جارج اورویل کے شہرہ آفاق ناول انیمل فارم اور
1984 کے درمیان مرکزی موضوع یعنی سیاست کی یکسا نیت کے باوجودنمایاں فرق ہے۔
1984 میں فلسفۂ سیاست اور نادرِ روزگاراصطلاحات کا پہلو غالب ہے جو آگے
چل کر ضرب المثل بن گئے۔ اس ناول میں مکالموں کو کرداروں پر فوقیت حاصل ہے
اور طاقتور بیانیہ کی ضرب قاری کے قلب و ذہن کوجھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔اس
کے برعکس انیمل فارم کے اندر تمثیل نگاری اور قصہ گوئی کا جادو سر چڑھ کر
بولتا ہے ۔ اس کے کردار قاری کو اغواء کرکے ایک ایسے فارم ہاوس میں لے جاتے
ہیں جہاں انسانوں کے بجائے حیوانوں کی حکمرانی ہے۔ انیمل فارم میں رونما
ہونے والے واقعات قاری کو اس طرح جکڑ لیتے ہیں کہ وہ خواہش کے باوجود باہر
قدم رکھنے کی سکت نہیں رکھتا۔ اس ناول میں انسانوں کی منفی و مثبت او صاف
مثلاً عیاری و مکاری یا جفاکشی و فداکاری کو مختلف جانوروں سے اس طرح منسوب
کردیا گیا ہے کہ قاری جب ان مویشیوں اور درندوں کو دیکھتا ہے تو اسے بے
ساختہ ناول کے کردار اور واقعات یاد آجاتے ہیں ۔ جارج اورویل کا کمال یہ
ہے کہ اس نےمختلف انسانوں کے اندر کسی نہ کسی جانورکو اس طرح سرگرم ِ عمل
کردیا ہے کہ اس سے انسانی معاشرہ بھی ایک جیتے جاگتے انیمل فارم میں تبدیل
ہوجاتا ہے۔
ناول انیمل فارم میں جانور انسانوں کے نمائندے مالکِ فارم کے خلاف علمِ
بغاوت بلند کرتے ہیں۔ حیوانوں کی متحدہ زبردست جدوجہد اور قربانیوں کے بعد
آزادی تو حاصل ہوجاتی ہے مگر سوئے اتفاق سے بالا دستی خنزیروں کےحصے میں
آتی ہے ۔اس کے بعد وہی ہوتا ہے جو دنیا بھر کی نوآبادیات میں ہوتا رہا ہے
یعنی غیر ملکی سامراج سے نجات کے بعد نئے آنے والے کالے آقا جانے والے
گورے حکمرانوں کی جگہ لے لیتے ہیں ۔ آئین سازی کا عمل تو انہیں اصولوں کے
مطابق ہوتا ہے کہ جن کی خاطر آزادی حاصل کی گئی تھی لیکن پھر ایک ایک کرکے
دستور کی مختلف شقوں کے ساتھ نہایت دلچسپ کھلواڑ شروع ہوجاتا ہے۔ جارج
اورویل نے جس وقت یہ ناول لکھا مصر وشام اور ہندوپاک کی نوآبادیات میں
حالات بہت اچھے تھے ۔ عوام و خواص ایک حسین مستقبل کا خواب سجا رہے تھے
لیکن نہ جانے کیسے جارج اوریل نے نصف صدی بعد رونما ہونے والے حالات کا
اندازہ لگا لیا اور اس کی ایسی منظر کشی کی ایک ایک پیشن گوئی سچ ثابت
ہوگئی۔ اس وقت انیمل فارم پر اعتبار کرنا مشکل تھا آج اس کاا نکار دشوار
ہوگیاہے۔
انیمل فارم کے متفقہ آئین میں درج پہلے اصول ‘‘کوئی جانور کسی جانور کا
خون نہیں کرےگا’’ میں ایک بے ضرر سے لفظ ‘ بلاجواز’ کا اضافہ ناحق قتل و
غارتگری کا جواز بن جاتا ہے۔ ‘بلاجواز خون نہیں کرے گا’ کی گنجائش کا فائدہ
اٹھا کر حکمراں طاقتورطبقہ اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانے لگتاہے ۔ آج کل
ہر نام نہاد جمہوری ملک کے آئین میں نہ جانے کتنے حیلوں اور بہانوں سے خون
کی ہولی کھیلی جاتی ہے۔ اس ناول کے اندر مساواتِ باہمی کی شق میں کی جانے
والے ترمیم تو ضرب المثل بن چکی ہے ۔ ابتداء میں یہ طے ہوتا ہے کہ’’تمام
جانور برابرہیں ‘‘ مگر پھر یہ اضافہ کیا جاتا ہے کہ ‘‘تمام حیوان برابر تو
ہیں لیکن ان میں سے چند دیگر حیوانوں کے مقابلے میں زیادہ برابر ہیں’’۔‘‘
زیادہ برابر’’ یعنی ‘‘more equal ’’ نے جارج اوریل کو ادب کی دنیا ابدیت
عطا کردی ۔ اس اصطلاح کے اندر پایا جانے والا ظریفانہ تضاد اپنی مثال آپ
ہے ۔ آنے والے زمانوں میں ہر عدم مساوات کی حمایت میں اور خلاف اس اصطلاح
کا بے دریغ استعمال کیا گیا ۔
انیمل فارم کے اندرآزادی کے فوراً بعد شراب نوشی پر پابندی لگائی گئی تھی۔
اس طرح کا تجربہ گاندھی جی کی اصول پسندی کے سبب ہندوستان کے اندر بھی ہوا
اور ابھی تک مختلف صوبوں میں شراب بندی کے نافذ ہونے اور اٹھنے کا تماشہ
جاری و ساری ہے۔ انیمل فارم میں اس پابندی کو پوری طرح سے اٹھایا تو نہیں
جاتا مگر آئین کے اندر ترمیم کرکے ’ضرورت سے زیادہ‘ کی شرط لگا کر اسے
عملاً ختم کردیا جاتاہے۔ وہاں پر تمام جانوروں نے مل جل کر یہ طے کیا تھا
کہ وہ کھلے آسمان کے نیچے رہیں گے اور انیمل فارم میں کوئی رہائش گاہ
تعمیر نہیں ہو گی مگر حکمراں خنزیروں کے گھروں کی تعمیر کے لیے یہ بہانہ
بنایا گیا کہ اہم فیصلے کرنے کے لئے ان کا گھروں میں رہنا اور اچھی طرح
سونا ضروری ہے ۔ بستر پر نہیں سونے کی پابندی کو ختم کرنے کے لیے اس کو
‘چادر بچھا کر نہیں سونے ’ سے مشروط کر کے نرم بستر وں کو جائز قرار دے دیا
گیا ۔ بظاہر وہاں کچھ بھی نہیں بدلا لیکن اندر ہی اندر سب کچھ بدل گیا۔
جارج اورویل کے انیمل فارم میں اگنے والے اناج اور پھلوں پر سب کا مساوی حق
تسلیم کیا گیا تھا اور اس کی تجارت ممنوع تھی۔ وقت کے ساتھ دودھ اورسیب
جیسی مقوی خوراک کی مساوی تقسیم سے مستثنیٰ کرکے اشرافیہ کے لیے مختص کیا
گیا ۔ اس امتیازی سلوک پر صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کو یہ کہہ کر مطمئن
کرنے کی کوشش کی گئی کہ خارجی دشمنوں سے تحفظ کے لیے یہ ضروری ہے گویا اس
تفریق و امتیاز کو انیمل فارم کے عظیم تر مفاد کے حصول کی خاطر جائز بلکہ
پسندیدہ قرار دیا گیا ۔ قومی سلامتی اور ملکی مفاد کے نام پر آج کل یہی سب
کیا جاتا ہے ۔ جہاں تک تجارت پر پابندی کا معاملہ تھا موقع ملتے ہی حکمراں
خنزیروں نے سب سے پہلے اسے پامال کیا اور ممنوع شدہ تجارت شروع کردی ۔ یہ
اقدام چونکہ انیمل فارم کے بنیادی اصول و ضوابط سے متصادم تھا اس لیے
احتجاج و مظاہرہ ہوا۔ اپنے تجارتی و معاشی مفادات پر اعتراض کرنے والوں پر
خنزیروں نے ’’انیمل فارم ‘‘ سے غداری کی تہمت باند ھ دی اور اختلاف کرنے
والوں پر خونخوار کتے چھوڑ دیئے ۔ کیا آج کل اسی طرح حق پسندوں کی آواز
کو نہیں کچلا جاتا ؟
آزادی کے بعد بھی انیمل فارم کے اندر گھوڑے اور گدھے کسانوں اور مزدوروں
کی طرح پہلے کی طرح بلا چوں چرا دن رات کام کاج میں لگے رہے۔ وہاں پر بھی
انسانی سماج کے متوسط طبقات کی مانند بکریاں اور بھیڑیں ڈری سہمی رہتیں اور
جاہل و چالاک بھیڑیوں کا بالادست طبقہ انہیں اپنے مذموم مقاصد کی باریابی
کے لئے استعمال کرتا ۔ اشرافیہ جب بھی کسی مشکل میں پھنستے بے ضرر بھیڑیں
احتجاج کرنے کے لئے نکل آتیں اور بھکتوں کی طرح یہ نعرہ لگانے لگتیں
‘‘چارٹانگوں والے دوست ،دو ٹانگوں والے دشمن’’۔ اس طرح ایک خیالی دشمن یعنی
حضرتِ انسان سے خوفزدہ کرکے حکمراں اپنے کرتوت کی پردہ پوشی کرتے۔ کیا ہر
انتخاب کے وقت یہ تماشا نہیں دوہرایا جاتا؟ اس ناول کا ایک نہایت دلچسپ موڑ
وہ ہے جہاں حکمراں خنزیر دوٹانگوں پر چلنے لگتے ہیں۔ اس نئی صورتحال میں
بھیڑوں کا نعرہ ازخود بدل جاتا ہے ۔ اب وہ کہنے لگتے ہیں ‘چار ٹانگیں اچھی
دوٹانگیں بہتر’ ۔ افسوس کے وطن عزیز کے اندر ذرائع ابلاغ نے بھی نرم گرم
چارے کے عوض بھیڑوں کی کھال اوڑھ لی ہے اور انہیں کی زبان بول رہے ہیں ۔
انیمل فارم کے خنزیر اس عارضی حل پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اپنے محکوم
مویشیوں کو مستقل خوف اور دہشت میں مبتلا رکھنے کے لیے باغی اور جلاوطن
جانور ’’سنو بال‘‘سے متعلق یہ افواہ اڑا دیتے ہیں کہ وہ دشمن یعنی انسانوں
سے ملا ہوا ہے ۔انیمل فارم پر آنے والی ساری آفات و ابتلا کے لیے وہی ذمہ
دار ہے۔ اس ناول کو پڑھتے ہوئے جب اپنے حالات پر نظر پڑتی ہے توایسا محسوس
ہوتا ہے کہ ہم سب انسانی سماج میں نہیں بلکہ جارج اوریل کے انیمل فارم میں
جی رہے ہیں جس پر خنزیر کی حکمرانی ہے۔ اسی کے ساتھ ایسا بھی لگتا ہے
موجودہ جمہوری رہنماوں نے انیمل فارم کو اپنے سینے سے لگا رکھا ہے ۔ وہ اس
میں درج ایک ایک تمثیل کو حقیقت میں بدل رہے ہیں۔ انہوں نے خنزیروں کو اپنے
لیے نمونہ اور مثال بنالیا ہے ۔ ان کے استعمال شدہ ہر حربہ کی پیروی کرکے
اپنے اقتدار کو نہ صرف محفوظ کررہے ہیں بلکہ اس سے محظوظ بھی ہورہے ہیں ۔
یہ کوشش مسلسل ارتقاء پذیر ہے۔ اندرا جی نے ایمرجنسی کا اعلان کرکے جو غلطی
کی تھی اس سے احتراز کرتے ہوئے مودی جی نے اسے بلااعلان نافذ کردیا ہے۔
زمانہ آگے بڑھ چکا ہےانیمل فارم کے خالق جارج اورویل نے عصر حاضر کا
امریکہ نہیں دیکھا ورنہ اسے پتہ چلتا کہ جمہوریت کے طفیل بکرا بھی انتخاب
لڑ کر کامیاب ہوسکتا ہے۔ نظام جمہوریت کی داغ بیل ڈالنے والے دانشوروں نے
بھی اس نظام کے ان فیوض و برکات کا تصور نہیں کیا ہوگا۔ وہ سانحہ اگر
افریقہ کے کسی پسماندہ ملک میں پیش آتا تو کہہ دیا جاتا کہ ان بیچاروں نے
اس نعمت عظمیٰ کو سمجھا ہی نہیں لیکن یہ توجمہوریت کے سرخیل امریکہ میں
رونما ہوگیا جو ساری دنیا کو جمہوری شراب پلانے پر مُصر ہے۔ریاستہائے متحدہ
امریکہ میں صوبہ ورمونٹ کے فیئر ہیون قصبے میں میئر کا عہدہ نہیں ہے البتہ
قصبے کے منیجر جوزف گنٹرز ان فرائض کو انجام دیتے ہیں۔ چند ماہ قبل ایک دن
گنٹر نے اخبار میں پڑھا کہ مشیگن کے اومینا نامی گاؤں نے سویٹ ٹارٹ نامی
بلی کو انتخاب کے بعدمیئر کے اعلی ترین عہدے پر فائز کردیا ۔ اسی لمحہ ان
کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے قصبے میں کھیل کے میدان کی تعمیر کے
لئے اس طرح چندہ جمع کیا جائے؟ بس پھر کیا تھا گنٹرز نے الیکشن کا اعلان
کرکے ووٹ ڈالنے کے لیے فی کس ۵ڈالر فیس مقرر کر دی ۔
کسی حیوان کے میئر کی حیثیت سے منتخب کیے جانے اس اچھوتے اعلان کا فیئر
ہیون قصبے کے باشندوں نے گرمجوشی سے استقبال کیا ۔ ڈھائی ہزار پر مشتمل
آبادی نے بلیوں ، کتوں اور بکروں کو میدان میں اتارکر اپناجوش و خروش
دکھایا۔ مویشیوں کے انتخاب میں جملہ ۱۵ امیدوار تھےجن میں سےتین سالہ بکرے
لنکن نے ۱۵ ووٹ حاصل کرکے سیمی نامی کتے کو ہرا دیا۔ بکرا چونکہ ریاضی کے
استاد کا تھا اس لیے اس کا حساب کتاب بالکل درست نکلا ۔ اب یہ بکرا میموریل
ڈے پریڈ کی قیادت کرے گا ۔ انسانی انتخابات سے قطع نظر جہاں لاکھوں کروڈوں
ڈالر ضائع ہوتے ہیں اس مشق کے نتیجے میں ۱۰۰ ڈالر جمع ہوگئے۔ گنٹرزاس
معمولی رقم سے چنداں مایوس نہیں ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ جانوروں کا انتخابات
کروانا ایک اچھا خیال تھا کیونکہ اس سےمقامی بچوں کو حکومت کے امور میں حصہ
لینے کا موقع ملا ہے۔وہ آئندہ سال بہتری کی امید رکھتے ہیں جبکہ انسانی
انتخابات ہر سال بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ ان میں عوام کی دلچسپی کم سے
کم تر ہوتی جارہی کیونکہ ایک سے بڑھ کر ایک درندہ صفت رہنما اس میں پنجہ
آزمائی کرتا ہے۔ اس موقع پر یہ اعتراف بھی کرنا پڑے گا کہ جہاں ایک طرف
انسانی جمہوریت تخریب کاری کے سوا کچھ عطا نہیں کرتی وہیں حیوانی جمہوریت
نے کم ازکم ایک تعمیری کام تو کیا ۔ ویسے عقل و خرد کے معاملے میں اگر اس
بکرے کا امریکی صدر سے موازنہ کیا جائے توبعید نہیں کہ اول الذکر لائق و
فائق نکلے ۔
حالات حاضرہ کے تناظر میں جارج اوریل کی تصنیف میں یہ کمی محسوس ہوتی ہے کہ
اس نے گائے کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ جارج کی پیدائش
ہندوستان میں ہوئی لیکن اس وقت کا بھارت اس قدر وحشی نہیں تھا ۔ اس زمانے
میں کوئی خونخوار ہجوم کسی نہتے بے قصور کو زدوکوب کرکے اس سے جے شری رام
کے نعرے نہیں لگواتا تھا ۔ جارج اورویل کا اگر آج کل کے حالات سے سابقہ
پیش آتا تو انیمل فارم کے اندر گائے یقیناً ایک اہم کردار ادا کرتی اور
ناول کی رنگا رنگی و دلچسپی میں غیر معمولی اضافہ کا سبب بنتی ۔ جانوروں کے
حقوق کی خاطر سرگرداں مینکا گاندھی کی بدولت ہندوستانی جمہوریت کو جانوروں
سے پاک کردیا گیا ہے ۔ انتخابی نشان کے طور پر بھی جانوروں کا استعمال
ممنوع ہوگیاہے اس لیے کہ کہیں جانوراپنی تصویر کا استعمال کرنے والے
سیاستدانوں کے مکروہ کردار سے واقف ہوکر عدالت میں ہتک عزت کا دعویٰ نہ
ٹھونک دیں ۔ ہندوستان کی گایوں کو اگر پتہ چلے کہ دودھ نہ دینے پر انہیں
گھر بدر کرنے والے اس کو ماں کہتے ہیں تو ایسی اولاد کو عاق کردے ۔ مینکا
گاندھی وغیرہ کو انسانوں سے زیادہ جانوروں کے حقوق کا خیال ہے۔ یہی وجہ ہے
کہ انہوں نے آج تک کسی ہجومی تشدد کی مذمت نہیں کی۔وطن عزیز کے اندر
زعفرانی دانشوروں کا عجیب معاملہ ہے کہ وہ انسانوں کا قتل عام سے مغموم
نہیں ہوتے لیکن جانوروں کی ایذا رسانی پر تڑپ اٹھتے ہیں ۔
امریکہ میں تو خیر بکرا انتخاب جیت گیا مگر ہندوستان میں یہ مشکل ہے۔ بکرے
کونہ جانے کیوں مسلمان اور گائے کو ہندو سمجھا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ
ہندو احیاء پرست بکرے کو ذبح کرنے پر اعتراض نہیں کرتے مگر گائے تو دور بیل
کے نام پر بھی ہنگامہ کھڑا کردیتے ہیں ۔ امریکہ کی طرح اگر ہندوستان کے کسی
گاوں میں گائے انتخاب میں کھڑی ہو جائے تو بعید نہیں کہ اسے ووٹ دینے سے
انکار کرنے والوں کوگری راج سنگھ جیسے لوگ غدار وطن قرار دے کر ملک بدر
کردیں لیکن اگرگائے کو معلوم ہو جائے کہ اس کے نام پر نفرت پھیلاکربے قصور
لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے ۔انتخابات میں نفرت کی آگ پر سیاسی
روٹیاں سینکی جاتی ہیں تو وہ بھارت ورش سے ہجرت کرکے کسی جنگل کی طرف روانہ
ہوجائے ۔آئندہ نسل کے اندر سیاسی شعور بیدار کرنے کی غرض سے جارج اورویل
کی اس عظیم تخلیق انیمل فارم کواسکول کے نصاب میں داخل کرکے پڑھایا جانا
چاہیے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ ایک فارم ہاوس کے جانور آزادی کی خاطراپنے
دوٹانگوں والے مالک کے خلاف یہ نعرہ بلند کر کے بغاوت کردیتے ہیں کہ ‘ چار
ٹانگوں والے دوست اور دوٹانگوں والے دشمن’ اور ایک انسانی معاشرے میں لوگ
یہ نعرہ لگاکر رام راجیہ قائم کررہے ہیں کہ ‘‘دو ٹانگوں والاحکمراں دیوتا
ہے اور چار ٹانگوں والی گائے ماتا ہے’۔ ایسا احمقانہ نعرہ لگانے کی جرأت
تو انیمل فارم کے حیوان بھی نہیں کرتے ۔ انیمل فارم کا قاری اس ناول کے
اختتام کو کبھی نہیں بھول سکتا جس میں انسان اور خنزیر ایک میز کے اطراف
بیٹھ کر آپس میں گفت و شنید کررہے ہیں اور کھڑکی سے جھانکنے والے حیران و
ششدر جانوروں کے لیے ان میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ آج دنیا کے بیشتر
ممالک میں بعینہ وہی صورتحال ہے۔
|