ایم کیو ایم( پاکستان) اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان
وزارت اعظمیٰ کے لئے ووٹ دیئے جانے کے نو نکاتی معاہدے پر تاحال عمل درآمد
نہیں ہوا ہے۔ تاہم مالیاتی بجٹ2019-20کی منظوری کے موقع پر حکومت سے ایم
کیو ایم (پاکستان )کے تحفظات کے اظہار کے بعد معاہدے پر عمل درآمد کے لئے
وزیر اعظم نے جہانگیر ترین کی سربراہی میں کورکمیٹی بنادی ہے۔ وزیر اعظم
عمران خان نے ایم کیو ایم (پاکستان) کے وفد سے ملاقات میں بھی یقین دلایا
کہ ایم کیو ایم( پاکستان )کے ساتھ کئے گئے معاہدے پر من و عن عمل کیا جائے
گا ۔حکومت کو بجٹ کی منظوری کے لئے اپنی اتحادی جماعتوں کی حمایت ناگزیر
تھی ۔ بجٹ کی منظوری کو کامیاب بنانے کے لئے حکومتی جماعت پی ٹی آئی نے
سردار اختر مینگل کے تحفظات دور کرنے کے لئے بھی فوری ایکشن لیا کیونکہ
مولانا فضل الرحمن کی جانب سے بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس میں بی
این پی (مینگل گروپ) کہہ چکے تھے کہ انہوں نے حکومت کو معاہدے کے تحت صرف
ووٹ دیئے ہیں ، حکمراں جماعت کے اتحادی نہیں ہیں۔ اس بیان کے بعد اپوزیشن
توقع کررہی تھی کہ سردار اختر مینگل اے پی سی میں شرکت کرسکتے ہیں۔ لیکن
حکومت نے سبک رفتاری سے بی این پی ( مینگل) کو راضی کیا اور اے پی سی میں
سردار اختر مینگل شریک نہیں ہوئے ۔ جس پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حیرت
کا اظہار بھی سامنے آیا ۔ اسی طرح ایم کیو ایم( پاکستان) نے بھی بجٹ منظوری
سے قبل وزیر اعظم سے معاہدے پر عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کو دوہرایا۔ کراچی
کو وفاق کی جانب سے43ارب روپے کا پیکچ دیا گیا ہے ۔ جو کہ اُن کے اپنے
وعدوں کے مطابق کم ہے ۔ تاہم دلچسپ صورتحال یہ پیدا ہو رہی ہے کہ پارلیمنٹ
میں وزیر اعظم نے اپنی تقریر کے دوران جہاں ایم کیو ایم( پاکستان) و بی این
پی ( مینگل) کا شکریہ ادا کیا اور اتحادی جماعت کو کراچی پیکج کے حوالے سے
دوبارہ یقین دہانی کرائی کہ اسپیشل پیکچ دیا جارہا ہے تو اس وقت یہ ذکر بھی
کیا کہ ’’پی ٹی آئی کو کراچی سے بڑا مینڈیٹ بھی ملا ہے‘‘ ۔ کراچی میں
ترقیاتی کاموں کے حوالے سے کریڈٹ لینے پر دونوں اتحادی جماعتوں کے درمیان
دلچسپ صورتحال پیدا ہوسکتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات سے قبل پی ٹی آئی وفاق
کے دیئے گئے پیکچ کا کریڈٹ لے گی یا ایم کیو ایم( پاکستان) اپنے اُن ناراض
ووٹرز کے پاس اس دعوے کے ساتھ جائے گی کہ انہوں نے کراچی کے لئے حکمراں
جماعت سے اتحاد کرکے پیکج لیا ہے ۔ یہاں پی پی پی حکومت کا موقف بھی سامنے
آرہا ہے کہ کراچی حکومت کو جتنا ریونیو دیتا ہے اس کے مطابق کراچی کو حق
نہیں دیا جارہا ۔
کراچی میں مردم شماری کے حوالے سے حکومت کی جانب سے کوئی واضح موقف سامنے
نہیں آیا ہے ۔مشترکہ مفاداتی کونسل کی سفارشات پر عمل درآمد کا مرحلہ بھی
باقی ہے ۔ واضح رہے کہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی کم ظاہر کئے جانے پر
ایم کیو ایم سمیت بیشتر سیاسی جماعتوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
اڑھائی کروڑ کی آبادی کو ڈیڑھ کروڑ ظاہر کئے جانے پر ایم کیو ایم (پاکستان
)، پی ایس پی سمیت کئی سیاسی جماعتوں نے مردم شماری پر عدم اعتماد کا اظہار
کیا ہے۔ تاہم وفاق کی جانب سے ابھی تک اس حوالے سے عملی اقدامات سامنے نہیں
آئے ہیں ۔ اسی طرح سندھ میں بلدیاتی نظام چونکہ صوبائی حکومت کے دائرہ
اختیار میں آتا ہے اس لئے وفاق میئر کے اختیارات کے حوالے سے بھی براہ راست
مداخلت نہیں کرسکتا ۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت نیا
بلدیاتی نظام لا سکتی ہے لیکن سندھ میں نیا بلدیاتی نظام پی پی پی کا
مینڈیٹ ہے ۔ ایم کیو ایم( پاکستان) کے لئے سب سے اہم مسئلہ’’ کراچی آپریشن
‘‘کاہے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تمام سیاسی جماعتوں کی
مشاورت و منظوری کے بعد کراچی آپریشن شروع کیا گیا تھا جس میں بیشتر سیاسی
جماعتوں میں موجود ایسے جرائم پیشہ عناصر کو گرفتار کیا گیا جنہوں نے سیاسی
چھتری میں پناہ لی ہوئی تھی۔گو کہ کراچی آپریشن میں تقریباََ تمام سیاسی
جماعتوں کے متعددکارکنان گرفتار کئے گئے لیکن اس آپریشن سے سب سے زیادہ
متاثر ہونے والی جماعت ایم کیو ایم (پاکستان )رہی ۔ کراچی آپریشن کی وجہ سے
ایم کیو ایم کا عسکری ونگ تتر بتر ہوگیا اور بڑے پیمانے پر بھاری اسلحہ اور
ٹارگٹ کلرزو بھتہ خوروں کی گرفتاریوں سے کراچی میں امن قائم ہوا۔ایم کیو
ایم (پاکستان) سے جب ان کے بانی مائنس ہوئے تو ایم کیو ایم میں نمایاں دھڑے
بندیا ں ہوئیں ۔ جس کی وجہ سے ایم کیو ایم (پاکستان )کو عام انتخابات میں
کم نشستیں ملیں اور سینیٹ میں اسی وجہ سے ایم کیو ایم (پاکستان) خسارے میں
رہی ۔ تاہم شومئی قسمت پی ٹی آئی کو حکومت سازی کے لئے ایم کیو ایم(
پاکستان )سے معاہدہ کرنا پڑا اور ایم کیو ایم( پاکستان) نے کنگ میکر بن کر
پی ٹی آئی کے وزرات اعلیٰ کا خواب پورا کردیا ۔ لیکن عمران خان کے وزیر
اعظم بننے کے بعد سے حال تک ایم کیو ایم( پاکستان) بار بار پی ٹی آئی سے
معاہدے کے مطابق عمل درآمد کے مطالبے کررہی ہے اور متعدد بار حکومت حمایت
سے دستبرداری کا اشارہ بھی دے چکی تھی۔ لیکن اپوزیشن کی جانب سے کوئی فعال
تحریک نہ ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی نے ایم کیو ایم( پاکستان) کو اہمیت نہیں
دی گئی تاہم بجٹ منظوری اور اے پی سی کے انعقاد نے ایم کیو ایم( پاکستان)
کی اہمیت کو دوبارہ زندہ کردیا ۔ ایم کیو ایم( پاکستان) جہاں کراچی آپریشن
پر نظر ثانی کا مطالبہ کرتی ہے تو کراچی میں تمام عہدوں پر تعیناتیاں’’
میرٹ ‘‘کی بنیاد پر پُر کئے جانے کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے ۔ حیدرآباد میں
عالمی طرز کی یونیورسٹی کے قیام ، سندھ کے شہری علاقوں کے لئے خصوصی پیکج
اور پولیس اصلاحات کے ساتھ’’ غیر سیاسی‘‘ اور ’’میرٹ‘‘ پر تعیناتیاں بھی
ایم کیو ایم( پاکستان) کے مطالبات میں شامل ہیں۔اسی طرح عام انتخابات میں
ایم کیو ایم پاکستان کو جن حلقوں پر تحفظات ہونگے اس کے آڈٹ کا مطالبہ بھی
نو نکاتی معاہدے میں شامل تھا لیکن مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لئے قائم
کی جانے والی پارلیمانی کمیٹی ابھی تک فعال نہیں ہے اور سیاسی جماعتوں کی
جانب سے اس پر مکمل خاموشی ظاہر کررہی ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے’’
دھاندلی‘‘ پر سیاسی جماعتیں سیاست نہیں کرنا چاہتیں۔
پانی کے دیرینہ مسئلے کو حل کروانے میں ایم کیو ایم (پاکستان) اور پی پی پی
بھی ناکام نظر آتی ہے کیونکہ فراہمی آب کے جاری بڑے منصوبے کے لئے فنڈز کا
اجرا کس کو کس طرح کیا جائے گا یہ ایک الگ اہم مرحلہ ہوگا ۔ کیونکہ پی ٹی
آئی سندھ حکومت پر الزام عاید کرتی ہے کہ کراچی کو دیئے جانے والے فنڈ کو
صوبائی حکومت نے درست استعمال نہیں کیا ۔ لیکن صوبائی حکومت وفاق کے الزام
کو مسترد کرتی ہے کہ انہوں نے این ایف سی ایوارڈ میں مختص رقم کم دی ہے۔
اہم صورتحال یہ ہے کہ وزیر اعظم کی قائم کردہ کمیٹی کراچی پیکج کے لئے ایم
کیو ایم( پاکستان) کے ساتھ وعدے کب وفا کرتی ہے اور پی ٹی آئی کے وہ ممبران
جو کراچی سے منتخب ہوئے وہ کراچی میں اپنے حلقوں کے لئے کتنا ترقیاتی پیکج
حاصل کرپاتے ہیں یا پھر ایم کیو ایم (پاکستان) کو دیئے جانے والے پیکج کا
کریڈٹ لینے پر زور صرف کریں گے۔پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم( پاکستان )کے
درمیان نو نکاتی معاہدہ پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا ہے ۔ اگر حکومت جلد
معاہدے پر عمل درآمد نہیں کرتی تو ایم کیو ایم( پاکستان) ان کے لئے مشکلات
پیدا کرسکتی ہے۔کراچی کئی سنگین مسائل کے ساتھ احساس محرومی و پسماندگی کا
شکار ہو رہا ہے ۔ وفاق و صوبائی حکومت کو کراچی کی بحالی کے لئے مل کر کام
کرنے کی ضرورت ہے۔
|