چین کا مصنوعی ذہانت کی عالمی ترقی میں تعمیری کردار

چین کا مصنوعی ذہانت کی عالمی ترقی میں تعمیری کردار
تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

چین کی جانب سے دو سال قبل مصنوعی ذہانت کی گورننس کے لیے گلوبل انیشی ایٹو پیش کیا گیا تھا جو واضح طور پر مصنوعی ذہانت کی ترقی، سلامتی اور گورننس سے متعلق ملک کی تجاویز کا خاکہ پیش کرتا ہے۔ یہ ایک منظم نقطہ نظر اختیار کرتا ہے جو ترقی اور سلامتی دونوں پر زور دیتا ہے، مصنوعی ذہانت کی ترقی میں لوگوں پر مرکوز نقطہ نظر کو برقرار رکھتا ہے، مفاد عامہ کے تحت مصنوعی ذہانت کی ترقی کے اصول پر عمل کرتا ہے، اور مصنوعی ذہانت کی ترقی میں باہمی احترام، مساوات اور باہمی فائدے کے اصولوں کو برقرار رکھتا ہے.

آج ،مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی کے دور میں چین بین الاقوامی برادری کے ساتھ اپنی ٹیکنالوجیز، وسائل اور بصیرت کا تبادلہ کرنے کی پیشکش بھی کر رہا ہے۔ اس میں دیگر ممالک کی حمایت کے لیے تربیت، بنیادی ڈھانچہ اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی فراہمی شامل ہے۔ ایسا کرکے چین خود کو مساوی ترقی میں ایک دوست اور مصنوعی ذہانت میں فعال شراکت دار کے طور پر پیش کر رہا ہے۔

اوپن سورس ڈویلپمنٹ کے لیے چین کی حمایت کنٹرول یا منافع کے مقابلے میں مشترکہ ترقی کے عزم کی عکاسی کرتی ہے، جو باہمی تعاون پر مبنی جدت طرازی کے ذریعے دیگر ممالک، خاص طور پر گلوبل ساؤتھ کو بااختیار بنانے کے عزم کی نشاندہی کرتی ہے۔

یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ عالمی مصنوعی ذہانت کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اجتماعی اقدامات کی ضرورت ہے ، چین سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر ٹیکنالوجی دونوں میں بین الاقوامی تعاون کو مسلسل فروغ دے رہا ہے ۔ملک مشترکہ تحقیق، تکنیکی شراکت اور علم کے تبادلے کے ذریعے جدید ٹولز، فریم ورکس اور پلیٹ فارمز تک رسائی کو عام کرنے کا ہدف رکھتا ہے۔

یہ حکمت عملی جامع تکنیکی ترقی کے چین کے وسیع وژن کے مطابق ہے۔ یہ اُن اہم اصولوں پر زور دیتی ہے جیسے کہ " مصنوعی ذہانت بھلائی کے لیے "، انصاف، قومی خودمختاری کا احترام، اور غیر امتیازی عالمی معیارات کی ترقی وغیرہ وغیرہ۔چین کی ان کوششوں کے ذریعے دنیا اُسے ایک حریف کے بجائے ایک تعمیری عالمی شراکت دار کے طور پر دیکھ رہی ہے۔

چین نظریاتی لکیریں کھینچنے یا دوسرے ممالک کو مصنوعی ذہانت کی ترقی سے روکنے کے لئے مخصوص گروہ بندی کی مخالفت کرتا ہے۔ یہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوششوں کا مطالبہ کرتا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے تمام ممالک مستفید ہوں اور مصنوعی ذہانت کی ترقی انسانی تہذیب کے لئے فائدہ مند ہو۔چین کے پیش کردہ گلوبل اے آئی انیشی ایٹو میں بھی سیکورٹی، کنٹرول، رازداری کے تحفظ، شفافیت اور عدم امتیاز کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ یہ مصنوعی ذہانت کی سلامتی کے بارے میں تمام فریقوں کے بنیادی خدشات کی عکاسی کرتا ہے اور مشترکہ حکمرانی اور ذہین حکمرانی جیسے مخصوص اہداف اور اقدامات تجویز کرتا ہے۔

چین کے اقدامات اور سوچ نہ صرف عہد حاضر کی تکنیکی ترقی کی ضروریات سے ہم آہنگ ہے، بلکہ ممکنہ چیلنجز کے حل میں بھی مددگار ہے۔ چین کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجی حقیقتاً عالمی ترقی میں حصہ ڈالے اور بنی نوع انسان کی بہتر زندگی کو بااختیار بنائے۔ساتھ ساتھ چین عالمی مصنوعی ذہانت کی حکمرانی میں ترقی پذیر ممالک کی نمائندگی اور آواز کو بڑھانے اور مصنوعی ذہانت کی ترقی اور حکمرانی میں تمام ممالک کے لئے مساوی حقوق، مساوی مواقع اور مساوی قوانین کو یقینی بنانے کا مطالبہ کرتا ہے۔

چین کا موقف واضح ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے ساتھ بین الاقوامی تعاون بڑھانے اور انہیں مدد فراہم کرنے کی کوشش کی جائے، اور ممالک کے مابین پالیسیوں اور طریقوں میں اختلافات کا مکمل احترام کرتے ہوئے وسیع اتفاق رائے کی بنیاد پر مصنوعی ذہانت کا گورننس فریم ورک ، اصول اور معیارات تشکیل دیے جائیں۔

چین کا نقطہ نظر، خاص طور پر علم کا تبادلہ کرنے اور اوپن سورس تعاون کو فروغ دینے کے لیے اس کی رضامندی، خاص طور پر گلوبل ساؤتھ ممالک میں مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ یہ ممالک چین کو ایک شفاف اور قابل اعتماد ساتھی کے طور پر دیکھ رہے ہیں ۔چین کا خیال ہے کہ وہ جدید مصنوعی ذہانت ٹولز تک رسائی فراہم کرکے ٹیکنالوجی پر مبنی ڈپلومیسی کے ذریعے مضبوط سیاسی اور معاشی تعلقات استوار کر سکتا ہے ۔

جیسے جیسے مصنوعی ذہانت کی دوڑ تیز ہو رہی ہے، عالمی ٹیکنالوجی کی حکمرانی کا ڈھانچہ ایک گہری تبدیلی سے گزر رہا ہے۔اس ضمن میں چین کی تازہ ترین گلوبل اے آئی تعاون تنظیم کے قیام کی تجویز سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ اس سے عالمی سطح پر مصنوعی ذہانت کی ضابطہ سازی، اطلاق اور تفہیم کو تشکیل دینے میں نمایاں مدد مل سکے گی ۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1594 Articles with 862996 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More