بہت سارے لوگوں کی رائے یہی کہتی ہے کہ پاکستان کی تاریخ
میں بہت کم، بلکہ وطن عزیز کو چند ایک سیاسی رہنما ء ہی ایسا نصیب ہوا جس
نے حقیقی معنی میں عوام کی خوشنودی کو اپنا وژن سمجھا ہو ۔کوئی بھٹو کو
اپنا سیاسی لیڈر سمجھتا ہے تو کوئی میاں محمد نواز شریف کو ،پاکستان جب
بنایا گیا تھا اس کے بعد قائداعظم مسٹرمحمد علی جناح نے قانون ساز اسمبلی
میں خطاب کے دوران ممبران سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا تھا پاکستان بن چکا ہے
اب آپکا ہر اقدام عوام کی بہتری اور انکی خدمت کے لیے ہی ہونا چاہیے ۔یعنی
اس سے واضح ہوا کہ مسٹر جناح جمہوریت کے داعی تھے اور پاکستان میں جمہوریت
ہی چاہتے تھے ،اسی طرح ڈاکٹر ریاض احمد اپنی کتاب ــ ’’مادرملت فاطمہ جناح
اور پاکستان‘‘میں لکھتے ہیں کہ فاطمہ جناح ایک موقع پر فرماتی ہیں کہ انکے
نزدیک آئین کی منسوخی سے بڑھ کر کسی اور جرم کا تصور نہی کیا جا سکتا،ہم اس
آئین کو ترامیم کے ذریعے ٹھیک کریں گے اور اسے پارلیمانی شکل دیں گے۔یعنی
اس سے بھی یہی ثابت ہوا کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام دوسرے کسی سیاسی
نظام سے کہیں بہتر ہے ۔اب اگر کسی تحریک انصاف کے کارکن یا پھر عمران خان
کی آئیڈیالوجی کو فالو کرنے والے تجزیہ کار سے کوئی یہ کہتا ہے کہ نواز
شریف جمہوریت پسند آدمی ہے تو وہ آگے سے جنرل ضیاء الحق کے دور کی کہانیاں
سنانے لگ جاتا ہے جس سے حقیقت شاید وقتی طور پر دب سکتی ہے مگر ابد تک
نہی۔کیونکہ یہ پولیٹیکل پوزیشن ہوتی ہے جو وقت کے لحاظ سے تبدیل ہو سکتی ہے
۔لیکن نظریہ اس سے تھوڑا مختلف ہے اور یہی بات ہے کہ پاکستان میں نظریاتی
سیاسی رہنماء بہت کم جنم لیے ہیں ۔نواز شریف کا نظریہ ہمیشہ سے ایک ہی رہا
کہ ووٹ کو عزت دو ۔اور اپنے اس نظریے سے نواز شریف نے سمجھوتا نہی کیا جسکا
بدلہ نواز شریف کو تین مرتبہ وزارت عظمیٰ سے ہٹا کر لیا گیا۔نواز شریف نے
پولیٹیکل پوزیشن لینے واسطے ضیاء سے ہاتھ ضرور ملایا مگر آج تک عوام کی
منشاء کی بالادستی کی بات کی نا کہ ضیاء کے آمرانہ مائنڈسیٹ کو پروان
چڑھایا۔
اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ کس سیاسی رہنماء کو داد دیتے ہوئے کہنا ہے ’’یہ
ہوتا ہے لیڈر، یہ ہوتا وژن ‘‘ قائداعظم مسٹر محمد علی جناح کوجو جمہوریت
چاہتے تھے،فاطمہ جناح جو پارلیمانی نظام کے لیے ایک آمر سے ٹکر لینے کی ہمت
رکھتی تھیں،بھٹو صاحب جسکو ایک آمر نے جمہوریت پسند ہونے کے جرم میں پھانسی
لگوادی،نواز شریف جو ووٹ کی حرمت کا نعرہ بلند کرنے کے جرم میں قید کی
زندگی گزار رہے ہیں ۔
یا پھر عمران احمد خان نیازی صاحب کو جو ایک نظریاتی سیاسی رہنماء بننے کے
لیے رات کو اپنا نظریہ ٹی وی چینل پر بتا کر سوتے ہیں اور صبح اٹھتے ہی
اپنے اسی نام نہاد نظریے کو غلط کہ کر یوٹرن لیتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اتنا
ہی نہی بلکہ اپنی اس حرکت پر شرمندگی سے بچنے کے لیے کہتے ہیں کہ بڑا لیڈر
وہی ہوتا ہے جسے جہاں لگے کہ وہ غلط ہے وہاں یوٹر ن لے لے ۔لیکن خان صاحب
سے گزارش ہے کہ بڑا لیڈر کبھی بھی اتنے بڑے بڑے فیصلے غلط نہی کرتا کیونکہ
سیاسی لیڈر کے پیچھے اسکی بہت زیادہ فالوونگ ہوتی ہے جس میں کچھ ہر وقت
اپنے لیڈر کو میڈیا پر ڈفینڈ کرنے کی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہوتے ہیں ،لہذٰاخود
کو بڑا لیڈر ثابت کرنے کی لگن میں ہر بات کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے محض یو
ٹرن سے ہر وقت کام نہی چلایا جا سکتا ۔ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے یا اس طرح کہ
لیں کنٹینر پر ہوتے ہوئے عمران خان صاحب کے پاس پاکستان کو قرضوں سے نکانے
کا حل بھی موجود تھا،مہنگائی ختم کرنے کا ممکنہ حل مٹھی میں لیے پھرتے تھے
،کرپشن کے خلاف جہاد کی سوچ رکھتے تھے ،تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کا کہا
کرتے تھے،جو خفیہ ایجنسی ناجائز طور پر کسی فرد کو اٹھائے گی ’’یا میں نہی
یا پھر وہ ایجنسی نہی‘‘ ایسا کہنا بھی عمران خان صاحب کا ہی تھا ،کرپٹ بندے
کو اپنی کابینہ کا حصہ نہی بناؤنگا،جس پر نیب کا کیس ہوگا اسے وزارت نہی
دونگا،پیٹرول اور گیس کے ریٹ نہی بڑھاؤنگا کیونکہ یہ چیزیں عام آدمی
استعمال کرتا ہے ،برطانیہ جیسی جمہوریت کے خواب دکھایا کرتے تھے۔یعنی
پاکستان کے ہر مسئلے کا حل خان صاحب اپنی جیب میں لیے پھرتے تھے اور کہتے
تھے میں اس حل کو اپنی جیب سے تب تک نہی نکالوں گا جب تک مجھے وزیراعظم نہ
بنایا جائے ۔لہذٰا خان صاحب کی وزیراعظم بننے کی حسرت تمام ہوئی ۔اب حکومت
ملنے کے بعد حالت یہ ہے کہ پچھلی کرپٹ حکومتوں نے پاکستان پر اتنا بوجھ آج
تک نہی ڈالا جتنا تحریک انصاف کی حکومت نے دس مہینوں میں ڈال دیا،مہنگائی
کے مارے عوام نے آخری امید سمجھ کر خان صاحب کو ووٹ دیا مگر آج کی مہنگائی
نے ووٹ دینے والے عوام کو جان سے ہی مارنے کی ٹھان لی،کرپشن کے خلاف بولتے
تھے، اب عمران خان صاحب کرپٹ لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر بڑے پیارے انداز میں
بولتے ہیں ۔مزید کرپٹ سیاسی پارٹیز کے لوگ اپنے ساتھ ملانے کے آئے روز دعوے
کرتے ہیں۔تعلیمی نظام کو بہتر تو کیا کرنا تھا عوام میں روٹی کی بھوک ڈال
کر تعلیم حاصل کرنے کی لگن کو ختم کرنا اپنا وژن بنا لیا۔برطانیہ جیسی
جمہوریت کی بات کرتے تھے مگر آج جمہوریت نام سے نفرت اتنی کہ عوام کے الیکٹ
کردہ حضرات پرناجائز کیسز بنوا کر انکے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش میں لگے
ہیں اور عدالت سے نااہل جہانگیر ترین کو بزنس لیول میں بلند ترین سطح پر
دیکھنا چاہتے ہیں ۔کرپٹ بندوں کو کابینہ کا حصہ نہ بنانے والا مذاق بھی قوم
دیکھ رہی ہے۔نیب کے مطلوبہ فرد کو واقعی وزارت نہی دی بلکہ اپنے وزیروں
مشیروں کے دلوں سے نیب کا خوف ہی ختم کردیا۔پھر شاید ایسے سیاسی رہنماء کو
داد دینا تو مشکل ہے مگرسوالیہ نشان کے ساتھ۔
’’یہ ہوتا ہے لیڈر؟یہ ہوتا ہے وژن؟‘‘
|