اردو زبان وادب کئی حوالوں سے دوسری زبانوں کے شعرو ادب
پر فوقیت رکھتی ہے اوراس کی وجہ اس کی زرخیز زمین ہے کہ جس میں جس کا جو جی
چاہے وہ کاشت کر لے۔ آج سے پہلے شاعر شاعری کرتے تھے تو نثر نگار نثرپارے
تخلیق کرتے تھے لیکن یہ سال ادبِ اردو کے لیے سنگ ِ میل بننے جارہا ہے اور
اس کی وجہ ریحان علوی کی”ایک غزل ایک کہانی“ ہے، جسے آنے والے زمانوں میں
غزل اور کہانی کے یکمشت تذکرے میں یاد رکھا جائے گا۔
ٍ
ریحان علوی کی کتاب”ایک غزل ایک کہانی“نظم ونثر کا ایک زبردست مرقع ہے اور
یقینا ایک نیا تجربہ بھی!ریحان نے اس تجربے میں نظم اور نثر کے توازن کو
بڑی خوب صورتی سے نبھایا ہے۔یہ نیا تجربہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ انہوں
نے غزلیا ت کو بھی عنوانات کے تحت لکھا ہے۔بعض مقامات پر جو بات کہانی کی
صورت میں پیش کرتے ہیں وہی عکس ان کے شعری احساس میں بھی دیکھا جا سکتا
ہے۔مثلاً: ”چھوٹا کون؟“ایک مختصر کہانی میں ایسے لوگوں کے رویے پر ضربِ
کاری لگائی ہے جو نصیحت تو کرتے ہیں لیکن خود ایسے کاموں میں صفر ہوتے ہیں
گویا یہ کہانی معاشرے کے دو رخی رویے کی عکاس ہے۔اسی کہانی کی مناسبت سے
نظم ”کس ناز سے اپنے بچوں کے ہم ناز اٹھاتے رہتے ہیں“ بھی دیکھی جاسکتی ہے۔
زمین کا بوجھ ایک اور مختصر کہانی ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کے بارے ہے کہ کس
طرح ہم اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے قدرتی ماحول کو تباہ کررہے ہیں۔اور اسی
کہانی کی مناسبت سے ان کی نظم”حسین دنیا اجڑ گئی تو؟“بہترین تخلیق ہے۔
حسین دنیا اجڑ گئی تو؟“، اگر کہیں یہ بگڑ گئی تو؟
گماں سے آگے نکل گئی تو؟گماں سے آگے گمان کر لو
حسین دنیا اجڑگئی تو، اگرکہیں یہ بگڑ گئی تو، گماں سے آگے نکل گئی تو
نہ تم رہو گے نہ ہم رہیں گے، نہ موسموں کے یہ رنگ رہیں گے
ریحان علوی کی کہانیاں طوالت اور اختصار کا حسین امتزاج ہیں۔وہ قاری کو اس
قدر سہولت فراہم کرتے ہیں کہ ان کی مختصر کہانی ایک چائے کے کپ کے ساتھ ہی
اپنے منطقی انجام تک پہنچ جاتی ہے اور قاری اس سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ
سکتا۔
ان کے اسی شگفتہ اندازِ بیان اور ہلکے ہلکے طنز کی ایک جھلک درج ذیل اقتباس
میں دیکھی جاسکتی ہے۔
”عاشقی کے میدان کا پالہ مار لینے والے کئی قریبی دوستوں اور خیر خواہوں کی
مشاورت کے بعد میرے ”گیٹ اپ“ میں بھی کافی تبدیلی آچکی تھی۔ایک مخلص دوست
نے میرے سر کے بیچوں بیچ نکلی بالوں کی مانگ کو ”تلوار سے نکالی گئی“ مانگ
قرار دیا، تو میری مانگ ترچھی ہو گئی۔دوسرے دیرینہ ساتھی نے میری بادامی
آنکھوں کے کونوں سے نکلتی سرمے کی کٹاری دھاروں پراعتراض کیا تو بچپن کی یہ
سوغات بھی متروک ہوئی۔ایک اور رازداں نے میری باریک مگر لمبی مونچھوں کے
اختتام پر دائیں بائیں آدھے دائرے بناتے گول گول کونوں کو ”درانتی“ سے
تشبیہ دی تو میں ”کلین شیو“ ہو کر”پالش شدہ گڈا“ بن گیا۔کچھ خیر خواہوں نے
اشاروں کنایوں میں بڑے چاؤ سے لنڈے سے خریدے آرام دہ اور ہوا دار تھیلے
نماپتلونوں پر طنز کیا تو میں نے اتارنے چڑھانے کی روح فرسا اور جان لیوا
اذیت کے باوجود اسکینی جینس اور سگریٹ ٹراؤزرس جیسے بے ہودہ اور چست لباس
کو بڑے حوصلے اورہمت کے ساتھ آزمایا۔۔۔“
ان کی کہانیوں میں زمان و مکان دونوں باہوں میں باہیں ڈال کر چلتے ہیں۔وہ
ایک نبض شناس بھی ہیں اور سرجن بھی۔ ان کے قلم کا نشتر گہرا گھاؤ لگا کر
ناسور کو جڑ سے نکالنے کی کو شش کرتا ہوانظر آتا ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے ان کی تحریر میں سید غلام الثقلین کا عکس نظر
آتا تو بعض افسانوں میں غلام عباس، میرزا ادیب اورسعادت حسن منٹوکی ہلکی سی
جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔نیزان کے فکاہیہ اندازمیں تو ہمیں کہیں کہیں مستنصر
حسین تارڑ، مشتاق یوسفی اورعطاالحق قاسمی کاپر تو دیکھائی دیتا ہے۔
ریحان کی شاعری اور خصوصاً لمبی بحر کی نظموں کا ترنم اور ان کی موسیقیت
ہمیں میر تقی میرؔکی یاد دلاتی ہیں کیونکہ مترنم اور طویل بحرکی غزلیں جس
قدر میرؔ کی زبان زدِ خاص وعام ہوئیں شاید کسی اور کی نہ ہوئی ہوں لیکن
ریحان نے یہ خاصہ بھی اپنے حصے میں ڈال لیا ہے۔ ان کی کئی نظموں میں منیر
نیازی کاعکس بھی جھلکتاہے کہ جس طرح منیر شہروں اور ارد گرد کے رہن سہن کی
بات کرتا ہے ریحان بھی اسی ڈگر کا مسافر لگتا ہے۔
درج ذیل اشعار ترنم کی بہترین مثال کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں۔
یہ کیا کہ کچے گھروں میں رہنا ،اور بارشوں کی دعا بھی کرنا دلوں میں نفرت
کے بیج بونا اور ان سے حاصل نفع بھی کرنا
زبان و ورثے پہ ناز کرکے ، اسی سے بچوں کو دورکرنا
اسی کو نشتر زہر کے دے کر، دعائے خیر و شفا بھی کرنا
بصیرتوں پر قفل لگانا ،مناظروں سے ڈرا کے رکھنا
سماعتوں پر بٹھا کے پہرےزمانے بھر میں صدا بھی کرنا
تراشنا اپنے رہبروں کو، پھر اِن بتوں کو خدا بھی کرنا
انہی کے ہاتھوں سے قتل ہونا، انہی پہ جانیں فدا بھی کرنا
گھروں میں اپنوں کے بیچ رہ کر عداوتوں کا ثواب لینا
منافقوں کے شہر میں آ کر محبتوں کا گناہ بھی کرنا
ریحان کی اکثر کہانیاں ملک کی سماجی اور معاشرتی زندگی کی عکاسی کرتی ہیں۔
ان کی کہانیوں کا پسِ منظر پاکستان کے مڈل کلاس اور ان کی گوناگوں زندگیاں
ہیں۔ ان کی کہانیوں میں ”سوگ میں جشن“، ”آئینہ اور چہرے“اور ”گھر کا نہ
گھاٹ کا“ بہت اچھی ہیں۔ان تمام کہانیوں میں انہوں نے عام لوگوں کی خوشیاں،
غم اور زندگی کے ساتھ لگی ہوئی مجبوریوں اور یاسیت کو بڑی خوبی سے اجاگر
کیا ہے۔
|