جو دَم یا صدقہ واجب ہونے سے آپ کو بچالے ․․․!!
ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش سے حج کو جانے والے حضرات چوں کہ عموماً
حج تمتع ہی کرتے ہیں اس لیے حج تمتع کرنے کا ایسا مختصر ،آسان اور مکمل
طریقہ بتایا گیا ہے ،جس کے مطابق عمل کرنے سے کسی بھی طرح کی کوئی جنایت
اور غلطی نہیں ہوگی اور نہ ہی دم وغیرہ واجب ہوگا۔
حج تمتع کہتے ہیں کہ ایک سفرمیں عمرہ اور حج دونوں کا فائدہ اٹھانا۔اس کے
لیے مکہ معظمہ پہنچنے سے پہلے میقات پر حاجی صرف عمرہ کا احرام باندھیں گے
اور کعبۃ اﷲ کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرکے اپنے سر کے بال منونڈوا کر
یا کترواکر عمرہ کے احرام سے نکل جائیں گے۔پھر جب حج کا زمانہ یعنی آٹھ ذی
الحجہ آئے گا تو پھر حج کا احرام باندھ کر حج کریں گے۔
حج کی تیاری
حج کے پانچ دن ہوتے ہیں اور آٹھ ذی الحجہ سے حج کی تیاری شروع ہوجاتی
ہے۔لیکن آج کل معلم بھیڑ کی وجہ سے اپنے متعلقہ حاجیوں کو سات ذی الحجہ ہی
کو منیٰ لے جاتے ہیں،اس لیے ۷؍ ذی الحجہ سے ہی حج کی تیاری شروع کردیں۔مثلا
سرکے بال سنوار لیں،خط پٹی بنوالیں، مونچھیں کتر لیں،ناخن کاٹ لیں،زیر ناف
اور بغل کے بال صاف کرلیں،پھر احرام کی نیت سے غسل کرلیں یا وضوکرلیں۔جوتے
چپل اتار کر ہوائی چپل پہن لیں اور پھر حرم شریف جاکر احرام کی دوسفید
چادریں اس طرح استعمال کریں کہ ایک سفید چادربغیر سلے ہوئے لنگی کی طرح
باندھ لیں اور دوسری چادر دوپٹہ کی طرح اوڑھ لیں اور سر ڈھانک کردورکعت نفل
پڑھ لیں جب کہ مکروہ وقت نہ ہو۔اور اگر حرم شریف جانے کا موقع نہ ہوتو اپنی
رہائش گاہ پر ہی احرام کی نیت سے یہ نفل پڑھیں۔ عورتیں اپنی رہائش گاہ پر
ہی یہ نفل پڑھیں۔
حج کا احرام
پھر جب منیٰ کوروانہ ہونے کاوقت آجائے تو حج کی نیت کرلیں ۔سر کھول کر ان
الفاظ میں نیت کریں: اَللّٰھُمَ اِنِّی اُرِیدُ الْحَجَّ فَیَسِّرْہُ لِی
وَتَقَبَّلْہُ مِنِّی۔ اے اﷲ میں حج کی نیت کرتا ہوں ،اس کو میرے لیے آسان
فرمادیجیے اور میری جانب سے قبول فرمالیجیے۔اگر حج بدل کررہے ہوں تو اس طرح
نیت کریں: اَللّٰھُمَّ اَنی اُرِیدُ الحَجَ مِنْ فُلانٍ ․․․․․․(یعنی اس شخص
کا نام لیں جس کی طرف سے حج کررہے ہوں) فَیَسِّرْہُ لِی وَتَقَبَّلْہُ
مِنْہُ۔اے اﷲ میں فلاں کی طرف سے حج کی نیت کرتا ہوں ،اس کو میرے لیے آسان
فرمادیجیے اور فلاں کی جانب سے قبول کرلیجیے۔نیت کرنے کے بعد کسی قدر بلند
آواز سے تین دفعہ تلبیہ پڑھیں: لَبَّیْکَ،اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ
لاَشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ
وَالْمُلْکَ،لَاشَرِیْکَ لَکْ۔اب آپ احرام میں داخل ہوگئے۔احرام حج کا پہلا
رکن ہے اور فرض ہے۔
احرام کی پابندیاں
احرام باندھ کر تلبیہ پڑھنے کے بعد یہ چیزیں حرام ہوجائی ہیں مرد وعورت
دونوں کے لیے: (۱)خوشبولگانا(۲)ناخن کاٹنا(۳)جسم سے بال دور کرنا(۴)چہرہ
ڈھانکنا (۵) میاں بیوی والے خاص تعلقات اور جنسی شہوت کے کام کرنا (۶)خشکی
کے جانور کا شکار کرنا۔ ممنوعات احرام صرف مردوں کے لیے:(۱)سلے ہوئے کپڑے
پہننا (۲)سرکو ٹوپی یا پگڑی یا چادر وغیرہ سے ڈھانکنا(۳)ایسا جوتاچپل پہننا
جس سے پاؤں کے بیچ کی اونچی والی ہدی چھپ جائے۔مکروہات احرام:بدن سے میل
دور کرنا،صابن کا استعمال کرنا،کنگھاکرنا۔احرام کی حالت میں جائز کام: غسل
کرنامگر زخوشبودار صابن یا تیل نہ لگانا،احرام کو دھونا،اسے بدلنا،
انگوٹھی،چشمہ،بیلٹ اور چھتری وغیرہ کا استعمال کرنا،احرام کے اوپر مزید
چادر وغیرہ ڈال کر سونا۔
۸؍ذی الحجہ ،حج کا پہلا دن
سات ذی الحجہ کی شام کو ہی آج کل عام طور پر منیٰ آجاتے ہیں۔منیٰ آتے ہوئے
راستہ میں بہ کثرت تلبیہ اور تسبیحات پڑھتے رہیں۔اپنی رہائش گاہ سے منیٰ
جانے میں ضرورت سے زیادہ سامان نہ لیں،بلکہ صرف اوڑھنے اور بچھانے کی
دوچادر،ہوائی تکیہ،نہانے اور منہ پوچھنے کا تولیہ،دری یا چٹائی، پانی
کابوتل،گلاس،چمچہ،چاقو،چینی،نمک،سوکھاناشتہ یا ستو، مسواک، ریزر، بلیڈ،
قینچی، آئینہ، گنگھی، رسی، چھتری، قے، دست، سردرد، بخار،قبض اور گیس کی
دوائیں،ایک عدد سلاہوا کپڑا اورایک زائد احرام۔ یہ سب چیزیں پٹھو بیگ میں
ڈال لیں۔کمر بیلٹ جس میں اقامہ، یاپاسپورٹ،پہچان پتر، آدھارکارڈ، ضرورت کے
مطابق سعودی ریال، دیگر ضروری کاغذات، دھوپ کا چشمہ اورموبائل وغیرہ
رکھیں۔چپل بیگ اور کنکر کی تھیلی بھی ساتھ لے لیں۔منیٰ پہنچ کر رات منیٰ
میں گزاریں۔آٹھ ذی الحجہ کی فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء منیٰ میں ہی
اداکریں۔زیادہ تر تلاوت قرآن کریم، تسبیحات، تلبیہ اور نوافل ودعا کا خوب
اہتمام کریں۔ فضول بات چیت میں اور گھومنے میں وقت ضائع نہ کریں۔نویں ذی
الحجہ کی رات منیٰ میں گزارنا سنت ہے۔لہذا اگر کسی وجہ سے منیٰ پہنچنے میں
تاخیر ہوجائے یا منیٰ نہ پہنچ سکیں تو کوئی دم وغیرہ لازم نہیں ہوگا،ویسے
قصداً ایسا نہ کرنا چاہیے۔
۹؍ذی الحجہ،حج کا دوسرادن
نو ذی الحجہ کی فجرکی نماز جب اجالا ہوجائے تب منیٰ میں اداکریں اور نماز
کے بعد تکبیر تشریق:اَللّٰہُ اکبراَﷲ اکبر،لاالہ الا اللّٰہُ ،وَاللّٰہ
اَکبر اَللّٰہ اکبر ،وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ پڑھیں۔ یہ تکبیر تشریق نویں ذی
الحجہ کی فجر سے تیرھویں ذی الحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد مرد عورت
سب کو پڑھنا واجب ہے۔اس کے بعد جب خوب دھوپ نکل جائے تب تیاری کرکے اپنا
سامان لے کر تلبیہ :’’لبیک،اللھم لبیک،لبیک لاشریک لک لبیک،ان الحمد
والنعمۃ لک والملک، لاشریک لک ‘‘پڑھتے ہوئے عرفات کے لیے نکل جائیں۔نوذی
الحجہ سے پیشتریا سورج نکلنے سے پہلے منیٰ سے عرفات کے لیے نکلنا خلاف سنت
ہے۔ویسے آج کل آٹھ ذی الحجہ کی شام کو ہی عشاء بعد عرفات کے لیے معلم لے
جاتے ہیں اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔البتہ وقوف عرفہ کا وقت ۹؍ذی الحجہ کے
دن زوال سے شروع ہوتا ہے۔عرفات پہنچ کر وادی عرنہ کے علاوہ جہاں چاہیں قیام
کریں۔جبل رحمت کے نزدیک قیام کرنا افضل ہے،اس پہاڑ پر چڑھنا کوئی فضیلت کی
چیز نہیں۔
عرفات میں وقوف عرفہ
عرفات پہنچ کرکھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر کچھ دیر آرام کرلیں۔پھر زوال سے
پہلے غسل کرلیں،ورنہ وضوکرلیں۔زوال ہوتے ہیں وقوف عرفہ شروع کردیں۔شام تک
بہ کثرت تلبیہ پڑھیں۔تیسرا کلمہ پڑھیں،چوتھا کلمہ پڑھیں۔خوب توبہ واستغفار
کریں۔خوب روکر عاجزی کے ساتھ اپنے رب سے دعائیں مانگیں۔یہ دن خوب مانگنے
اور گناہ بخشوانے کا دن ہے ،اسے ہرگز ضائع نہ ہونے دیں۔حدیث میں یہ خاص دعا
بھی پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے:’’لاالہ اﷲ وحدہ لاشریک لہ ،لہ الملک ولہ الحمد
وھو علی کل شیٔ قدیر‘‘ایک سو مرتبہ،’’قل یا ایھاالکافرون‘‘ اخیر تک سو
مرتبہ اور ’’اللھم صلی علی محمد وعلی اٰل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی
اٰل ابراہیم انک حمید مجید‘‘ سو مرتبہ پڑھنے سے اﷲ تعالی فرشتوں کو مخاطب
کرکے فرمائیں گے کہ اس بندے کی کیا جزا ہے جس نے میری تسبیح وتہلیل،تکبیر
وتعظیم اور تعریف و ثنا کی اور میرے رسول ﷺ پر درودبھیجا۔اے فرشتو گواہ
رہوکہ میں نے اس کو بخش دیا اور اس کی شفاعت قبول کی اور اگر وہ اہل عرفات
کے لیے بھی شفاعت کرتا تو میں قبول کرلیتا۔وقوف عرفہ کھڑے ہوکر کرنا افضل
ہے اور بیٹھ کر بھی جائز ہے،سوکر بھی جائز ہے۔لہذا سہولت کے مطابق کھڑے
ہوکر،بیٹھ کر،سوکر،باہر دھوپ میں،چھاؤں میں یا اپنے خیمہ میں کہیں بھی
کرسکتے ہیں۔میدان عرفات میں ظہر کی نماز ظہر کے وقت میں اور عصر کی نماز
عصر کے وقت میں اکیلے یا باجماعت اذان واقامت کے ساتھ اداکریں۔اگر مسجد
نمرہ میں جاکر نماز پڑھتے ہیں تو پھر امام کے پیچھے پڑھیں،ورنہ اپنی جگہ پر
ہی نمازیں اداکریں۔غرض شام تک رب تعالی کی عظمت وکبریائی کو دل ودماغ میں
بٹھاکر خوب دعائیں مانگیں اور اپنے لیے،گھروالوں اور رشتہ داروں کے
لیے،قیامت تک آنے والی اپنی نسلوں کی دینداری،خیرخواہی اور بھلائی کے لیے
دعا مانگیں۔کیوں کہ عرفات کی مانگی ہوئی ساری دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔وقوف
عرفہ حج کا دوسرارکن ہے اور فرض ہے۔بہت سے لوگ دوسروں کی دیکھا دیکھی خود
ہی یا معلم کے اصرار پر سورج غروب ہونے سے پہلے ہی عرفات سے نکل جاتے ہیں
اور مزدلفہ روانہ ہوجاتے ہیں۔خوب یاد رکھنا چاہیے کہ سورج غروب ہونے سے
پہلے عرفات سے ہرگز نہ نکلیں،ورنہ دم دینا ہوگا۔
مزدلفہ روانگی اور قیام
سورج غروب ہونے کے بعد مزدلفہ کے لیے روانہ ہوجائیں۔سعودی حکومت کی جانب سے
مزدلفہ کے حدود شروع ہونے کی وضاحت بورڈ پر لگی ہوتی ہے،لہذا جہاں سے
مزدلفہ کے حدود شروع ہوتے ہیں اس کے اندر ہی قیام کریں۔بعض لوگ دوسروں کی
دیکھا دیکھی حدود مزدلفہ سے پہلے ہی ٹھہر جاتے ہیں، ان کو دیکھ کر دھوکہ نہ
کھائیں ورنہ مزدلفہ میں آپ پہنچ نہ پائیں گے اور وقوف مزدلفہ نہ ہونے کی
بنا پر دم واجب ہوجائے گا۔ مزدلفہ میں جہاں چاہیں قیام کریں مگر مشعر حرام
کے قریب ٹھہرنا افضل ہے۔ یہاں پہنچ کر وضو کرکے عشاء کے وقت میں مغرب اور
عشاء دونوں نمازیں جماعت یامنفرداً اداکریں۔دونوں نمازوں کو ایک ساتھ جمع
کرنے کے لیے جماعت سے پڑھنا شرط نہیں ؛بلکہ بغیر جماعت کے بھی دونوں کو جمع
کرنا ہے۔یعنی مغرب کو عشاء کے وقت میں ہی پڑھنا ہے۔دونوں کے لیے ایک اذان
اور ایک اقامت ہوگی۔پہلے مغرب کی فرض نماز پڑھیں، پھر تکبیر تشریق اور لبیک
کہیں اور اس کے فوراً بعد عشاء کی نماز پڑھیں۔ اس کے بعد مغرب کی دورکعت
سنت اور اس کے بعد عشاء کی دورکعت سنت اور تین رکعت وتر پڑھیں۔اگر مغرب کے
وقت میں مزدلفہ پہنچ بھی جائیں تب بھی نماز ِ مغرب عشاء کے وقت سے پہلے نہ
پڑھیں۔
مبارک رات
یہ بڑی مبارک رات ہے۔اس رات کا مزدلفہ میں گزارنا سنت مؤکدہ ہے۔اس میں ذکر
وتلاوت،درودشریف اور دعا خوب دل لگا کر کریں۔ تلبیہ بھی پڑھتے رہیں۔کچھ دیر
آرام بھی کرلیا کریں۔رات میں ہی چنے کے دانے کے برابر فی آدمی ستر کنکریاں
مزدلفہ سے چن کر تھیلی میں ڈال لیں۔ صبح صادق ہونے پر اذان دے کر فجر کی
سنت پڑھیں اور فجر کی نماز باجماعت یا انفراداً اداکریں۔اس کے بعد وقوف
مزدلفہ شروع کردیں۔ وقوف مزدلفہ واجب ہے خواہ تھوڑی ہی دیر کیوں نہ ہو۔طلوع
فجر کے وقت سے طلوع شمس تک وقوف مزدلفہ کا وقت رہتا ہے۔لہذا اگر کوئی شخص
بلاعذر طلوع فجر سے پہلے ہی مزدلفہ سے نکل گیا یا طلوع شمس کے بعد مزدلفہ
پہنچا تو دم دینا لازم ہوگا۔ طلوع فجر سے لے کر طلوع شمس تک وقوف مزدلفہ کے
دوران دعا میں مشغول رہنا سنت ہے۔جب سورج نکلنے والا ہوتو منیٰ کے لیے
روانہ ہوجائیں۔
۱۰؍ ذی الحجہ۔حج کا تیسرادن اور جمرہ عقبہ کی رمی
منیٰ پہنچ کر جمرہ عقبہ جوکہ آخری جمرہ کہلا تا ہے اور مکہ کی جانب ہے اس
پر ایک ایک کرکے سات کنکریاں ماریں۔کنکری شہادت کی انگلی اور انگوٹھے سے
پکڑ کرہاتھ تھوڑا اونچاکرکے پھینکیں ۔رمی جمار واجب ہے ،چھوڑ دینے سے دم
واجب ہوگا۔رمی کی کنکریاں جمرات پر لگنا ضروری نہیں بلکہ اس کے گرد گول
احاطہ میں گرجائیں بس رمی صحیح ہونے کے لیے اتناہی کافی ہے۔بہر حال ہر
کنکری مارتے وقت یہ دعا پڑھیں:’’بسم اللّٰہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ، رَغْمًا
لِلشَّیْطَانِ وَرِضًا لِلرَّحْمٰنِ‘‘۔ جمرہ پر پہلی کنکری مارتے ہی لبیک
کہنا بند کردیں۔ ۱۰ویں ذی الحجہ کو رمی کا وقت فجر سے شروع ہوکر اگلے دن
یعنی گیارھویں کی فجر تک ہے،مگر مسنون اور افضل یہ ہے کہ آج کی رمی طلوع
آفتاب کے بعد اور زوال سے پہلے ہو۔رمی کے بعد دعا کے لیے نہ ٹھہریں بلکہ
اپنی قیام گاہ چلے جائیں۔اس کے بعد قربانی کریں۔قربانی متمتع اور قارن پر
کرنا واجب ہے اور مفرد پر مستحب ہے۔قربانی خود کریں یا کسی معتمد ادارہ یا
شخص سے کروائیں۔جب یقین کامل ہوجائے کہ قربانی ہوچکی ہے تو پھر حلق یا قصر
کرلیں۔یعنی مرد حضرات اپنا سر مونڈوالیں یا بال کتروالیں اور خواتین انگلی
کے پور سے زیادہ بال چاروں طرف سے کاٹ لیں۔مردوں کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ ان
کے بال اگر انگلی کی پور سے بڑے ہیں تب تو اختیار ہے حلق کریں یا قصر،لیکن
اگر انگلی کی پور سے چھوٹے ہیں تو حلق کرنا ہی ضروری ہوگا،اس کے بغیر حلال
نہیں ہوپائیں گے۔بال کتروانے یا مونڈوانے کے بعد آپ کے لیے بیوی سے جماع کے
علاوہ ساری چیزیں حلال ہوجائیں گی جو احرام کی وجہ سے ممنوع تھیں۔چنانچہ اب
آپ سلاہوا کپڑا بھی پہن سکتے ہیں ،خوشبو بھی لگاسکتے ہیں اور خوشبودار صابن
وتیل کا بھی استعمال کرسکتے ہیں۔طواف زیارت کے بعد عورت بھی حلال ہوجائے
گی۔
طواف زیارت اور حج کی سعی
طواف زیارت حج کا آخری رکن ہے اور فرض ہے۔اس کا وقت ۱۰؍ذی الحجہ سے ۱۲؍ذی
الحجہ کے سورج غروب ہونے تک ہے۔ایام نحر یعنی قربانی کے تین دنوں کے اندر
اگر طواف زیارت نہ کیا تو دم دینا ہوگا اور طواف زیارت بھی کرنا ہوگا۔اس
طواف کا طریقہ وہی ہے جو عمرہ کے طواف کا ہے۔طواف زیارت کے بعد سعی
کریں۔سعی کا بھی وہی طریقہ ہے جو عمرہ کی سعی کا ہے۔صرف نیت کا فرق
ہوگا۔افضل یہ ہے کہ حج تمتع کرنے والے طواف زیارت کے بعد سعی کریں اور اس
طواف میں صرف رمل کریں اور اضطباع یعنی دائیں بغل کے نیچے سے چادر نکالنا
ان سے ساقط ہوجائے گا،کیوں کہ وہ اس وقت احرام کے کپڑے اتارکرسلے ہوئے کپڑے
پہن چکے ہوں گے۔
۱۱؍ذی الحجہ ۔حج کا چوتھا دن
گیارہ ذی الحجہ کو پورے دن میں صرف ایک کام کرنا ہے اور وہ ہے تینوں جمرات
کی رمی۔آج کی رمی کا وقت زوال ِآفتاب سے شروع ہوتا ہے اور مسنون وقت غروب
آفتاب تک ہے ۔صبح صادق تک مؤخرکرنا مکروہ ہے۔رمی کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے
جمرۂ اولیٰ (چھوٹا شیطان)پر ایک ایک کرکے سات کنکریاں ماریں اور ہرکنکری
مارتے وقت وہی دعا پڑھیں جو کل ۱۰؍ذی الحجہ کی رمی کے وقت پڑھے تھے۔پھر
ذراساآگے یا دائیں یا بائیں ہوکر قبلہ رخ ہوکر دعائیں مانگیں۔اس کے بعد
جمرۂ وُسطیٰ (درمیانی شیطان) پرسات کنکریاں رمی کی دعا پڑھتے ہوئے ماریں
پھر کسی جانب ذراہٹ کر قبلہ رخ ہوکر دعا مانگیں۔اس کے بعد جمرہ ٔ عقبہ
(بڑاشیطان) پر سات کنکریاں رمی کی دعا پڑھتے ہوئے ماریں اور اس کے بعد دعا
نہ کریں،بلکہ سیدھے قیام گاہ آجائیں۔قیام گاہ میں آکر ذکروتسبیح اور نمازوں
کا اہتمام کریں اور گناہوں سے بالکل دور رہیں۔
۱۲؍ذی الحجہ۔حج کا پانچواں دن
آج کے دن بھی صرف ایک ہی کام ہے اور وہ ہے رمی۔آج بھی کل کی طرح تینوں
جمرات کی رمی کریں۔افعال،دعا ، ترتیب اور وقت وہی ہے جو ۱۱؍ذی الحجہ کی رمی
کے تھے۔واضح رہے کہ ۱۱؍اور ۱۲؍ ذی الحجہ کی رمی زوال ِ آفتا ب سے پہلے جائز
نہیں،لہذا اگر کوئی زوال سے پہلے کرلے تو دوبارہ زوال کے بعد کرنا
ہوگا،ورنہ دم واجب ہوجائے گا۔بہرحال ۱۲؍ کو رمی سے فارغ ہوکر آپ کو اختیار
ہے چاہے منیٰ میں رہیں یا مکہ مکرمہ چلے جائیں۔۱۲؍ذی الحجہ کو غروب آفتاب
سے پہلے بلاکراہت منیٰ سے مکہ معظمہ آسکتے ہیں،غروب کے بعد آنا مکروہ
ہے۔ہاں اگر آپ ۱۳؍ ذی الحجہ کی صبح کو منیٰ میں ہی ہوں تو پھر بغیر رمی کے
آنا جائز نہیں ،اس لیے ۱۳؍ کو زوال کے بعد تینوں جمرات کی رمی کرکے ہی منیٰ
سے نکلیں۔اب اﷲ کا شکر اداکرتے ہوئے مکہ معظمہ چلے جائیں۔وہاں جتنے دن بھی
رہیں خوب نفلی طواف کریں۔حدیث میں آیا ہے کہ روزانہ رب تعالی کی طرف سے
خانہ کعبہ پر ۱۲۰؍ رحمتیں نازل ہوتی ہیں،ان میں سے ۶۰؍رحمتیں طواف کرنے
والوں پر،۴۰؍وہاں نماز پڑھنے والوں پر اور۲۰؍ خانہ کعبہ کو دیکھنے والوں پر
نازل ہوتی ہیں۔(طبرانی)اپنے والدین اوراساتذہ کی طرف سے نفلی عمرہ بھی
کریں۔حرم شریف میں نمازیں باجماعت ادا کیا کریں۔پھر جب وطن واپسی کا ارادہ
ہوتو طواف وداع کرکے جائیں۔لیجیے آپ کو مقدس مقامات کے برکات اور حج کی
نعمت نصیب ہوگئی ۔
طواف
طواف کہتے ہیں خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگانے کو۔عمرہ اور حج دونوں کے
طواف کا طریقہ یکساں ہے۔عمرہ کے طواف میں چونکہ احرام کا کپڑا آپ پہنے رہتے
ہیں اس لیے اس میں اضطباع کرنا ہوگا،جب کہ حج کے طواف زیارت میں احرام کا
کپڑا اترچکاہوتا ہے اس لیے اضطباع کی ضرورت نہیں۔ بہرحال طواف کے لیے وضو
کرلیں بغیر وضو کے طواف جائز نہیں۔ لہذا اگر پہلے چار چکر پورا ہونے سے قبل
درمیان طواف میں وضو ٹوٹ جائے تو وضو کرکے دوبارہ طواف شروع کریں، اگر چار
چکر پورا ہونے کے بعد وضو ٹوٹ جائے تو وضو کرکے آئیں اور جس چکر میں ٹوٹا
تھا وہاں سے طواف شروع کریں۔ طواف کے لیے مسجد حرام میں داخل ہوکر کعبہ
شریف کے اس کونہ کی طرف آجائیں جس میں حجر اسود لگا ہوا ہے اور وہاں اس طرح
کھڑے ہوں کہ حجر اسود آپ کی دائیں جانب ہو۔ اب طواف کی نیت کرلیں کہ میں
عمرہ کا یا حج کا طواف کرتا ہوں۔ عمرہ کی سعی بھی کرنی ہے اس لیے مرد حضرات
اضطباع یعنی احرام کی چادر کو دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر
رکھ لیں اس طرح کہ دایاں کندھا کھلا رہے۔یہ اضطباع پورے طواف میں باقی
رکھنا ہے۔ بہرحال اس کے بعد تھوڑا آگے بڑھ کر اس طرح کھڑے ہوں کہ آپ کا
سینہ اور منہ حجر اسود کے ٹھیک سامنے ہوجائے۔اس کے بعد تکبیر یعنی ’’بسم
اللّٰہ اَللّٰہ اَکبر ولِلّٰہِ الْحَمْدُ‘‘کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو کانوں
تک اٹھاکر نیچے گرادیں، جیسا نماز میں اٹھاتے ہیں۔ اس کے بعد حجر اسود کا
بوسہ لیں اگر سہولت ہو یا دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو حجر اسود کی طرف
کرکے ہتھیلیوں کا بوسہ لے لیں۔ اسے کہتے ہیں حجر اسود کا استلام۔ خیال رہے
کہ ہاتھوں کو کانوں تک اٹھانا الگ فعل ہے اور حجر اسود کا استلام الگ فعل
ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ تکبیر میں ہاتھ نماز کی طرح کانوں تک اٹھانا ہے
جب کہ استلام میں کان تک نہیں بلکہ اس سے نیچے سینہ کے مقابل تک رکھنا ہے
جتنی اونچائی پر حجر اسود لگا ہوا ہے۔ نیز طواف کے شروع کرتے وقت ہی صرف
پہلی بار ہاتھ کانوں تک اٹھانا ہے، اس کے بعدکے چکروں میں صرف استلام ہے
یعنی کان تک ہاتھ نہیں اٹھانا ہے۔ استلام حجر کے بعد بیت اﷲ کے دروازہ کی
جانب بغیر آگے بڑھتے ہوئے اسی جگہ سے فوجی کی طرح اپنے دائیں طرف مڑجائیں
اور کعبہ کو بائیں طرف رکھ کر طواف شروع کردیں۔ مرد حضرات پہلے تین چکروں
میں اگر ممکن اور سہولت ہوتو رمل کریں یعنی ذرا مونڈھے ہلاکے اور اکڑ کے
چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ کسی قدر تیز چلیں۔ عورتوں کے لیے اضطباع یا رمل
نہیں ہے۔ عمرہ اور حج دونوں طوافوں میں مردوں کو رمل کرنا ہے، کیوں کہ ان
دونوں طوافوں کے بعد سعی ہوتی ہے۔ نفلی طواف میں اضطباع اور رمل نہیں ہے۔
طواف کرتے وقت نگاہ سامنے ہی رکھیں، خانہ کعبہ کی طرف اس حالت میں رخ کرنا
منع ہے۔ طواف کی حالت میں خانہ کعبہ آپ کے بائیں جانب رہنا چاہیے۔ دوران
طواف بغیر ہاتھ اٹھائے جو بھی دعائیں یا د ہوں کرتے رہیں۔ تھوڑا آگے چلیں
گے تو حطیم آئے گا، اس کے باہر سے طواف کریں، طواف کی حالت میں اس کے دائرے
کے اندر جانا منع ہے۔ حطیم کعبہ کا ہی حصہ ہے، اس لیے طواف کے بعد جب کبھی
موقع ملے تو حطیم کے دائرے کے اندر جاکر نفل نماز ادا کریں، بہت ثواب اور
فضیلت ہے اس کی۔ اس کے بعد کعبہ شریف کا تیسرا کونہ آئے گا جسے رکن یمانی
کہتے ہیں۔ دونوں ہاتھ یا صرف دایاں ہاتھ رکن یمانی پر پھیریں اگر سہولت ہو،
ورنہ اس کی طرف اشارہ کئے بغیر ہی گزر جائیں۔ خیال رہے کہ رکن یمانی پر
ہاتھ پھیرتے وقت آپ کا سینہ کعبہ کی طرف نہ گھومے۔ جب رکن یمانی سے آگے
بڑھیں تو یہ دعا بار بار پڑھیں: ’’ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاٰخرۃ
حسنۃ وقنا عذاب النار‘‘۔ پھر کعبہ کا چوتھا کونہ یعنی حجر اسود آئے گا۔ حجر
اسود کے سامنے پہنچ کر اس کو بوسہ دیں یااس کی طرف ہتھیلیوں کا رخ کرکے
’’بسم اﷲ اﷲ اکبر وﷲ الحمد‘‘ کہیں اور ہتھیلیوں کو چوم لیں۔ اس طرح آپ کا
ایک چکر پورا ہوگیا۔ اس کے بعد باقی چھ چکر بالکل اسی طرح لگائیں۔ کل سات
چکر لگانے ہیں۔ آخری چکر کے بعد بھی حجر اسود کا استلام کریں۔ شروع اور آخر
کا استلام ملاکر کل آٹھ بار استلام ہونا چاہیے۔ طواف مکمل ہونے کے بعد مقام
ابراہیم پر آکر یا مسجد حرام میں کہیں بھی جہاں سہولت ہو دورکعت نماز واجب
الطواف پڑھیں۔ یہ دورکعت ہرطرح کے طواف کے بعد پڑھنا واجب ہے۔پہلی رکعت میں
’’قل یا ایھاالکافرون‘‘ اور دوسری میں’’ قل ھو اﷲ احد‘‘ پڑھنا مسنون ہے۔
مقام ابراہیم پر جاکر یہ دعا پڑھنا چاہیے: ’’وَاتَّخِذُوْامِنْ مَقَامِ
اِبْرَاہِیْمَ مُصَلّٰی‘‘۔ مسجد حرام کے متعدد جگہوں پر آب زمزم دستیاب ہے۔
قبلہ رخ ہوکر بسم اﷲ الرحمن الرحیم پڑھ کر خوب سیر ہوکر زمزم کا پانی پئیں
اور پینے کے بعد الحمد ﷲ پڑھیں، پھر یہ دعا پڑھیں: ’’اَللّٰھُمَّ اِنِّی
اَسْاَلُکَ عِلْمًا نَافِعاً وَ رِزْقًا وَاسِعًا وَشِفَاعًا مِنْ کُلِّ
دَاءٍ‘‘۔ طواف اور نماز وغیرہ سے فراغت کے بعد ملتزم پر آجائیں اور اس سے
چمٹ کر خوب رو دھوکر اس طرح دعا مانگیں جیسے کوئی غلام اپنے آقا کا دامن
پکڑ کر سوال کرتا ہے۔ ملتزم حجر اسود اور کعبہ کے دروازہ کے درمیان دومیٹر
کے قریب کعبہ کی دیوار کا خاص حصہ کہلاتا ہے۔ یہاں دعائیں قبول کی جاتی
ہیں۔ اس کے بعد باب الصفا سے نکل کر صفامروہ کی سعی کے لیے روانہ ہوجائیں۔
صفا مروہ کے درمیان سعی
حج یا عمرہ کی سعی میں بھی کوئی فرق نہیں ہے۔ سعی صفا سے شروع کریں اور
مروہ پر ختم کریں۔ صفا پر پہنچ کر بہتر یہ ہے کہ زبان سے کہیں: ’’اَبْدَاُ
بِمَا بَدَاَاللّٰہُ بِہٖ،اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ
اللّٰہِ ‘‘، پھر خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے دعا کی طرح ہاتھ اٹھالیں اور
تین مرتبہ ’’اَللّٰہُ اَکبَر‘‘ کہیں۔ اس کے بعد اوپر کھڑے ہوکر خوب دعائیں
مانگیں۔ یہاں بھی دعا قبول کی جاتی ہے۔ اب نیچے اتر کر مروہ کی طرف عام چال
سے چلیں، اﷲ کا ذکر زبان پرجاری رکھیں۔ بہتر یہ ہے کہ دونوں پہاڑوں کے
درمیان چلتے ہوئے یہ دعا پڑھتے رہیں: ’’رَبِّ اغْفِرْ
وَارْحَمْ،وَتَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلمُ،اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعَز
ُّالاَکْرَمُ‘‘۔جب سبز ستون جہاں گرین لائٹیں لگی ہوئی ہیں اس کے قریب پہنچ
جائیں تو مرد حضرات ذرا تیز رفتار سے چلیں اس کے بعد پھر ایسے ہی ہرے ستون
پر پہنچ کر تیز چلنا بند کر دیں اور عام چال سے مروہ کی طرف بڑھتے رہیں۔
مروہ پر پہنچ قبلہ رخ ہوکر ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگیں۔ یہ سعی کا ایک
پھیرا ہوا اور مروہ سے صفا تک دوسرا پھیرا ہوگا، اسی طرح سعی کے سات پھیرے
لگانے ہیں۔ سعی کا آخری پھیرا مروہ پر ختم ہوگا۔ واضح رہے کہ صفا یا مروہ
پر خوب اوپر چڑھنا ضروری نہیں، بلکہ زمین کی ہموار سطح سے اگر ایک سیڑھی
بھی اوپر چڑھ گئے تو بھی کافی ہوگا۔ سعی کے لیے وضو کا ہونا شرط نہیں لیکن
بہتر ہے۔ حیض والی عورت بھی سعی کرسکتی ہے، مگر طواف حیض کی حالت میں نہیں
کرسکتی۔ طواف سے فارغ ہوکر اگر سعی میں تاخیر ہوجائے تو بھی کوئی حرج نہیں۔
ہاں سعی کو طواف کے بعد کرنا شرط ہے، طواف کے بغیر سعی معتبر نہیں۔ عمرہ
کرنے کے لیے صرف عمرہ کی نیت سے احرام باندھنا ہے، تلبیہ پڑھنا ہے، طواف
کرنا ہے، سعی کرنا ہے اس کے بعد حلق یا قصر کے ذریعہ حلال ہوجانا ہے۔ حج
تمتع کرنے والا مکہ پہنچ کر حج کا عمرہ کرلینے کے بعد سات ذی الحجہ سے پہلے
پہلے جتنا چاہے نفلی عمرہ کرسکتا ہے،اس میں کوئی کراہت نہیں۔فقط |