| 
		  انگریز سرکار نے 1843 میں سندھ پر قبضہ کرکے بمبئی 
		پریزیڈینسی میں شامل کردیا کراچی کی اسٹریٹجک اہمیت کو دیکھتے ہوے اسے جدید 
		شہر بنانے کی بنیاد رکھی جو 1914 تک جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا اناج 
		ایکسپورٹ کرنے والا شہر بن گیا اور پیرس آف ایشیا قرار پایا، تقسیم ہند کے 
		بعد کراچی پاکستان کا دارالحکومت بنایا گیا جسے بعد میں اسلام آباد منتقل 
		کردیا گیا لیکن کراچی کی آبادی اور معاشی ترقی کی رفتار میں کوئی کمی نہ 
		آئی پورے پاکستان سے لوگ روزگار کی خاطر کراچی کا رخ کرتے ہیں منی پاکستان 
		کہلانے والا شہر قائد نہ صرف پاکستان کا سب سے بڑا شہر بلکہ صنعتی تجارتی 
		تعلیمی مواصلاتی و اقتصادی مرکز بھی ہے کراچی کی آبادی کا بڑا حصہ اردو 
		اسپیکنگ پر مشتمل ہے اس کے علاوہ یہ پاکستان میں پشتونوں کا بھی سب سے بڑا 
		شہر ہے گذشتہ 35 سال سے کراچی پر MQM کا راج چلا آرہا ہے لیکن کراچی کی 
		محرومیاں جوں کی توں ہیں اکیسویں صدی میں میں جہاں دنیا تیزی سے ترقی کی 
		راہ پہ گامزن ہے تو وہیں شہر قائد مختلف مسائل کی وجہ سے شدید ترین تنزلی 
		کا شکار ہے اس کے باوجود کراچی پاکستان کا 65 فیصد جبکہ سندھ کا 93 فیصد 
		ریونیو پیدا کرتا ہے اور ستم بالائے ستم آج کراچی کے باسی بوند بوند پانی 
		کو ترس رہے ہیں 2009 کے بعد سے کراچی کو امن و امان کی بدترین صورتحال کا 
		سامنا رہا کہ مجبوراً فوج کو مداخلت کرنا پڑی اور رینجرز نے دن رات ایک 
		کرکے امن و امان کو بحال کیا ابھی اس ڈراونے خواب کو بھولے بھی نہ تھے کہ 
		شہر قائد بدترین انتظامی و آبی بحران کا شکار ہے جبکہ سندھ کی نمائندہ 
		جماعتیں PPP اور MQM ایک دوسرے کو مسائل کا زمہ دار ٹھہرا کر جان چھڑواتی 
		نظر آتی ہیں اور کوئی بھی مسائل کے حل میں سنجیدہ نظر نہیں آتا سندھ حکومت 
		نے تو شروع سے ہی کراچی سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا ہے تو MQM پاکستان کی 
		بھی ساری توانائی اقتدار سے چپکے رہنے تک ہی محدود ہے آج جب بلدیاتی حکومت 
		کا دورانیہ ختم ہونے کو ہے تو اختیارات کا رونا رونے والی MQM پاکستان کو 
		یاد آیا کہ کراچی کے باسیوں کو پانی کی کمی کا سامنا ہے ان سے کوئی پوچھنے 
		والا ہو کہ اگر اختیارات نہیں مل رہے تھے تو استعفیٰ دے دیتے اس کے علاوہ 
		وفاق میں شامل نمائندوں کی مخلصی کا یہ عالم ہے کہ PTI حکومت کو تیسری 
		وزارت لینے پہ تو مجبور کرلیا مگر شہر قائد کی محرومیاں دور کرنے کے لیے 
		سوائے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے کوئی عملی سنجیدگی نہ دکھائی اس سے ایک بات 
		تو ثابت ہوگئی کہ وزارتوں سے چپکے رہنے اور حکومت سے اندر باہر والی بلیک 
		میلنگ کے اصل کردار کراچی میں موجود شہری وڈیرے تھے نہ کہ بانی متحدہ۔ پانی 
		زندگی کے لیے تو اہم ہے ہی ہے مگر معاشی ترقی کے لیے بھی اشد ضروری ہے 
		پاکستان کی شہہ رگ شہر قائد کو یومیہ 640 ملین گیلن پانی کی کمی کا سامنا 
		ہے سندھ سرکار کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ کوئی نیا منصوبہ تو دور انڈر 
		پراسیس کے فور منصوبے کے لیے فقط 80 کروڑ کی رقم مختص کی جس کا مطلب ہنوز 
		دلی دور است کے مصداق منصوبے کی تکمیل کا کوئی امکان نہیں جس سے نہ صرف 
		کراچی کے شہری متاثر برائے متاثر رہینگے بلکہ معاشی نموع پہ بھی منفی اثر 
		پڑیگا، پانی چوری عروج پہ ہے عام آدمی کو بزریعہ واٹر ہائیڈرینٹ تو پانی مل 
		جاتا ہے مگر پراپر طریقے سے پانی لاپتہ ہے واٹر بورڈ عملہ کی اہلیت اور فرض 
		شناسی کی تو کیا ہی بات کریں۔ ماضی میں جو شہر مختلف تحریکوں کا مرکز رہا 
		ہے آج سیاستدانوں کی مشکوک حالت سے اس قدر مایوس ہوچلا ہے کہ فرد واحد بھی 
		نکلنے کو تیار نہیں کیونکہ ایک طرف سندھ حکومت کا سلوک ہے تو دوسری طرف 
		شہری وڈیروں کی طاقت و مفاد کے حصول کے لیے آپسی رسہ کشی یہاں تک کہ فاروق 
		ستار جیسی غیرمتنازعہ شخصیت جس کی شرافت کی گواہی مخالف بھی دیں کو بھی 
		حساب مانگنے پر بزور طاقت باہر اٹھا کر پھینک دیا جماعت اسلامی اور PSP کو 
		سوائے مخالف کو گالی دینے سے فرصت نہیں وفاقی حکومت کے پاس اٹھارہویں ترمیم 
		کے بعد محدود اختیارات کا رونا رو دیتی ہے اور سب جماعتیں مل کر تمام بگاڑ 
		کا زمہ دار بانی متحدہ کو ٹھہرا کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں جبکہ موجودہ آبی و 
		انتظامی مسائل کے اسباب غیرمناسب غیرمنظم شہری پھیلاو چائنہ کٹنگ کچی آبادی 
		قرار دیکر ناجائز آبادیوں کو ریگیولرائز کرنا نااہل افراد کے زیرکنٹرول اہم 
		عہدے ناقص منصوبہ بندی اور کرپشن ہے جس میں سب ہی شامل ہیں سپریم کورٹ نے 
		عرصہ دراز سے قائم مارکیٹیں تو گرادیں مگر ناجائز بستیاں کسی کو نظر نہ 
		آئیں جن کی وجہ سے شہر قائد تباہ حال ہے انگریز نیپئر نے شہر کراچی چھوڑتے 
		وقت کہا تھا '' Would that I could come again to see you in your 
		grandeur'' اگر وہ نہ سہی اس کی اولاد پیرس آف ایشیا کہلوانے والے شہر کو 
		دیکھ لے تو سر میں مٹی ڈال کر ماتم کرے۔ کراچی کا موجودہ آبی و انتظامی 
		بحران کسی دہشتگردی سے کم نہیں ہے اس پہ فوری قابو پانا پاکستان کی ترقی کے 
		لیے انتہائی ضروری ہے حاکمین وقت کو چاہئیے کہ ذمہ داران کا سخت احتساب کرے 
		اور اہل افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بناکر اس کے مسئلے کا فوری حل تلاش کرے 
		تاکہ ایک بار پھر سے کراچی کو پیرس آف ایشیا بنایا جاسکے. 
   |