آج کی عورت کے لیئے اپنا گھر بار زیادہ ضروری ہے یا اپنا
کیرئیر؟؟؟۔ یہ ایک ایسا سوال تھا جس نے مجھے چکر ا کر رکھ دیا۔ دور جدید کی
عورت اپنے آپ کے مرد ہی سمجھتی ہے۔ وہ بھی چاہتی ہے کہ جس طرح مرد اپنا
کیرئیر بنا سکتا ہے وہ کیوں نہیں بنا سکتی۔جب اس کے اندر موجود یہی جذبہ
جنون کی حد تک چلا جاتا ہے تو پھر وہ کسی کو بھی اہمیت نہیں دیتی۔اس کیر
ئیر کے آڑھے اس کے والدین آتے ہیں یا بہن بھائی آتے ہیں۔اس کے رشتہ دار یا
اس کا اپنا شوہر یا بچے ۔ وہ سب کو قربان کرنے کو تیار ہوجاتی ہے۔ ان میں
سے اکثر تو اپنے اس کیرئیر کو کبھی بھی نہیں پا سکتیں۔ اور بعد میں ان کو
ان کے اپنے رشتے بھی قبول نہیں کرتے۔ نہ خد ا ہی ملا نہ وصال صنم۔اگر ان کو
ان کا کیر ئیر مل بھی جاتا ہے اور وہ اپنے تمام خواب شرمندۂ تعبیر کر لیتی
ہیں تو بھی ان کے نصیب میں اپنے رشتے نہیں ہوتے۔
اﷲ کا بنا یا ہوا قانون کیسے غلط ہو سکتا ہے۔ اﷲ نے مرد کو گھر سے باہر جا
کر کمانے اور عورت کو گھر سنبھالنے کا حکم دیا ہے۔ جبکہ ہم اس کے الٹ کر
رہے ہیں۔اس کا نتیجہ بھی ہم سب کے سامنے ہے۔ پاکستا ن میں غیر شادی شدہ
لڑکیوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔اور اس سے بھی ذیادہ تعداد طلاق یافتہ
لڑکیوں کی ہوتی جارہی ہے۔ اور ان میں اکثریت ایسی لڑکیوں کی ہے جو یا تو
ملازمت کرتی رہی ہیں یا پھر ابھی بھی ملازمت کر رہی ہیں یا اپنا کاروبار
چلا رہی ہیں۔سیلف ڈیپنڈڈ ہونے کے غرور میں دنیا کے سب سے قیمتی رشتوں کو
ایسے ٹھکرادیا جاتا ہے کہ جیسے ان کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو۔
میں سیلف ڈیپنڈڈ عورتوں سے سوال کرتا ہو کہ آخر ایک عورت کا کیر ئیر کیا ہے؟
اچھی ملازمت ۔۔۔اچھا گھر۔۔۔۔اچھی گاڑی۔۔۔۔عمد ہ زیورات۔۔۔۔کیا عورت کو یہ
سب کچھ چاہیے؟۔معاشرے میں سٹیٹس سمبل بننے کی خواہش مند عورت آج ہر طرح کے
مردوں کے ہا تھوں زلیل و خوار ہورہی ہے۔ ایک مرد کی حاکمیت کو قبول نہ کرکے
عورت اپنے اوپر جو ظلم کر رہی ہے اس کا کوئی مداوا نہیں۔
بہت سی عورتیں یہ فیصلہ بچوں کی موجودگی میں کرتی ہیں ۔ جس کا شاخسانہ ان
کے ساتھ ساتھ ان کے بچے بھی بھگت رہے ہوتے ہیں۔ایک بچہ چاہے وہ بیٹا ہو یا
بیٹی اس کی پرورش جس انداز میں شوہر اور بیوی مل کر کر سکتے ہیں۔ اکیلی
عورت کبھی بھی نہیں کر سکتی۔ اگر اکیلا شوہر یہ سب کچھ کرنا چاہے تو بھی وہ
سب کچھ نہیں کر سکتا۔ میں نے ایسے بچوں میں ہمیشہ خامیاں دیکھی ہیں جن کے
اوپر ماں یا باپ کسی ایک کی بھی مسلسل نگرانی نہیں ہوتی۔بچوں کی عادات و
اطوار مکمل طور پر چھ سات سال کی عمر تک پختہ ہوچکے ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد
وہ بچے ان عادات کو بدلنے کی خواہش نہیں رکھتے اور اکثر اوقات زبردستی بھی
ان عادات کو تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔عام طور پربچوں کی کم سنی کے
دور میں ہی مرد اور عورت میں جھگڑا پیدا ہوتا ہے۔ دونو ں ایک دوسرے پر
چلاتے ہیں اور بہت سی ایسی باتیں کرتے ہیں جو عموما بچوں کے سامنے کر نا
مناسب نہیں ہوتا۔ بچے آپ کو بغور دیکھ رہے ہوتے ہیں۔وہ آپ کی ہر حرکت اور
آپ کی زبان سے نکلے ہوئے تما م الفاظ کو اپنے دماغ میں نقش کر لیتے ہیں اور
اپنی باقی ماندہ زندگی میں اس کے اثرات اپنے آس پاس کے لوگوں کو منتقل کرتے
ہیں جس میں ان کے والدین بھی شامل ہوتے ہیں۔
جو عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ ان کے ماں باپ، رشتہ دار،شوہر اور بچوں سے بڑھ
کر بھی ان کا کوئی خیر خواہ ہوسکتا ہے تو وہ انتہائی غلط سوچ رہی ہیں۔ ان
کے کا م اپنے رشتے ہی آنے ہیں اگر آپ نے ان سے اچھا سلوک کیا تو پھر آپ بھی
اچھے رہ جائیں گے اور آپ نے کوئی غلط سلوک کیا تو پھر اس کا نتیجہ بھی آپ
کو ہی بھگتنا ہے۔ اپنے والدین کے گھر میں موجود ہوتے ہوئے کسی بھی بچی کا
کیرئیر اپنے والدین کی مناسب حفاظت اور خدمت ہے اور اپنے گھر سے چلے جانے
کے بعد اس کا شوہر اور بچے ہی اس کا کیرئیر ہے۔ اگر کوئی عورت دولت کو اپنا
کیرئیر سمجھنا شروع کر دیتی ہے تو پھر وہ باقی سب کچھ کھو دیتی ہے جو واپس
نہیں ملتا اگرچہ دولت واپس مل جاتی ہے۔
|