13/14فروری2019ء کومشرقِ وسطی کے بارے میں پولینڈ کے
دارالحکومت وارسا میں ایک سربراہی کانفرنس کرانے کا فیصلہ سیاسی تجزیہ
نگاروں اور سفارتی حلقوں میں ایک توجہ طلب بات بن گئی ہے اوروہ غورکررہے
ہیں کہ آخر مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں مغربی ممالک کے رہنماؤں اور عرب
حکمرانوں کی کانفرنس پولینڈ کے دارالحکومت میں منعقد کیوں کی گئی؟ پولینڈ
وہ ملک ہے جو مشرقِ وسطیٰ کے ان گنت مسائل میں گہری دلچسپی لینے کے حوالے
سے جانا تو نہیں جاتا ہے لیکن پولینڈ نیٹو اس تنظیم کا ایک فعال رکن ہے،
اور اس کے روس کے تسلط کے دنوں کے تجربات اِسے امریکا کے قریب لے گئے ۔اب
پولینڈ میں امریکاکا یورپ میں اینٹی بیلِسٹک میزائل کااڈا ہے۔اس میں کوئی
شک نہیں کہ پولینڈ کے کئی شہری اپنے ملک میں امریکاکے اڈوں کو بخوشی قبول
کرتے ہیں، بعض تو انہیں اپنی سرزمین پر ٹرمپ کا قلعہ کہتے ہیں۔ اس لیے
امریکاکی اس شاندار کانفرنس کی شریک میزبانی کرنا ان کیلئے ایک بامقصد بات
سمجھی گئی۔
تاہم کانفرنس کی ایک بات جوابھی تک معمہ بنی ہوئی ہے کہ یورپ میں امریکاکا
کوئی بھی اتحادی اس کانفرنس کی میزبانی کیلئے بے تاب نہ تھا۔ اس کانفرنس نے
یورپ کے سفارتی حلقوں میں اجتماعی سطح پر ایک یاد دہانی کرائی کہ اچھا یہ
بھی ایک مسئلہ ہے۔ کانفرنس کے انعقادسے پہلے یہاں تک یقین نہیں تھاکہ اس
کانفرنس میں کون کون سے یورپی رہنما شرکت کریں گے اور یہ ممالک اس کانفرنس
میں کس سطح کے وفود بھیجیں گے۔اس کانفرنس کے منعقد کرنے کا خیال امریکا کی
اس تجویز سے پیدا ہوا تھا کہ ایک ایسی بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا
جائے جس کا مقصد ایران پر دباؤ بڑھانا ہو لیکن اس خیال پر فوراًہی نظرِ
ثانی کی گئی کیونکہ امریکاکے یورپی اتحادیوں نے اس خیال پر کوئی خاص دلچسپی
کا اظہار نہیں کیا۔یہ بات فورا ًظاہر ہو گئی کہ ایران کو موضوعِ سخن بنانے
سے صدر ٹرمپ کے امریکاکے یکطرفہ طور پر ایران کے جوہری معاہدے سے الگ
ہوجانے کے بعد اپنے اتحادیوں سے اختلاف پیدا ہوئے وہ دوبارہ سے سامنے
آجائیں گے۔ لہذا اس مذکورہ کانفرنس کو ایک وزارتی سطح کی کانفرنس کہہ کر اس
کا ایجنڈا وسیع کردیا گیا اور نام دیا گیا کہ “مشرقِ وسطی میں امن اور
استحکام کا مستقبل”۔ اب اس کانفرنس کے ایجنڈے پر ایران کا نام غائب
کردیاگیااور اس میں انسانی امداد، مہاجروں کے مسائل، میزائلوں کا پھیلاؤ
اور اکیسویں صدی کے سائبر جرائم اور دہشت گردی جیسے موضوعات ایجنڈے میں
شامل کر دیئے گئے۔
اسرائیلی اور فلسطینی تنازع اس کانفرنس کے ایجنڈے پر موجود ہی نہیں تھا۔
فلسطینیوں نے اس کانفرنس میں شرکت ہی نہیں کی کیونکہ انہوں نے ٹرمپ کی وجہ
سے اس کا بائیکاٹ کر دیا۔ امریکا کی نمائندگی وزیرِخارجہ مائیک پومپیونے کی
لیکن امریکی نائب صدرمائیک پینس اور صدر ٹرمپ کے داماد جیریڈ کشنر (جنہیں
امریکاکی مشرقِ وسطی کی اس پالیسی کا بنانے والا کہا جاتا ہے اسے آخرتک
منکشف نہیں کیا گیا) نے بھی شرکت کی۔ برطانیہ کے وزیرِ خارجہ جیریمی ہنٹ نے
اس کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی ۔ دوسرے مغربی ممالک نے اس سے بھی
نچلے درجے کے افسران اس کانفرنس میں بھیجے۔
اس کانفرنس کی اہمیت اس سے واضح ہوتی ہے کہ آخری وقت تک اسرائیل کے وزیر
اعظم بنیامِن نتن یاہوکی شرکت کا اعلان نہیں ہوالیکن عین وقت پروہ بھی
وارسا کی اس کانفرنس میں شریک ہوئے جبکہ کئی ایک عرب ممالک کی نمائندگی ان
کے وزارا نے کی، ان میں سعودی عرب، یمن، اردن، کویت، بحرین، مراکش، اومان
اور متحدہ عرب امارات ہیں۔ البتہ مصر اور تیونس نائب وزرا کی سطح کے وفود
نے شرکت کی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ 1990ء کی دہائی کی میڈرڈ کانفرنس
کے بعد پہلی کانفرنس تھی جس میں اسرائیل عرب ممالک کے شانہ بشانہ شریک ہوکر
مشرقِ وسطیٰ کی علاقائی سلامتی پربات کررہاتھا۔اس کانفرنس کے مذکورہ شرکاء
میں ایک بنیادی اختلاف یہ تھاکہ امریکا،اسرائیل اورکئی عرب ممالک ایران
کوخطے میں برااثرپیدا کرنے والا ملک سمجھتے ہیں جواپنااثرورسوخ بڑھانے کے
کسی بھی موقع کوضائع نہیں کرتاہے۔یہ وہ دھڑاہے جو 2015 کے ایران کے جوہری
معاہدے کوپسندنہیں کرتے جس کا مقصد ایران کی جوہری سرگرمیوں کوروکناتھا۔اس
موقف پراسرائیل،سعودی عرب کے ہمراہ امریکاکے ساتھ کھڑا ہے۔
اسرائیل اب شام اورلبنان میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر کو چیلنج کر رہاہے۔وہ
خطے میں ایران اوراس کی حامی مسلح قوتوں کے خلاف فوجی کاروائی جاری رکھے
ہوئے ہے۔نیتن یاہو کااستدلال یہ تھا کہ ایران کے جوہری معاہدے کے بارے میں
امریکا اور یورپی ممالک کے درمیان موجودہ اختلافِ رائے کے حوالے سے بات نہ
کی جائے بلکہ اسرائیل کاکہناتھا کہ یورپی اقدار کو خطرہ ہے۔ایران کارویہ،
اس کی دہشتگردی کیلئے حمایت، ایران میں انسانی حقوق کی پامالی، غیر ملکیوں
کی گرفتاریاں،یہ وہ معاملات ہیں جن پریورپی حکومتوں کوغورکرناچاہیےاس میں
کوئی شک نہیں ہے کہ برطانیہ، جرمنی اورفرانس کے وزارئے خارجہ خطے میں ایران
کے رویے اوراس کے میزائلوں کے پھیلا ؤکی پالیسی پر تشویش میں مبتلا ہیں
لیکن ٹرمپ کے یکطرفہ جوہری معاہدے سے علیحدگی کووہ بین الاقوامی معاہدے کی
بے توقیری سمجھتے ہوئے ناپسندیدگی کااظہارکرتے ہیں۔
تاہم یورپی ممالک کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ ایران کی جوہری
سرگرمیوں کو آگے نہ بڑھنے دیں۔ جبکہ امریکا، اسرائیل اور عرب اتحادیوں کے
لیے یہ کافی نہیں ہے۔ اس وقت یورپ بریگزٹ سمیت کئی اور مسائل میں گِھرا ہوا
ہے۔
صدر ٹرمپ کے ساتھ کشیدہ تعلقات اور ان کی پالیسیوں میں مسلسل عدم
ستحکام،پھران کااپنے اتحادیوں سے مشاورت کے بغیر شام سے امریکی فوجوں کے
انخلا ء کا فیصلہ، یہ ایسی باتیں ہیں جنہوں نے امریکااور یورپ کے تعلقات کو
خراب کیا ہے۔ ایران کے جوہری پروگرام پر عالمی معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری،
پھر روس کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کے خاتمے کے معاہدے سے علیحدگی، یہ
وہ اہم معاملات ہیں جو یورپی ممالک میں امریکاپر اعتماد نہ کرنے کے چند
کلیدی نکات بن چکے ہیں۔ لہذا مشرقِ وسطی میں جو بھی مسائل ہوں، وارسا میں
ہونے والی کانفرنس بحرِ اوقیانوس کے ممالک کے درمیان اختلافات کو اور زیادہ
واضح طور پر ظاہرکیاگیا جو بہتر ہونے کے بجائے اب بد سے بد تر ہوتے جا رہے
ہیں۔
ادھربرطانوی حکومت نے اپنے تجارتی معاملات کوامریکی پابندیوں سے بچانے سے
متعلق یورپی ضابطوں کوقومی قانون کا حصہ بنانے کی منظوری دیدی ہے اوراب
برطانوی کمپنیاں ایران سمیت دیگرممالک کے ساتھ اپنے تجارتی لین دین کاسلسلہ
جاری رکھ سکیں گی ۔یورپی یونین کے بلاکنگ اسٹیٹس کوقانون کاحصہ بنانے کابل
دسمبر2018ء کوپارلیمنٹ میں پیش کیا گیاتھاجس کی منظوری ماہ رواں پارلیمنٹ
نے دیدی ہے۔دریں اثناء امریکی سفیربرائے جرمنی رچرڈگرسٹیل نے یورپی یونین
کومتنبہ کیاہے کہ وہ ایران کے خلاف عائد امریکی پابندیوں کے خلاف
بازرہے۔انہوں نے کہاکہ ایران کے ساتھ یورپی تجارت کیلئے یورپی یونین
کامتعارف کردہ نظام امریکی پالیسیوں کی خلاف ورزی کے مترادف ہے جس کے نتائج
یورپی یونین کیلئے نقصان کاباعث بنیں گے ۔دریں اثناء ایرانی سپریم لیڈرآیت
اللہ خامنائی نے کہاہے کہ امریکاسے ہماری مرادامریکی عوام نہیں بلکہ امریکی
حکمران ہیں جوایک شرارتی دشمن کی حیثیت سے اسرائیل اورخطے کی دیگررجعت
پسندحکومتوں کوآمادہ کرتے ہیں۔یمن ایک مثال ہے ،سعودی حکومت جرم کرتی ہے
اورامریکااس جرم میں برابرکاشریک ہے۔
عرب ٹی وی سے بات کرتے ہوئے برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئرنے
کہاتھاکہ انقلاب کے چالیس سال بعدبھی ایران سخت گیرکنٹرول میں ہے،ایران
انتہاء پسندگروپس کے ذریعے اپنااثرونفوذ پھیلانے کی کوشش کررہاہے۔لبنان میں
حزب اللہ اوریمن میں حوثی ملیشیااس کی مثالیں ہیں۔ان کا کہناتھاکہ ایران
مسئلہ فلسطین کے دوریاستی حل کی بھی حمائت نہیں کرتا۔جوہری طاقت کے ساتھ
ایران بہت ہی خطرناک اورتباہ کن ہوگا لیکن جوہری ہتھیاروں کے حصول کے
بغیربھی ایران عدم استحکام پیداکرنے کیلئے اثرونفوذرکھتا ہے۔ادھرایران میں
انقلاب سے قبل کے سابق ولی عہد اور آنجہانی بادشاہ رضاشااہ پہلوی کے
فرزندرضاپہلوی نے ایرانی عوام پرزوردیاہے کہ وہ ایران پر مسلط مذہبی طبقے
کے نظام کوختم کرنے کیلئے سول نافرمانی کی تحریک شروع کریں۔ایک بیان میں
انہوں نے ایرانی مرشداعلیٰ آیت اللہ خامنائی کومجرم اوّل قراردیتے ہوئے اس
کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ چلانے کابھی مطالبہ کیاہے۔انہوں نے
مزیدکہاکہ اب عوام کی گردنوں پرمذہبی طبقے کی حکومت زیادہ دیرنہیں چل سکتی
۔ایرانی عوام کوموجودہ ظالمانہ نظام کے خلاف گھروں سے نکلناہوگا،انہوں نے
یہ بھی کہا کہ ایران پرفوجی حملہ مسئلہ کاحل نہیں ہوگا۔
موجودہ نظام کے حکمراں ہرصورت میں جوہری پھیلاؤ کاسلسلہ جاری رکھیں گے ،اس
لئے عالمی برادری کیلئے ضروری ہے کہ وہ آج ہی سے موجودہ ایرانی حکومت
کاتختہ الٹنے کاکام شروع کردے۔دوسری جانب پولینڈ کے نائب وزیرخارجہ برائے
سیکورٹی وامریکی امورمسٹربارٹوز سیچولی نے کہاہے کہ ایران کونظراندازکرکے
مشرقِ وسطیٰ کاحل ناممکن ہے۔انہوں نے کہاکہ 13اور14فروی کوپولینڈمیں مشرقِ
وسطیٰ کی صورتحال پرمنعقدہ کانفرنس میں موجودہ بحرانوں سے متعلق مختلف آراء
سامنے آئی ہیں جس سے مشرقِ وسطیٰ کے بحرانوں کے حل تک پہنچنے کی کوشش کی
جاسکتی ہے جس سے جاری بحرانوں کے حل کوایسی ترتیب دی جاسکتی ہے جس سے کسی
بھی جنگ سے بچتے ہوئے ان گھمبیرمسائل کاحل تلاش کیا جا سکتا ہے لیکن اس
کیلئے ضروری ہے کہ ایران پراعتمادکرکے اسے بہترین اوراہم کرداراداکرنے
کیلئے کہاجائے لیکن ان معاملات میں امریکی واسرائیلی سازشوں سے باخبررہنے
کی بھی اشدضرورت ہے۔
|