پانی کی قلت ٹینکر مافیا کا راج

سمندر کے کنارےآباد شہر کراچی کے شہری دریا کی موجھوں سے لطف اندوز ہو تے ہیں لیکن یہی آب ِحیات ان کے لئے نایاب ہو چکا ہے جی ہا یہ اس ہی شہر کراچی کی بات ہو رہی ہے جس کی سڑکوں کو کبھی پانی سے دھویا جاتا تھا۔ آج اس کے شہریوں کے لئے پینے کا پانی تک نایاب ہو چکا ہے۔ اشرافیہ شہر کو معاشی حب ہونے کے باعث شہر سے اپنا مفاد تو حاصل کر رہی ہے لیکن بدلے میں شہر کے ساتھ سوتیلو جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ پچھلے دس سال سے قابض حکومت مسائل کو حل کرنے بجائے وسائل کا رونا رو کر مسائل سے منہ چھپاتے دکھائی دیتی ہے۔ حکومت کی نااہلی اس قدرعروج پرہےکہ وہ اس طرف توجہ بھی نہیں دے رہی شہریوں کواب تک یہ ہی پتا نہ چل سکا کہ آخر پانی نہ دینے کا اصل ذمیدارکون ہےکبھی حب ڈیم میں پانی کی کمی وجہ بنتی ہے اور کبھی پانی کی مبینہ غیر منصفانہ تقسیم کابہانا بنایا جاتا ہے ڈیفنس گلشن اور جوہر جیسے علاقوں کا شمار بھی فخر اور اطمینان کی علامت سمجھا جاتا تھا مگر پانی کی شدید قلت نے یہاں کے مکینوں کا سکون غارت کرکے رکھ دیا ہے۔شہر کراچی کو پانی کی فراہمی کے دو اہم زریعے ہیں جو کہ حب ڈیم اور کینجھر جھیل جو کے گھاروں پمپنگ اسٹیشن کے ذریعے شہر کو پانی فراہم کرتی ہے۔لیکن آئے دن گھاروں پمپنگ اسٹیشن پر کسی نہ کسی خرابی کہ باعث شہر یوں کو پانی کی فراہمی معطل رہتی ہےیہ کوئی اہم بات نہیں البتہ یہ بات اہم ضرور ہے کہ شہریوں کے لئے پانی کی فراہمی معطل رہنے کے بعد بھی شہر میں موجود ٹینکر معافیاں کے غیرقانونی ہائڈرینٹس پر پانی کی فراہمی بلاتعطل جاری رہتی ہے یہ صوبائی حکومت کا شہریوں کے ساتھ کئے جانے والے امتیازی سلوک کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جس کے باعث شہریوں میں احساسِ محرومی پیدا ہو رہی ہے۔کراچی کو یومیہ پانی کی ضرورت 110 کروڑ گیلن پانی ہے لیکن فراہم کئے جانے والے پانی کی مقدار 55 کروڑ گیلن سے زیادہ نہیں ہے کراچی واٹر اور سیوریج بورڈ کے مطابق واٹر سپلائی کا بیشتر نظام 40 سال پرانا ہے جگہ جگہ غیرقانونی واٹر ہائیڈرنٹ بنے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے 55 کروڑ گیلن پانی میں سے بھی 23 کروڑ گیلن پانی ضائع یا چوری ہوجاتا ہے اس بات سے ہم انتظامیہ کی نااہلی کا اندازہ بخوبی لگاسکتے ہیں کہ ان کو سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود کوئی کام نہیں کیا جارہا کیوں کہ یہ خود ٹینکر مافیا کے ساتھ مل کر کھاتے ہیں اور یہ پورا نظام اوپر سے لے کر نیچے تک ایسے ہی چل رہا ہے ایک سروے کے مطابق کراچی میں روزانہ 10 ہزار واٹر ٹینکر پانی سپلائی کررہے ہیں اگر ایک واٹر ٹینکر کی قیمت 3000 روپے بھی لگاءی جاءے تو کل رقم بنتی ہے 3 کروڑ روپے ماہانہ 90 کروڑ اور سالانہ 11 ارب روپے کی کمائی صرف اسی کاروبار سے ہوتی ہے مگر پھر بھی آدھے سے زیادہ کراچی پانی سے محروم ہے لوگ آئے دن احتجاج کرتے ہیں روڈ بلاک کردیتے ہیں مگر پھر بھی ان کی کوئی سنوائی نہیں ہوتی واٹر بورڈ کی جانب سے بھی کوئی پرامید جواب نہیں ملتا تو آخری حل واٹر ٹینکر ہی ہے جو بار بار بلانے پر آتا ہے اور اپنے منہ مانگے پیسے لیتا ہے تو ایسے میں شہری کیا کریں کہاں جائیں کس سے مدد مانگیں۔

پانی کے بحران کے باعث شہریوں کی زندگی بری طرح سے متاثر ہے۔بچے اسکول سے قاصر ہیں یہا ںتک کے گھر کے کفیل آفس جانے کے بجائے پانی بھرنے کے لئے قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں کئی کئی گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد چند گیلن پانی نصیب ہوتا ہے اور وہ بھی کسی محلے دار یا قریبی عزیز سے جھگڑے کے عد پانی کامسائل اتنی سنگین نوعیت اختیار کر چکے ہیں کے پانی کا استعمال گھروں میں جھگڑے کا باعث بن رہاہے۔لائن کے پانی کے علاوہ بورنگ کا کھارہ پانی بھی نایا ب ہوتا جارہاہے۔شہر میں ہوتی موسمیاتی تبدیلی اور بارش کی قلت کے باعث زیرِ زمین پانی بھی خشک ہو چکا ہے۔ سینکڑوں فٹ بورنگ کروانے کے باوجود بھی پانی کا نام تک نہیں مل رہا۔ اور اس کے علاوہ بورنگ کے اخراجات بھی اس قدر زیادہ ہے کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد یہ قدم بھی نہیں اٹھا سکتے۔

شہر میں جنم لینے والے اس سنگین بہران پر قابوں پانے کے لئے گزشتہ روز سائیں سرکار کو شہر کے تمام اسٹیک ہولدرز کو ایک چھت تلے جمع کر کے اس مسلئے سے نجاد کے لئے اقدامات کرنے کا خیال آیا تو معلوم ہوا کہ شہر پر راج کرنے والی حکومت کو یہ تک معلوم نہیں کہ شہر کہ کونسے حصے میں پانی کا ہران سنگین ہے۔ ظاہر ہے جن کے پینے کے لئے پانی بھی امپورٹڈدستیاب ہو انہیں عوام کا خیال صرف ووٹ مانگتے وقت ہی آتا ہے۔اگر عوام کے ساتھ حکمرانوں کا یہی امتیازی سلوک جاری رہا اور کراچی میں پانی کے مسائل کو ہنگامی بنیادوں میں حل نہ کیا گیا تو شہر بہت جلد تھرپارکر میں تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔


 

Shahrukh Hussain Siddiqui
About the Author: Shahrukh Hussain Siddiqui Read More Articles by Shahrukh Hussain Siddiqui: 3 Articles with 2363 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.