ڈسپرین اور سرنج

پاکستان دنیا کا ’’واحد‘‘ ملک ہے۔ جہاں ڈسپرین اور سرنج پر صرف چلان نہیں بلکہ دواخانے کلینکس ’’ سیل ‘‘ہوتے ہیں ماشااﷲ محکمہ صحت کی اعلیٰ کارکردگی کی ایسی ایسی مثالیں ہیں جہاں عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ جی ہاں پاکستان ہی دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں ’’ بند کلینکس دواخانے ‘‘ اتائیت کے خاتمہ کے نام پر سیل کر دیئے جاتے ہیں ۔ سیل بھی ایسی جہاں دن ہفتوں میں ہفتے مہینوں میں اور مہینے سال میں بدل جاتے ہیں مگر ’’ ڈی سیل ‘‘ جزا سزا کا کوئی پہلوں نظر نہیں آتا اور مجبور اً لوگوں کو عدالت سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔

اتائیت کیا ہے؟ عام لفظوں میں اتائیت کا مطلب ’’ میڈیکل کے کسی بھی شعبہ ‘‘ کی تعلیم یعنی سند ڈپلومہ ڈگری کے بغیر ’’ پریکٹس ہے۔ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو محکمہ صحت کے ملازمین ڈسپنسرز اور نرسنگ اسٹاف کی بات نہیں کر رہا ان لوگوں کی پریکٹس بلواسطہ یا بلاواسطہ کرنا تو سمجھ میں آتا ہے مگر محکمہ صحت کے کلرک ، محکمہ صحت کا مالی اور محکمہ صحت کے ڈرائیورز کا پریکٹس کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔

سب سے بڑا ظلم ’’ اتائیت کے خاتمہ کے نام پر قومی مسیحا ؤں کوالیفائڈ اور رجسٹرڈ حکماء + ہومیوپیتھک ڈاکٹرز کے ساتھ زیادتی ہے۔

غور و غوض کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ 95% حکماء اور ہومیوپیتھک ڈاکٹرز کے دواخانے اور کلینکس سیل ہونے کی بنیادی وجوہات میں عام روزِ مرہ کی ادویات جیسا کہ ’’ ڈسپرین پیناڈول پٹی سرنج‘‘ ہیں۔ ایک منٹ کے لئے اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ حکمت اور ہومیوپیتھی کی پریکٹس کرنے والوں کو ان کی اجازت نہیں لہذا یہ اتائیت ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ یا ترقی پزیر ملک میں ان ( عام روزِ مرہ کی ادویات ) کو رکھنے یا فروخت کرنے پر پابندی نہیں تو پھر پاکستان میں کیوں پابندی لگائی گئی ہے؟؟

کیا یہ بغض ہے ہومیوپیتھی اور حکمت کے ساتھ ؟ اگر یہ ہومیوپیتھی یا طب کے ساتھ پاکستان میں جیلس پن نہیں تو دنیا کے کسی ملک میں عام روزہ مرہ ادویات پر پابندی کیوں نہیں ؟ کیا ہم صحت کے معاملے میں دنیا سے بہت آگئے ہیں یا ایلوپیتھک ( انگریزی طریقہ علاج) کے ڈاکٹرز کے شکنجے میں جکڑھے ہوئے ہیں اور ایلوپیتھک ڈاکٹرز کی خوشنودی کے لئے بے چارے حکماء اور ہومیوپیتھک ڈاکٹرز کو ’’ کھڈے لائن ‘‘ لگانے کے لئے پری پلین پر عمل پیرا ہے؟یہ بات تو خاص و عام جانتا ہے کہ بڑے بڑے ہسپتال ، بڑی بڑی لیباٹریز ایک انڈسٹری کا درجہ حاصل کر چکی ہیں۔ ایلوپیتھک ڈاکٹرز کی اجارہ داری کے لئے حکمت اور ہومیوپیتھی شاید انگریزی طریقہ علاج والے اپنے رستے کی ’’ رکاوٹ ‘‘ سمجھتے ہیں۔ اس لئے ہومیوپیتھی اور طب کے ساتھ ’’ سوتیلی ماں ‘‘ والا سلوک محکمہ صحت اور حکومت نے رکھا ہوا ہے۔
یہ بات بڑے دکھ کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ ایسے ایسے دواخانے سیل کئے گئے ہیں جو نسل در نسل انسانیت کی خدمت کر رہے تھے ۔ اور کسی مریض یا عام شہری کو کبھی ان سے کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ اور جب ان کا کاروبار سیل کیا گیا تو تین چیزیں برآمد ہوئیں نمبر ایک پٹی نمبر دوئم روئی اور نمبر تین لکڑ کی چھوٹی پھٹیاں ۔کیا یہ زیادتی نہیں ؟

کچھ کلینکس پر گلوکومیٹرز کی موجودگی انکی بندش کا سبب بنے۔ کچھ ایسی دکانیں بھی تھی جن کوکلینک سمجھ کر سیل کیا گیا بعد میں معلوم ہوا وہ موٹر سائیکل مکینک کی دکان تھی۔ قصہ مختصر جب بند دکانوں کوکلینکس سمجھ کر سیل کیا گیا ہے تو ان کو ڈی سیل کر کے چیک کیا جائے اور پھر جزا سزا کا عمل ہو کیونکہ ہر متاثرہ شخص ’’ عدالت کا دروازہ ‘‘ کھٹکھٹا نہیں سکتا ۔ عدالت میں جانے کے لئے روپے پیسے کی ضرورت ہے جبکہ جن کا کاروبار بند ہو وہ ’’ زندگی اور موت ‘‘ کی کشمکش میں مبتلا ہوتے ہیں۔
گزارش ہے کہ عام روزِ مرہ کی ڈسپرین پیناڈول پر پابندی ختم کی جائے تاکہ معمولی سردرر کے لئے غریب سفید پوش طبقہ تڑپنے کی بجائے کئی سے بھی خرید کر فائدہ حاصل کر سکے۔

معتصبانہ قانون کا خاتمہ کر کے عام روزِ مرہ ادویات پر پابندی ختم کی جائے اس طرح ایسے دوردراز دیہات جہاں ’’ میڈیکل سٹور یا فامیسی ‘‘ کا تصور نہیں وہ عام پرچون کی دکانوں یا حکماء اور ہومیوپیتھ سے خرید کر اپنا وقت گزار سکیں۔

عام روز مرہ کی ادویات سے پابندی کے خاتمہ سے محکمہ صحت کو حکماء اور ہومیوپیتھس کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے اصل ’’ اتائیوں ‘‘ کے خلاف مجبوراً کاروائی کرنا پڑے گی جس سے پاکستان میں حقیقی اتائیت کا خاتمہ ہوگا۔

سرنج ایک بہت ہی کارآمد چیز ہے ۔ جب سرنج کی وجہ سے چلان نہیں ہوتے تھے تب اس کا حصول اتنا آسان تھا کہ شہر سے بہت دور چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں بھی آسانی سے مل جاتی تھیں۔ جب سرنج کی وجہ سے کلینکس دواخانے اور عام کریانہ پرچون کی دکانیں محکمہ صحت کا تارگٹ بنے تو سرنج کا ملنا( ایسے علاقے دیہات جہاں میڈیکل سٹور نہیں ہے) مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوگیا۔ ہومیوپیتھس اور حکماء نے بھی جرمانے والی پھکیوں کی وجہ سے سرنجیں رکھنے سے توبہ کر لی ! نتیجہ وہ کسان جو گائے بھینس کو دودھ کے لئے ٹیکہ لگاتے ہیں وہ مجبوراً ’’ ایک ہی سرنج ‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ کیا بیمار گائے بھینس تندرست گائے بھینس کو اپنی بیماری کا تحفہ نہیں دیتیں۔اگر تندرست گائے بھینس بیمار گائے بھینس کی وجہ سے بیمار ہو جاتیں ہیں تو کیا دودھ پیتے بچے اور کمزور انسان جانوروں کی بیماریوں میں مبتلا نہیں ہوتے؟ لازماً ہوتے ہیں۔

منشیات کے عادی لوگ نشہ کی لت پوری کرنے کے لئے جب ایک ہی سرنج سے مل کر نشہ والا ٹیکہ لگاتے ہیں تو کیا ’’ ہیپاٹائٹس ، ایچ آئی وی ، ایڈز ‘‘ وغیرہ پھیلانے کا سبب نہیں ؟ حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ ہومیوپیتھی اور طب کی افادیت کو سمجھتے ہوئے اس کو اس کا جائز مقام دیں -

اگر ہم پاکستان کے غیور عوام اور سفید پوش طبقہ کی خدمت کرنے کے ساتھ اﷲ اور اﷲ پاک کے پیارے حبیب ﷺ کو خوش کرنا چاہتے ہیں تو دکھی انسانیت کی خدمت کرنا ہوگئی۔ دکھی سسکتی انسانیت کی خدمت اور اتائیت کے خاتمہ کے لئے عام روزِ مرہ کی ادویات جیسا ڈسپرین اور سرنج سے پابندی اٹھانی ہوگی۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Dr Tasawar Hussain Mirza
About the Author: Dr Tasawar Hussain Mirza Read More Articles by Dr Tasawar Hussain Mirza: 296 Articles with 312484 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.