ہر شخص کی زندگی میں چند لمحات ایسے آتے ہیں جو اسے
جھنجوڑ کے رکھ دیتے ہیں اور اس پہ سکتہ طاری کر دیتے ہیں۔ وہ سوچتا ہے کہ
کاش یہ لمحے اس کی زندگی میں نہ آئے ہوں ۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ چند دن
پہلے ہوا جب ایک بین الاقوامی روز نامے کے پرا نے شما رے کی رو گردانی کرتے
ہوےٌ ایک تصویر پہ نظر پڑی۔ تصویر کیا تھی انسانیت کے منہ پر تمانچہ تھی۔
بنی نوح انسان کا سانحہ تھی ۔ کیئ سال پرا نی اس خبر نے چند لمحوں کے لیے
زمان و مکاں کی تمیز بھلا دی۔ ایسا لگتا تھا کہ وقت تھم گیا ہو۔ یہ دو
جڑواں بچوں عمر اور عمار کندوش کی لاشوں کی تصویر تھی۔ جن کی عمریں صرف
پانچ ماہ تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ چند گھنٹے پہلے عمر اور عمار اپنے گھروں
میں اپنے ما ں با پ اور چار بہن بھائیوں کے ساتھ ناشتے کی میز پر بیٹھے تھے
لیکن ایک روسی طیارے کی بمباری نے انکی بلڈنگ کو تباہ کر دیا اور دوسرے بہت
سے دوسرے افراد کے ساتھ ان بچوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا ان دو ننھے
پھولوں کو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا دیا گیا۔ ان بچوں کی لاشیں شام کی جنگ کا
بھیانک رخ پیش کر رہی ہیں۔ یاد رہے ان بچوں کی موت کوئی پہلا المناک واقعہ
نہیں بلکہ اس سے پہلے ایک اور شامی بچے ایلان کردی کی بے جان لاش کی تصویر
نے دنیا میں تہلکہ مچا دیاتھا۔ اور اسکی موت کی تصویر شائع ہونے کے بعد
یورپ کے کچھ ممالک نے شامی پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحدیں کھول دی تھیں۔
یہ الگ بات کہ بعد میں کچھ واقعات کو بنیاد بنا کر ان ملکوں نے اپنی سرحدیں
بند کر لیں اور شامی پناہ گزینوں کی زندگی کو مزید اجبرن بنا دیا۔شام جو کہ
امریکہ اور روس جیسی سپر پاورکے درمیان جاری جنگی کشمکش میں بربادی کی
داستان بن چکا ہے۔ پچھلے کیئ سال کی جنگ نے شام کو تباہ کر دیا ہے۔ ہر
گزرتا ہوا دن شامی عوام کی زندگی میں مصیبتوں کے نئے پہاڑ لا رہا ہے۔ اس
جنگ نے شام کی آدھی سے زیادہ آبادی کو بے گھر کر دیا ہے اور اس ملک کا تین
چوتھائی حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ لیکن اس جنگ کو جسے ماہرین جنگوں
کا خون آشام سے مجموعہ قرار دے رہے ہیں اس کے تھمنے کے کوئی آثار نہیں۔
بظاہر اس جنگ میں مسلمانوں کے دو فرقے سنی اور شیعہ مد مقابل ہیں لیکن در
حقیقت ان دونوں فرقوں کے پیچھے دوسرے ممالک اپنی خفیہ بلکہ اعلانیہ جنگ لڑ
رہے ہیں۔ایک طرف تو شام کے شیعہ نژاد صدر بشارلاسد تو ایران اور روس کی
حمایت حاصل ہے جبکہ ان کے مخالف شامی اپوزیشن کی پشت پناہی سعودی عرب او ر
ترکی کر رہے ہیں۔ امریکہ بہادرنے بھی اپنا وزن اس پلڑے میں ڈال رکھا ہے۔
یہاں ایک طرف داعش اور النصر جیسی ملشیا خوں ریزی میں مصروف ہیں تو وہیں
کرد علیحدگی پسند بھی بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار نے میں مصروف
ہیں۔ نا صرف اس جنگ نے ہمسایہ ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے بلکہ عالمی
سپر پاور ز بھی خم ٹھونک کر میدان میں آچکی ہیں۔ ستمبر 2015 سے روسی صدر نے
اپنے فوجی سامان شام میں پہنچا دیاہے اور وہ کھل کر شامی صدر کے مخالفوں پر
گولہ باری کر رہے ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس جنگ کی وجہ سے ترکی اور
روس کے باہمی تعلقات خراب ہو چکے۔ بلکہ نومبر 2015 میں ترکی نے روس کا
طیارہ مار گرانے کے بعد آپس کے سفارتی تعلقات بھی انتہائی نچلی سطح پر پہنچ
گئے-
روسی صدر نے نا صرف ترکی پہ پابندیاں لگا دیں بلکہ ترکی کے معافی مانگنے تک
انہوں نے ترکی صدر کے فون سننے سے بھی انکار کر دیا تھا۔
اس جنگ نے عالم اسلام کی ایک ابھرتی ہوئی طاقت ترکی کو بھی ایک نہ سلجھنے
والی گتھی میں الجھا دیا ہے اور اس کی وجہ سے ترکی کے اندر امن، امان کی
صورتحال خراب ہوتی جا رہی ہے اور اسکی معیشت نے ترقی معکوس کا سفر شروع کر
دیا ہے۔ اس جنگ نے پاکستان جیسی مملکت کے لیے بھی مشکلات پیدا کر دیں کہ وہ
کس کا ساتھ دے اور کس کا نہ دے۔ اگر ایران کو راضی رکھیں تو ترکی اور
سعودیہ ناراض ہوجاتے۔ اور ان کی ناراضگی پاکستان افورڈ نہیں کر سکتا تھااور
اگر سعودیہ کا ساتھ دیتا تو ایران کے ساتھ تعلقات خراب ہوجاتے۔ جس کا اثر
ملک کے اندر امن و امان کی صورتحال پہ پڑ تا۔یہاں پاکستان کی اس جنگ میں
عملاّ کسی فریق کا سا تھ نہ دینے کی پالیسی کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی اس
جنگ نے امت مسلمہ کی نام نہاد تنظیم او آئی سی کے کردار کومزید بے نقاب کر
دیا ہے۔ اور مسلمان ممالک کی آپس کی چپقلش کو طشت ازبام کر دیا ہے اور دنیا
کو یہ مزید باور کرا دیا ہے کہ مسلمان ممالک کے حکمران کٹھ پتلی ہیں جن کی
ڈوریاں کہیں اور سے ہلائی جا رہی ہیں۔
سوال یہ نہیں کہ اس جنگ میں جیت کس کی ہوگی اور ہار کس کا مقدر ہوگی۔ اس
جنگ میں کون حق پہ ہے اور کون ناحق، کون ظالم ہے اور کون مظلوم۔ سوال یہ ہے
کہ ایک لاکھ سے زیادہ شہید ہونے والے بے گناہ بچوں اور عورتوں کا خون ناحق
کس کے ذمے آتا ہے۔ وہ بے قصورکس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کریں۔ ایک باپ کی
حیثیت سے یہ سوال میرے ذہن میں آتا ہے کہ ان بے گناہ بچوں کا قصور کیا تھا
کیوں وہ اپنی زندگی کہ بہاریں دیکھنے سے پہلے ہی اس دنیا سے چلے گئے۔ کیوں
ان کے ماں باپ ان کی قلقاریاں دیکھ اور سن نہیں سکتے۔
شاید مسلمان ہونا ہی ان کی سب سے بڑی خطا ہے یا شاید مسلمان ہونے کے ناطے
ہم جیسے بھائیوں کا ہونا ان کا سب سے بڑا قصور ہے۔
کالم کی دم: ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ قارئین کے ذہن میں یہ سوال ضرور
ابھرے گا کہ کالم عمومی طور پہ حالات حاظرہ پہ لکھا جاتا ہے جبکہ اس واقعے
کو رونما ہوئے کیٗ سال گزر چکے ہیں۔ مگراس حقیقت کا کیا کیا جا ئے کہ اس
جنگ کی تبا ہ کاریاں ابھی بھی جاری ہیں وہاں کے عوام ابھی بھی انتھا ئی
نامساعد حالات کا شکا ر ہیں بحیثیت مسلمان بلکہ انسان ان کو درپیش تکالیف
کا اعادہ بھی ضروری ہے
تقدیر کے قاضی کا ہے یہ فتویٰ ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
|