کرکٹ آفیشلز کی غیر آفیشل حرکت

تحریر: عارف رمضان جتوئی
بلوچستان کو انصاف دو۔۔۔
کرکٹ کے ورلڈ کپ کا 37 واں میچ برطانیہ میں جاری تھا۔ پاکستان بمقابلہ افغانستان کا یہ میچ کئی لحاظ سے اہم بھی تھا۔ اتنے میں ہلکی سی گرج کی آواز سنائی دی۔ ایک شائق نے آواز کی سمت کان لگائے تو معلوم ہوا جہاز کی آواز ہے۔ جہاز کا تعاقب کرتا ہوا جب اس کے موبائل کا کیمرہ آسمان کی جانب گیا تو وہاں پر چھوٹا سا طیارہ گزر رہا تھا۔ اس طیارے کے پیچھے ایک بینر لٹک رہا تھا۔ جس پر لکھا تھا ’’جسٹس فار بلوچستان‘‘۔ بلوچستان کو انصاف دو۔

مہان ملک کے، مہان شہر کے، مہان اسٹیڈیم میں، مہان ٹورنمنٹ کے، مہان میچ کے دوران عین اوپر سے مکمل پلاننگ کے ساتھ گزرنے والے اس چھوٹے جہاز کے پیچھے لٹکتا بینر کئی سوالات چھوڑ گیا۔۔ یہ سب وہاں کے سکیورٹی اداروں کے علم کے بغیر کیسے ہوسکتا ہے۔ کیا وہ سب اس سے واقف نہیں ہوں گے اور پھر کیا تو کس نے کیا؟

یہ سب دیکھ کر آپ کو شاید ففتھ جنریشن وار یعنی نظریات اور سوچ کی جنگ کا اندازہ ہوگیا ہوگا۔۔ یہ سب ایک منظم منصوبے کے تحت کیا جارہا ہے۔ ہمارے کئی لوگ آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس پر مذاق اڑا رہے تھے۔ انہیں شاید آنے والی تباہی کا ادراک ہی نہ ہو۔ یہ سب دیکھ کر اب اندازہ ہوجانا چاہیے کہ اتنا خرچہ کر کے وہ بلوچستان کو ہی کیوں انصاف دلانے لگے ہیں۔ کشمیر نظر آیا، نہ فلسطین، برما نظر آیا، نہ شام و عراق مظلوم ترین دنیا کے کئی ممالک اور بھی تھے پھر یہ بلوچستان کا دکھ ان کو کیوں ہوگیا۔
بلوچستان میں نفرت کا بیچ بویا، پھر ان نوجوانوں کو ملک کے خلاف کیا۔۔ محرومیاں ہیں مگر ان کا غلط استعمال کیا گیا۔ پھر اس کے بعد پٹھان بھائیوں میں نفرت کا بیچ بویا۔ انہیں سلطنت کے خلاف کیا۔ محرومیاں یہاں بھی تھیں مگر ان کا غلط استعمال کیا گیا۔ سلسلہ تھما نہیں ایک فتنہ ختم ہوا نہیں کہ دوسرا چالو ہوجاتا ہے۔محرومیوں کے پیچھے وردی ہے۔ یہ سب کو بتایا اور پھر اس پر اس وردی میں کھڑے جوان کو مارنے کی تربیت دی اور پھر اس کو شہید کروانے پر لاکھوں کی فنڈنگ کی۔ سندھیوں کو بھی کہا گیا تم ایک محروم قوم ہو۔۔ وہاں بھی قوم پرست کھڑے کیے۔۔ ان کو بھی ملک و قوم اور سلطنت کے خلاف کھڑا کیا۔
پنجاب میں سرائیکیوں کی محرومیاں بھی ہیں۔ ان کو بھی کہا گیا کہ تخت پنجاب کے خلاف کھڑے ہوجاؤ۔۔۔ یوں وہاں بھی نفرت کا بیچ بونے کی کوشش کی گئی۔ پختونخوا میں پٹھانوں کے نام پر صوبہ دے کر وہاں کے ہزارویوں کو یہ کہا گیا کہ تم محروم قوم ہو۔ اس لیے ان سے لڑو اور اپنا حق لو۔۔ کئی ہزارہ کے نوجوان اس دھوکے میں اپنی جان گنوا بیٹھے۔ساتھ ساتھ کچھ قومی اسمبلی کے ایکٹرز کو بھی اس میں استعمال کیا گیا۔ موٹی رقم دی گئی تاکہ وہ ایکٹرز اپنا رول ادا کرسکیں۔ فوج اور ملک مخالفت کے ہر پلیٹ فورم پر وہ ایکٹرز سرفہرست نظر آتے ہیں۔ وجہ نمایاں ہے کہ ان کے پس پردہ ان کا بیانیہ اور ان کی سوچ کو پختگی ملتی ہے۔

یہ سب ایک منصوبے کے تحت ہورہا ہے۔ بلوچستان کا معاملہ کئی دہائیوں سے چلا رہا ہے۔ انڈیا اس میں ڈائریکٹ ملوث رہا ہے۔ کئی جاسوس گرفتار کیے گئے جو واضح ثبوت ہے۔ پاکستان کے خلاف چلنے والی مہمات میں بھارت تو ہے البتہ ایران اور افغانستان اس میں ملوث ہیں یا نہیں اس پر کچھ کہنا شاید بڑی بات ہوگی مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کے مخالف مہمات کی شروعات ہی ایران اور افغانستان کی سرحدوں سے ہوتی ہے۔ پاکستان کو اپنی زمین دہشت گردوں کے خلاف استعمال نہ کرنے دینے کے راگ الاپتے تھکتے نہیں مگر ہمیشہ سے یہ سب وہ خود کررہے ہیں۔ میدانوں کی ہاری ہوئی جنگ پٹے ہوئے گھوڑے اب میڈیا، سوشل میڈیا اور کھیل کے میدان میں جیتنے آگئے ہیں۔

رسوائی اور ناکامی جن کا مقدر ٹھہرے اسے ہر محاذ پر وہی سب ملتا ہے۔ پاکستان کے خلاف اس وقت ہمسائیوں کا یہ کردار نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ یہ پیغام بھی ہے کہ ہمیں اپنی تیاری کو اسی انداز سے بڑھانا ہوگا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی قیادت اور افواج پاکستان اپنے کسی بھی اندرونی اور بیرونی دشمن سے ناواقف نہیں اور نہ ہی وہ کسی خوش فہمی کا شکار ہیں۔ انہیں مکمل ادراک ہے کہ کون کہاں اور کب کیا کررہا ہے۔

یہاں ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم جو میڈیا، سوشل میڈیا اور کئی دیگر جگہوں سے ملنے والی ادھوری، نامکمل اور غیر مصدقہ باتوں سے تعلیم حاصل کررہے ہیں اس سے بچیں۔ یہ تعلیم ہمارا پہلے بہت نقصان کرچکی ہے۔ آپ کا اپنا وہ ہے جو آپ کے لیے سرحد پر گولی کھانے کے لیے بھی تیار ہے۔ وہ ہرگز نہیں جو آپ کو گولی کے سامنے کھڑا کر کے پیچھے چھپ جائے اور موقع ملنے پر آپ کو قربان کر کے چل دے۔

تھوڑی سی توجہ کیجیے ان حالات کی باریکیوں کو سمجھیے۔ آپ سوچ سکتے ہیں یہ ورلڈ کپ کے اہم ترین میچ میں کھیل کی باتوں کے درمیان اچانک جہاز کا یوں اوپر سے گزارا جانا اور اس پر ایک چھوٹے سے ملک کے چھوٹے علاقے کی بات کرنا۔۔۔۔ حقیقت میں یہ ملک چھوٹا دکھتا ہے مگر ہے نہیں، اس بات کا اندازہ مشرق سے لے کر مغرب سب کو ہے۔ ایک نہیں ہے تو مجھے آپ کو نہیں ہورہا کیوں کہ ہم اس کا اندازہ لگانا ہی نہیں چاہ رہے۔ تو خدارا لگائیے یہ بات غیر معمولی ہے۔ اس کو سنجیدہ لیجیے اور سوچیے کہ یہ سب کیوں کس لیے اور کون کررہا ہے۔ اﷲ سمجھ دے۔ آمین
پاکستان زندہ باد
پاک فوج زندہ باد

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142736 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.