ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط

آئی ایم ایف نے پاکستان کی سست رفتار معیشت کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے قرض کی پہلی قسط تو جاری کر دی ہے تاہم اس قسط کے اجرا ءکے ساتھ سخت شرائط کی طویل فہرست بھی تھما دی ہے جو بہر صورت عام آدمی کی زندگی کے لیے موت کا پروانہ ہی تصور کیا جا سکتا ہے ۔بجلی ، گیس کے نرخوںمیں اضافہ ، ادارہ جاتی اصلاحات اور ریونیو کولیکشن میں اضافے کی نئی شرائط کی وجہ سے موجودہ حکومت کو سخت اور غیر مقبول فیصلے لینا پڑ رہے ہیں ۔آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق حکومت موجودہ قرض کے دورانیے میں کوئی بھی نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم متعارف نہیں کروائے گی ،ریونیو میں اضافے کے لیے ایف بی آر کو ماہ ستمبر کے اختتام تک 1.071ٹریلین روپے ٹیکسوںکی مد میں اکٹھا کرنا ہوں گے جو حکومت کے لیے انتہائی مشکل مرحلہ ہو گا ۔دریں اثناءاضافی 150ارب روپے کے حصول کے لیے آئندہ ماہ بجلی کی قیمتوں میں 11فیصد تک کا اضافہ متوقع ہے جس کا تمام تر بوجھ عام صارف پر ڈال دیا جائے گا۔گو کہ مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے گزشتہ دنوں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے تاہم 300یونٹ کے صارفین پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا اور اگر ایسا کرنا بھی پڑا تو حکومت اس کا بوجھ برداشت کرے گی ۔شرائط کے مطابق حکو مت کو سہ ماہی بنیادوں پر ٹیر ف ایڈ جسٹمنٹ کو یقینی بنانے کے لیے دسمبر کے آخر تک پارلیمنٹ میں نیپرا ایکٹ منظور کروانا ہو گا اور سرکلر ڈیٹ کے خاتمہ کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے ملکر کام کرنا ہو گا۔رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف ان شرائط کو کارکردگی کی بنا پر خود مانیٹر کرے گا

منگل کے روز گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری نہ ہوئیں تو پروگرام معطل ہوسکتا ہے اورایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرنے کے لئے خصوصی ٹیم کام کررہی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام خطرے میں ہے ، ایف اے ٹی ایف کے مطالبات پورے نہ ہوئے تو آئی ایم ایف پروگرام معطل ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف آئی ایم ایف کی سٹاف سطح کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ موجودہ حکومت نے 550ارب روپے کے ٹیکسوں کے نفاذ کے برعکس 733 ارب 50کروڑ روپے کا تخمینہ لگایاہے جو پارلیمنٹ میں پیش کردہ بجٹ کے اعدادوشمار سے 217ارب روپے زائد ہے ۔ان ٹیکسوں کے نفاذ اور عالمی منڈی میں متوقع تیل کی قیمتوں میں اضافے کے سبب رواں مالی سال میں مہنگائی کی شرح بھی 13فیصد رہنے کا امکان ہے ۔

آئی ایم ایف نے پاکستان کی سست رفتار معیشت کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے قرض کی پہلی قسط تو جاری کر دی ہے تاہم اس قسط کے اجرا ءکے ساتھ سخت شرائط کی طویل فہرست بھی تھما دی ہے جو بہر صورت عام آدمی کی زندگی کے لیے موت کا پروانہ ہی تصور کیا جا سکتا ہے ۔بجلی ، گیس کے نرخوںمیں اضافہ ، ادارہ جاتی اصلاحات اور ریونیو کولیکشن میں اضافے کی نئی شرائط کی وجہ سے موجودہ حکومت کو سخت اور غیر مقبول فیصلے لینا پڑ رہے ہیں ۔آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق حکومت موجودہ قرض کے دورانیے میں کوئی بھی نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم متعارف نہیں کروائے گی ،ریونیو میں اضافے کے لیے ایف بی آر کو ماہ ستمبر کے اختتام تک 1.071ٹریلین روپے ٹیکسوںکی مد میں اکٹھا کرنا ہوں گے جو حکومت کے لیے انتہائی مشکل مرحلہ ہو گا ۔دریں اثناءاضافی 150ارب روپے کے حصول کے لیے آئندہ ماہ بجلی کی قیمتوں میں 11فیصد تک کا اضافہ متوقع ہے جس کا تمام تر بوجھ عام صارف پر ڈال دیا جائے گا۔گو کہ مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے گزشتہ دنوں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے تاہم 300یونٹ کے صارفین پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا اور اگر ایسا کرنا بھی پڑا تو حکومت اس کا بوجھ برداشت کرے گی ۔شرائط کے مطابق حکو مت کو سہ ماہی بنیادوں پر ٹیر ف ایڈ جسٹمنٹ کو یقینی بنانے کے لیے دسمبر کے آخر تک پارلیمنٹ میں نیپرا ایکٹ منظور کروانا ہو گا اور سرکلر ڈیٹ کے خاتمہ کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے ملکر کام کرنا ہو گا۔رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف ان شرائط کو کارکردگی کی بنا پر خود مانیٹر کرے گا ۔ ٹیکسوں کی مد میں آئی ایم ایف اور حکومتی اعدادو شمار میں تضاد پر حکومت کو اپنا موقف واضح کرنا چاہیے کیونکہ وزیراعظم عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں وعدہ کیا تھا کہ وہ عوام کو حقیقت سے باخبر رکھیں گے اور حکومت کے تمام تر پس پردہ و بیش پردہ اقدامات سے عوام کو آگا ہ رکھا جائے گا۔

یہ امر بھی قابلغور ہے کہ طے شدہ معاہدے کے مطابق آئندہ 3سال کے عرصے میں پاکستان کو آئی ایم ایف سے ملنے والی 6 ارب ڈالر کی رقم میں سے 4 ارب 35 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی رقم آئندہ تین سال کے عرصہ (23-2022 )تک واپس کرنا ہوگی جس کے بعد پاکستان کے پاس رہ جانے والی کل رقم محض ایک ارب 65 کروڑ ڈالر ہوگی۔گزشتہ دور حکومت میں لیے گئے 6 ارب 40 کروڑ ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کا آغاز بھی ہوچکا ہے، ایکسٹینڈڈ فنڈز فیسلیٹی(ای ایف ایف) کے تحت آئی ایم ایف کی جانب سے 14-2013 میں ادائیگیوں کا آغاز ہوا تھا جو 2016 میں مکمل ہوگئیں تھی اور اب ان کی واپسی مارچ 2019 سے شروع ہوئی ہے جو جون 2026 تک جاری رہے گی۔

دوسری طر ف آئی ایم ایف نے معاہدے کی کامیابی یا ناکامی کو ایف اے ٹی ایف کی رضا مندی سے بھی مشروط کر رکھا ہے ۔ایف اے ٹی ایف کی سفارشات کے تحت پاکستان کو منی لانڈرنگ اور دہشت گرد ی کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے خاطر خواہ اقدامات کرنا ہوں گے ۔موجودہ حکومت کے لیے ہر آنے والا دن پہلے سے زیادہ سخت چیلنجز لے کر سامنے آرہا ہے اور ان سے نمٹنے کے لیے حکومت کو بھی پہلے سے سخت فیصلے کرناپڑ رہے ہیں۔اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہکسی بھی ملک کو جتنی معاشی مشکلات درپیش ہوںگی ،ان پر مکمل قابو پانے کیلئے حکومت کو اتنے ہی مشکل اور غیر مقبول فیصلےلینا پڑیں گے ۔موجودہ حکومت بھی ان دنوں ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہے ۔ یہ بھی عین حقیقت ہے کہ ملکی معیشت اس وقت بدحالی کے جس بدترین دور سے گزر رہی ہے اس سے نجات کیلئے حکومت اندرونی اور بیرونی تمام دستیاب وسائل بروئے کار لانے کی کوشش کر رہی ہے ۔یہ امر بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے قرض فراہمی سے منسلک تجاویزملکی معیشت کے مستقل علاج کے لیے ناگزیر ہیں اور بیرونی امداد کے حصول کے لیے بھی یہ اصلاحات نہایت ضروری ہیںلیکن دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستان میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے جبکہ متوسط طبقات کے لیے بھی معمولات زندگی روز بروز دشوار ہوتے جا رہے ہیں ۔ایسی صورتحال میں ملکی سیاسی منظر نامہ اور کسی بھی قسم کی بیرونی جارحیت اس ماحول میں مزید تلخی کا سبب بن سکتی ہے تو حکومت کو چاہیے کہ ادارہ جاتی اصلاحات کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج کی روک تھام کے لیے بھی خصوصی اقداما ت عمل میں لائے اور موجودہ غیر مقبول لیکن ضروری فیصلوں کے ثمرات کے حصول اور عام آدمی کو ان کے مضمرات سے بچانے کے لیے وسیع القلب اور وسیع النظر فیصلے کرے ۔اس ضمن میں زرعی ، صنعتی اور تجارتی بنیادوں پر عوام کی اول دوم و سوم کی معاشی درجہ بندی عمل میں لائی جائے ۔ پہلے مرحلے میں کی جانے والی اس درجہ بندی کے بعد کمزور طبقے کو سخت فیصلوں کے مضمرات سے بچاتے ہوئے ریلیف فراہم کیا جائے تاکہ یہ کمزور طبقہ وزیراعظم کی خواہش کے عین مطابق معاشرتی ترقی میں اپنا کردار بااحسن ادا کر سکے اور سخت فیصلو ں کا زیادہ تر بوجھ امیر طبقہ پر ڈالا جائے لیکن ساتھ ہی اس طبقے کے لیے اس بوجھ کو برداشت کرنے کے لیے کاروباری اصلاحات اور آسان و خوشگوار ماحول فراہم کیا جائے۔
 

Sheraz Khokhar
About the Author: Sheraz Khokhar Read More Articles by Sheraz Khokhar: 23 Articles with 14533 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.