رانا ثناء اﷲ کی گرفتاری کا حکومتی ٹوپی ڈرامہ․․!!

پاکستانی سیاست ایک بار پھر پرانی روش پر چل نکلی ہے۔قومیں اپنے ماضی سے سیکھتے ہوئے،اپنی کمزوریوں کو دور کرتی ہیں،مگر افسوس ہم من حیث القوم ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کی بجائے انہیں بار بار دھراتے ہیں ۔جس کی وجہ سے آج ہم اس نہج پر ہیں کہ نام مٹنے کا خطرہ کوئی انہونی بات نہیں ہو گی ۔

رانا ثناء اﷲ کو اینٹی نارکاٹکس فورس(اے این ایف )پنجاب نے فیصل آباد سے لاہور جاتے ہوئے موٹر وے پر حراست میں لیا ۔ان پر اپنی گاڑی میں منشیات رکھنے اور سمگل کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔(اے این ایف) کا سربراہ حاضر سروس میجر جنرل ہوتا ہے ۔یہ ایک قومی ادارہ ہے ،مگر اسے سیاسی انتقام کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔پہلے نیب بدنام ہوااور اب ایک اور ادارہ کی ساکھ کو دھچکا لگا ہے ۔رانا ثناء اﷲ دبنگ سیاست دان ہیں ۔دشمن بھی سیاست میں رانا ثناء اﷲ کو وفادار اور جانباز شخصیت کے نام سے پکارتے ہیں ۔لیکن ان پر اتنا گھٹیا الزام لگا کر حکومت نے اپنی نا اہلی پر مہر لگا دی ہے ۔کیونکہ عمران خان نے پاکستانی سیاست میں گالی گلوچ ،جھوٹے الزامات کے کلچرکو متعارف کروایا۔رانا ثناء اﷲ عمران خان کے وار کا بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھنے والے سیاست دان ہیں ۔انہیں ایک بھونڈے طریقے سے انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا۔اسں الزام کو ملک کے تمام طبقات نے یکسر رد کیا ہے۔یہ واقع حکومت کی چھوٹی سوچ کی عکاس ہے۔اگر رانا ثناء اﷲ کو کرپشن یا ماڈل ٹاؤن کے کیس میں پکڑا جاتا تو عوام بات کو ’’ہضم‘‘ بھی کر لیتے۔کیونکہ رانا ثناء اﷲ عمران خان کو ’’ڈوب ٹیسٹ ‘‘کا چیلنج کرتے رہے ہیں،یہی وجہ تھی کہ الیکشن سے پہلے جلوسوں میں عمران خان راناثناء اﷲ کو مونچھوں سے پکڑ کر جیل ڈالنے کی بات کرتے رہے ہیں۔ عمران خان سے ملک تو چل نہیں رہا اور شاید انہیں یقین ہے کہ ان کے پاس اقتدار کا بہت کم عرصہ ہے اس لئے اپنے دل کی تمنائیں اور بھڑاس نکالنے کی جلدی میں ہیں۔

رانا ثناء اﷲ کی گرفتاری کے ٹوپی ڈرامے سے حکومت کی ساکھ بڑھی نہیں بلکہ گر چکی ہے ۔رانا ثناء اﷲ شریف برادران کے بااعتماد ساتھیوں میں سے ہیں ،وہ ہر مشکل وقت میں قائدین اور پارٹی کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے رہے ۔مشرف کے دور میں صعبتیں برداشت کیں۔پھر پنجاب کابینہ میں سینئر وزیر برائے قانون و پارلیمانی امور رہے ۔(اے این ایف) اور وفاقی حکومت کی جانب سے رانا ثناء اﷲ کو منشیات کا سمگر ظاہر کرنے کو کوئی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ۔اگر فرض کر لیں کہ رانا ثناء اﷲ سمگلر ہیں ،مگر کوئی سمگلر خود منشیات نہیں لے جاتابلکہ لے جانے کے لئے پیڈلر ہوتے ہیں ۔ایک بڑے عہدے پر فائز اور حکومت مخالف ہٹ لسٹ پر نام ہونے والے سے خود منشیات سمگل کرنے کی توقع احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے ۔

اینٹی نارکاٹکس فورس کی کارکردگی قابل رشک نہیں رہی ہے ۔ایسے کئی واقعات پہلے بھی ہو چکے ہیں جب لوگوں کو منشیات کی سمگلنگ میں پھنسایا گیا اور وہ عدالتوں سے باعزت بری ہوگئے۔ملک بھر میں منشیات کا انبار لگا ہوا ہے۔لاکھوں خاندان منشیات کی لت سے برباد ہوئے ،لاکھوں لوگ اسی نشے کی وجہ سے جان سے گئے،نئی نسل کی جڑوں میں نشہ زہر کی طرح پھیل چکا ہے ۔ افغانستان سے ہر سال منوں منشیات پاکستان سمگل کی جاتی ہیں ۔(اے این ایف)منشیات کی روک تھام میں ناکام رہی ہے ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ منشیات کی سمگلنگ میں اے این ایف کے بعض اہکار سمگلروں کی معاونت کر رہے ہیں ۔ضلع خیبر کے راستے روزانہ غیر ملکی اشیاء کی سمگلنگ کی آڑ میں منشیات کی سمگلنگ ہو رہی ہے ۔لیکن (اے این ایف) سمگلنگ کی روک تھام کی بجائے سیاسی حریفوں کی گرفتاری میں ملوث ہو رہی ہے۔رانا ثناء اﷲ کیس میں جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے ۔کیونکہ سیاسی انتقام کے لئے اخلاق سے گری ہوئی حرکت کرنا قابل مذمت ہے ۔

ہمارے قائدین کو جی حضوری،خوشامد اور چاپلوسی کرنے والوں نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ عمران خان کا’’ اَپر پورشن‘‘ بلکل خالی ہے ۔وہ کن ہواؤں میں رہتے ہیں ۔تو یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے ۔22کروڑ عوام اور ملک کی باگ ڈور ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے جن کا اَپر پورشن ہی خالی ہو ۔اس کی ذمہ داری سب سے زیادہ حزب اختلاف پر عائد ہوتی ہے جن کے لیڈرمیاں شہباز شریف ہیں ۔

ملک میں عجیب سی صورت حال برپا ہے ۔سیاست دان بتدریج نا پید ہو گئے ہیں اور ان کی جگہ پارٹی قائد کے مدح سراؤں نے لے لی ہے ۔اگر پارٹی قائد کی زبان سے مخالف پارٹی کے سربراہ کے لئے ’’چور اور ڈاکو‘‘جیسے القاب ادا ہو گئے تو پارٹی کے ہر اعلیٰ اور ادنیٰ رہنما کی زبان پر یہ الفاظ چوبیس گھنٹے جاری ہو گئے ۔اسی طرح دوسری پارٹی کے قائد نے اپنے مخالف پارٹی سربراہ کو سلیکٹڈ کہہ دیا تو اس کے حامیوں نے اسے اپنے سیاسی وِرد کا حصہ بنا لیا ۔آج سیاسی کلچر کی جگہ سیاسی پیری مریدی کا دور ہے ۔اس رویہ کا نقصان یہ ہوا کہ ملک میں سیاسی ارتقاء رک گیا ،سیاسی شعور ٹھٹر کر جامد ہو گیا۔نظریاتی سیاست نے آہستہ آہستہ پسپائی اختیار کر لی اور شخصیات نے نظریات کو پچھاڑ دیا۔اس روش کو تبدیل کرنا ہو گا۔ورنہ اس غلط چلن کا عوام نے بھگتان بھگتا ہے ۔

ملک میں سیاسی انتشار کو ہوا دینے والے نام نہاد قائدین نے سوچا ہے کہ اس ملک جس کے وہ محبّ الوطن ہونے کے دعوے دار ہیں ۔اس کی ترقی کا سفر رک چکا ہے ،معاشرہ تنزلی کا شکار ہو چکا ہے ۔ہمارے سے خوشحالی روٹھ چکی ہے ۔پسماندگی ، غربت،جہالت ، بیماری اور بیروزگاری اپنے پنجے گاڑھ چکی ہے ۔قوموں کا ایسا وقت آ جاتا ہے لیکن قائدین اپنی مدبرانہ اور حکیمانہ سوچ اور عملی اقدام سے ملک و قوم کو اس بھنور سے نکال باہر لے جاتے ہیں ۔اس کی بڑی مثال سری لنکا،ملائشیاء اور انڈونیشیا ہیں ۔ان کے حالات ہم سے بھی خراب ہو چکے تھے ،مگر انہوں نے اپنے دکھوں کا علاج کامیابی سے کیا۔پاکستان ایسا کیوں نہیں کر سکتا؟چین اپنی آدھی آبادی کو خطِ افلاس سے نکال کر خوشحال بنانے کی قابل تقلید مثال قائم کر سکتا ہے تو پاکستان بھی کر سکتا ہے ، اگر ملک میں سیاسی انتشار کا خاتمہ اور انتقامی روش کو خیر باد کہہ دیا جائے۔ حقیقی عوامی سیاست پروان چڑھنے دی جائے ۔جعلی اور دو نمبری سے جمہوریت مسلط کرنے کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہونا چاہیے ۔مخصوص نرسریوں میں پال پوس کر قائدین بنا کر عوام پر عذاب کی شکل میں مسلط کرنا بند ہو۔عوام نے بہت سزا بھگت لی ۔با شعور عوام معاشرتی خرابیوں کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ریاست اپنی آئینی ذمہ داری سے آنکھیں بند نہ کرے ۔آئین کے متعلقہ آرٹیکلز پر عمل درآمد کیا جائے ملک کو مسائل سے نجات دالانے کے لئے لوٹا کریسی کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔کیونکہ ماضی میں لوٹوں کو لانے لے جانے میں ملک اور جمہوریت کا نقصان ہوا ہے ۔مستقبل میں بھی اس کے کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوں گے ۔غلطیوں کو دہرایا جائے گا تو ان کے بھیانک نتائج بھی سامنے آئیں گے ۔غلط کو غلط کہا جائے،غلط سمجھا جائے اور غلطیوں کو دہرانا درست نہیں ۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 109590 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.