بجٹ اور سوشل میڈیا

بجٹ کا نام سنتے ہی عوام کے کانوں میں مہنگائی کی گھنٹیاں بجنا شروع ہوجاتی ہیں۔ قبل از بجٹ اشیاء مہنگی اور ذخیرہ اندوزی شروع ہوجاتی ہے۔ یہ کھیل برسوں سے غریب عوام کے ساتھ کھیلا جارہا ہے۔ اس بار وفاقی اور صوبائی بجٹ ماہِ جون میں پیش کئے گئے جس میں شمسی تمازت نے ٹیکسوں کی صورت میں عوام کو جھلسا کے رکھ دیا ہے۔جب کہ جون سے پہلے ایک ماہ رمضان کا گزرا تھا، رمضان اور مہنگائی کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ آسمان سے گرا کھجور میں اَٹکا کی مانند ماہ جون میں مہنگائی کے ساتھ ٹیکسوں کے جال میں عوام پھنس گئے۔ ہر طبقہ ٹیکسوں کے خلاف آوازیں بلند کر رہا ہے، احتجاجی تحریکیں تا دَم تحریر جاری ہیں۔ سرکاری ملازمین پانچ سے دس فیصد اضافہ سے ناخوش ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک دوست سے تنخواہ میں اضافے کا پو چھا تو اُس نے کہا کہ منفی دو سو روپے اضافہ ہوا ہے۔ میں نے حیرانگی سے تھوڑی وضاحت پوچھی تو بولا کہ اس بار تنخواہ میں اڑتالیس سو روپے کا اضافہ ہوا اور جب کہ انکم ٹیکس پانچ ہزار ماہانہ کر دیا گیا ہے ، یوں منفی دوسو روپے کا ہی اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری ملازمین کی سال بھر ایک ہی آس ہوتی ہے کہ بجٹ میں ان کی تنخواہیں بڑھ جائیں گی لیکن اس بار اُن کی آس پر انکم ٹیکس کی چھری بقر عید سے قبل تنخواہ پر پھر گئی۔ بجٹ کی ان تلخ باتوں کو آگے نہیں بڑھاتے، یہیں فُل اسٹاپ لگادیتے ہیں اور اپنے موضوع کی جانب آتے ہیں۔ بجٹ کے بارے میں سوشل میڈیا پر کارٹون اور لطائف نظروں سے گزرے ، سوچا کہ قارئین کے ساتھ شئیر کروں کیوں کہ اس بار بجٹ سب پر بھاری رہا ہے۔ ذرا ہنسی مذاق اور مسکراہٹوں سے پھیپھڑوں کی ورزش ہو جائے گی۔

انکل سرگم نے اپنے ایک کارٹون میں دو عورتوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کو کچھ یوں بیان کیا ہے۔ ’’ بیوٹی پالرز پہ ٹیکس لگ گیا ہے ، اگر بیوٹی پالرز بند ہوگئے تو میرے میاں مجھے پہچانے گے کیسے ؟ ‘‘۔ میں جب بازار سے گزرتا ہوں تو آج کل کچھ زیادہ ’’ دکان کرایے کے لئے خالی ہے ‘‘ کے بورڈپڑھنے کو ملتے ہیں، یعنی کاروبار ٹھپ اور لوگ دکانیں خالی کروا رہے ہیں۔ ایک اور کارٹون میں وزیر خزانہ اور ایک سرکاری ملازم کو دکھایا گیا ہے، وزیر خزانہ ڈراپر سے سرکاری ملازم کو قطرے پلوا رہے ہیں۔ نیچے لکھا تھا۔ ’’ یہ پولیو کے قطرے نہیں۔۔۔ آپ کی تنخواہ میں اضافہ ہے ۔ ‘‘ ایک صارف نے ٹوئیٹر پر تمام سرکاری ملازمین کو تنخواہوں میں بے پناہ اضافہ پر طنزیہ مبارک باد دیتے ہو ئے لکھا ہے ۔ ’’ ہم اس حکومت کے شکر گزار ہیں جنہوں نے بجٹ 2019-20 میں سال 2019 کی بنیادی تنخواہ کی بجائے دوسال قبل 2017 کی بنیادی تنخواہ پر اضافہ کیا ہے ۔ اَب حکومت وقت سے گزارش ہے کہ براہ ِ کرام تمام اشیاء ضروریہ اور بجلی ، گیس اور پٹرول کی قیمتیں بھی 2017 والی کردیں تا کہ تمام سرکاری ملازمین اپنی تنخواہوں میں اس بے پناہ اضافہ سے بھر پور لطف اندوز ہو سکیں۔ ‘‘

بجٹ 2019-20 میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے سے متعلق فیس بُک پر ایک صارف نے اپنی پوسٹ میں لکھا ہے کہ پیر صاحب کی شادی تھی جب لاگ لینے نائی آیا تو پیر بولا۔ او بتا شکور ! پیسے لینے ہیں یا دُعا۔ نائی وچارہ بولا ، مرشد میں تو دعا ہی لوں گا، آپ سے پیسے لے کر کیا کرنا۔ کمہار آیا، پیر بولا۔ او بتا اشرف ! تو نے بھی دُعا لینی ہے یا پیسے۔ کمہار بولا، باوا جی میں نے بھی دُعا ہی لینی ہے۔ میراثی کی باری آئی تو پیر بولا۔ او فیقے ! پیسے چاہیے یا دُعا۔ میراثی نے کہا کہ باوا جی پچاس روپے کی دُعا دے دو اور پانچ سو روپے نقد۔ پیر نے دُعا دی اور تھوڑی دیر بعد کہا کہ میرے سے غلطی ہو گئی ہے ، میں نے پانچ سو کی دُعا دے دی ہے۔ اَب تو اینچ کر آپنڑاں پچاس کٹ کے باقی چار سو پچاس میکو موڑ دے۔

کسی دوست نے ایس ایم ایس پر اس نوٹ کے ساتھ ایک لطیفہ بھیجا کہ اس کا موجودہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پانچ سے دس فیصد اضافے اور اضافی انکم ٹیکس سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ لطیفہ ملاحظہ ہو۔ ’’ ایک کنجوس آدمی نے گھر میں اعلان کیا کہ جو بچہ دوپہر کا کھانا نہیں کھائے گا اس کو دس روپے انعام ملے گا۔ سب بچوں نے خوشی خوشی دس دس روپے لے لئے۔ رات کے کھانے کا وقت ہوا، کنجوس نے پھر اعلان کیا کہ رات کا کھانا صرف اس کو ملے گا جو دس روپے واپس کر ے گا۔ ‘‘

ایک فیس بُک صارف نے بجٹ کو صحت مند قرار دیتے ہوئے لکھا ہے ۔ چینی مہنگی ، اس کا استعمال ویسے ہی نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ اس سے شوگر کا مرض بڑھتا ہے۔ زیادہ ضرورت ہو تو شکر کا استعمال کریں لہٰذا چینی ترک کردیں ، قوم صحت مند رہے گی۔ گھی مہنگا ، گھی مضر ِ صحت ہے ۔ خون جماتا ہے ، کولیسٹرول بڑھاتا ہے لہٰذا اُبلی سبزیاں اور گوشت کھانا چاہیے، یوں قوم صحت مند رہے گی۔ مشروبات مہنگے ، معدہ اور گلا خراب کرتے ہیں۔ کیا ضرورت ہے بوتلیں پینے کی ، ویسے بھی یہودیوں کی کمپنیاں ہیں۔ قوم کو صحت مند رہنے کے لئے اُبلا ہوا پانی پینا چاہیے۔ سگریٹ مہنگے ، خبردار تمباکو نوشی صحت کے لئے مضر ہے۔ یہ لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں ، لوگ اس کو پینے سے باز ہی نہیں آتے۔ اَب مہنگے ہوجانے کے بعد خود چھوڑ دیں گے اور صحت مند رہیں گے۔ زیورات مہنگے ، سونا چاندی ، ہیرے ، موتی سب دکھاوا ہیں، نمود و نمائش کی چیزیں ہیں۔ اس کے علاوہ بھاری بھرکم زیورات پہننے سے دلہن بے چاری تھک کر چُور ہو جاتی ہے ، اکڑی رہتی ہے لہٰذا ان کو چاہیے کہ موتیے کے پھول کانوں میں ڈالیں ، گلاب کے پھول بالوں میں لگائیں جس سے خوب صورتی بھی رہے گی او ر خوشبو سے فضا بھی معطر رہے گی۔ گاڑیاں مہنگی ، لوگ سہل پسند اور آرام طلب ہوتے جا رہے ہیں، چہل قدمی بالکل نہیں کرتے۔ اس اقدام سے پیدل چلنے والوں میں اضافہ ہوگا۔ یوں بہت سی بیماریوں کا خاتمہ ہوگا اور سب صحت مند رہیں گے۔ ان تمام باتوں سے نہ صرف قارئین کے پھیپھڑوں کی ورزش مقصود تھی بلکہ بجٹ کی الف ب سمجھانا بھی ایک مقصد تھا۔
 

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 226 Articles with 301618 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.