جون 1958 کو صدر ایوب خان نے ملک میں پہلا مارشل لا لگا
کر زمام اقتدار سنبھالا اور اپنی حکومت کو بنیادی جمہوریتوں کے نظام کے تحت
اپنی سیاسی حیثیت کو مزید مستحکم کرتے ہوئے کم وبیش گیارہ سال اس ملک کے
سیاہ و سفید کے مالک رہے۔یونہی انہوں نے اقتدار سنبھالا تو سب سے پہلے
سابقہ حکومتوں کا ملک کو سیاسی و معاشی لحاظ سے عدم استحکام کا شکار کرنے
کا واویلا مچایا اور ساتھ ہی ساتھ عوام سے اپیل کی کہ آپ اس ملک کی بقا اور
سلامتی کے لئے قربانی دیں کیونکہ عوام کے تعاون کے بغیر ملکی معاشی استحکام
ممکن نہیں ہو سکتا،دوسرا بڑا نقصان دور مارشل لا کا یہ ہوا کہ 1960 میں
پڑوسی ملک بھارت سے دریاؤں کے پانی کی حق ملکیت پر سندھ طاس معاہدہ کر کے
پاکستان کو تین مشرقی دریاؤں کے پانی سے محروم کر دیا گیا کہ ان دریاؤں کے
پانی کی کمی کو تین مغربی دریاؤں کے آبی تعاون سے پورا کیا جائے گا اور اس
معاہدہ سے حاصل کردہ امداد کو تربیلا اور منگلا ڈیم کی تعمیر میں استعمال
کیا گیا جو ایک لحاظ سے بہتر بھی تھا کہ پاکستان بجلی کی پیداوار میں خود
کٖفیل ہو گیا تاہم پانی کہ کمی آئندہ چند سالوں میں ہمیں اس معاہدہ کے منفی
ثمرات کے طور پر ہمارا منہ چڑا رہے ہونگے۔عوام نے قربانی دی ۔ملک میں ایک
اور مارشل لا لگا کر ملک میں پہلے عوامی الیکشن کروا دئے گئے جس کے نتیجے
میں ملک پاکستان کا ایک حصہ یعنی مشرقی پاکستان ایک نئے ملک بنگلہ دیش کے
نام سے دنیا کے نقشہ پر ابھر کے سامنے آیا،بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمٰن
نے اپنی حکومت قائم کر لی جبکہ مغربی پاکستان جو کہ اب پاکستان ہے اس خطہ
میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنا اقتدار سنبھالا۔اب ایک بار پھر خزانہ خالی
اور عوام کے قربانی دینے کا وقت آگیا تھا ایسا ہی ہوا وہ بھٹو جس نے روٹی
کپڑا اور مکان کے انتخابی نعرہ اور وعدہ سے الیکشن جیتا تھا عوام کی فلاح و
بہبود کے بہانے سے ملکیتی کارخانوں کو قومیا لیا گیا اور بڑے زمینداروں سے
500اور ایک ہزار زمینی قطعات کے علاوہ سب کو حکومت کی تحویل میں لے لیا گیا
تاہم اس سلسلہ میں ایمانداری کا مظاہرہ نہ کیا گیا۔ذوالفقار علی بھٹو کی
حکومت پر کرپشن اورمعاشی و سیاسی عدم استحکام جیسے الزامات لگا کراس کی
حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا اور ملک میں ایک بار پھر سے فوجی حکومت نے ملکی
باگ ڈور کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔اگرچہ اس گیارہ سالہ دور حکومت میں ملک
میں پیسہ کی ریل پیل تو نظر آئی تاہم عوامی فلاح و بہبود کے لئے کوئی خاطر
خواہ اور قابل دید کام کوئی نہیں تھا۔ضیا الحق ایک فضائی حادثہ کا شکار
ہوئے تو حکومت بے نظیر بھٹو نے سنبھالی اگرچہ وہاں سے جمہوری حکومتوں کے
تسلسل کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تاہم ان جمہوری حکومتوں کے ادوار میں دو چیزوں
نے ملک کا منہ مکمل طور پر دیکھ لیا جو کہ اب تک پاکستان کی جان نہیں چھوڑ
رہی ہیں ایک مہنگائی اور دوسرا آئی ایم ایف۔بس پھر کیا جو بھی حکومت آئی اس
نے قرض پر قرض لیا اور آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لئے اشیائے
خوردونوش سے لے کر برقی میدان تک ہر چیز میں مہنگائی کو ہی فروغ دیا۔جس کا
خمیازہ عوام کو اس طرح سے بھگتنا پڑ رہا ہے کہ جو بھی نئی حکومت آتی ہے وہ
سابقہ حکومت کے خزانہ خالی چھوڑنے اور قرض کا ہی رونا روتی ہے اور اسی
بنیاد پر وہ آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے کو عوام کی بہتری کا ضامن قرار
دیتی ہے،سات دہائیوں سے زائد عرصہ ہو گیا عوام کو ہر حکومت نے متذکر دو
باتوں کو بنیاد پر مہنگائی کی چکی میں پیسنے اور عوام کو قربانی دینے کے
لئے ایموشنل بلیک میل کرنے کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔
عوام کے ساتھ حکومتوں کا رویہ اور ظالمانہ سلوک دیکھتے ہوئے مجھے ایک بات
یاد آگئی کہ ایک طاقتور پہلوان کی کشتی ایک قدرے کمزور سے ہونا قرار پاتی
ہے۔ظاہر ہے کمزور پہلوان کو ہی مات ہونا تھی یونہی طاقتور پہلوان مخالف کو
زمین پر دے مارتا تو کمزور پہلوان اٹھتا اور پھر سے اسے چیلنج کر دیتا کہ
اب کی بار گرا کے دکھاؤ اور طاقت ور پھر سے اسے زمین پر دے مارتا۔کچھ ایسا
ہی حال ہماری عوام کا ہے بھی ہے کہ جب بھی نئی حکومت آتی ہے عوام سے قربانی
کی التجا کر کے انہیں بے وقوف بنا لیتی ہے اور عقل سے خالی قوم ہر بار ہی
ان سیاستدانوں کے جذباتی نعروں میں آجاتے ہیں اور ہر کوئی اپنی اپنی بساط
کے مطابق ملکی امداد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے،وہ عوام جو ایوب دورسے قبل
ٹائی سوٹ میں ملبوس تھی قربانیاں دے دے کر اس حالت کو پہنچ چکی ہے کہ ان کے
پاس ایک انڈروئیر ہی رہ گیا ہے اور اسے بھی بڑی مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں
کہ مبادا حکومت قربانی مانگ کر عوام کو بیچ چوراہے ننگا ہی نہ کردے۔حالیہ
حکومت کے ٹیکس در ٹیکس اور مہنگائی در مہنگائی بھی عوام سے قربانی مانگنے
کی ہی ایک قسم ہے ،یعنی اب قربانی عوام کی صوابدید پر نہیں بلکہ قربانی
بالجبر لی جائے گی۔خدا محفوظ رکھے ہم عوام کو۔
|