہ رہے تو پھر امن کس
کام کا ہے؟
درخت چھاؤں سے ہٹ کر بھی اور بہت کچھ ہیں
یہ کیسی چیز تھی اور ہم نے کام کیا لیا ہے
تم کیا جانو اس دریا کو کیا گزری ہے
تم نے تو بس پانی بھرنا چھوڑ دیا ہے
|