عمران خان صاحب آپ وہ شخص ہے جس نے پہلی مرتبہ مریم ریڈلے
لندن کی نو مسلم صحافی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کر کے گم شدہ، مظلومہ
امتِ مسلمہ عافیہ کا مسئلہ کا دنیا اور پاکستانی عوام کے سامنے میں اُٹھا
یا تھا۔ہم ڈاکٹر حافظہ عافیہ صدیقہ صاحبہ کو مظلومہ امتِ مسلمہ اس لیے
لکھتے ہیں کہ جب یہودی متعصب امریکی جج نے عافیہ کو کمزور شواہد کے
باوجود۸۷ سالہ قید سنائی تھی تو عدالت میں موجود ایک انصاف پسند اور
باضمیرامریکی دانشور نے کہا تھا کہ یہ سزا عافیہ کو نہیں امت مسلمہ کو
سنائی گئی ہے۔
مریم ریڈلے جو طالبان کی قید میں تھی۔جس نے بعد میں طالبان کے عورتوں کے
ساتھ اسلامی رویہ سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا تھا۔ مریم ریڈلے نے
افغانستان کی جیل جو امریکا کے کنٹرول میں تھی۔ عافیہ کی چیخ و پکار سن کر
دنیا کے سامنے کیس کو اُٹھایا تھا۔ پھر دشمنِ وطن ڈکٹیٹر مشرف نے افغانستان
کی جیل سے عافیہ کو امریکا منتقل کرنے کے اسباب پیدا کیے تھے۔ عمران خان
صاحب وزیر اعظم پاکستان ،اقتدار توآنی جانی شے ہے۔ آپ مدینہ کی اسلامی
فلاحی ریاست کی بات کرتے ہیں ۔تو آپ پر فرض عائد ہو جاتا کہ ایک بے گناہ
حافظہ قرآن پڑھی لکھی مظلوم خاتون کو امریکا کی قید سے سے نجات دلائیں۔ہم
داد دیتے ہیں افغان طالبان کو کہ جن کو دشمن جاہل اور ان پڑھ کہتے ۔ جو
ہمارے نزدیک تو دنیا کے باعزت ترین، بہادر اور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں
ڈال کر بات کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ طالبان نے امریکا سے قطر میں ہونے
والے مذاکرات کی لسٹ میں عافیہ کی رہائی کو سرے فہرست رکھا ہے۔ہمارے نزدیک
افغان طالبان امت مسلمہ کے پشتی بان ہیں۔
اگر ہم عافیہ موومنٹ چلانے والی ایک بظاہر کمزور سی خاتون ڈاکٹر فوزیہ
صاحبہ کی بات کریں تو اس عورت نے اکیلے کسی بھی بڑی سیاسی پارٹی کے کاموں
سے کہیں زیادہ بڑھ کو اپنی بہن عافیہ کی رہائی کے لیے مہم چلائی۔اس نے ایک
ایک کالم نگارسے ذاتی تعلوقات قائم کیے۔ کالم نگاروں نے پرنٹ میڈیا میں
عافیہ کی رہائی کے لیے طوفان اُٹھ دیا۔ سوائے سلیم صحافی کہ وہ کہتا عافیہ
امریکاکی قید میں خوش ہے وہ پاکستان نہیں آنا چاہتی؟ ہر کالم نگار نے اپنے
اپنے طورجو ہو سکا اُس نے کیا۔اخبارات کا اگر جائزہ لیا جائے تو کسی بھی
مسئلہ سے زیادہ عافیہ کی رہائی کے لیے کالم نگاروں نے کالم لکھے۔ فوزیہ
صاحبہ نے سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں سے رابطے کیے۔ان کو عافیہ کی رہائی کے
لیے مسئلہ اُٹھانے کے درخواست کی۔
سب سیاسی پارٹیوں نے فوزیہ صاحبہ سے تعاون کیا۔ سیاسی پارٹیوں نے اپنے
جلسوں ، ریلیوں اور دیگرپروگراموں میں فوزیہ صاحبہ کو بلا کر اپنا دُھکڑا
بیان کرنے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کیا۔ سیاسی پارٹیوں نے عافیہ کی رہائی کے
لیے خود ریلیاں نکالیں۔سیاست دانوں نے پارلیمنٹ اور سینیٹ کے اندر عافیہ کی
رہائی پر بحث کی۔ فوزیہ صاحبہ نے قائد اعظم کے مزار کے سامنے ایک جرگے کا
اہتمام کیا ۔جس کی کمپیئرنگ کراچی یونیورسٹی کے پروفیر سلیم صاحب نے کی۔ اس
میں ساری سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں صحافیوں،کالم نگاروں، دانشوروں،وکیلوں
اور معاشرے کے دکھ درد رکھنے والے حضرات نے شرکت کی تھی۔کئی کالم نگارکراچی
کے باہرسے بھی شرکت کے لیے تشریف لائے تھے۔راقم بھی اس جرگہ میں شریک ہوا
اور کالم بھی لکھا ۔اس جرگے نے متفقہ طور پر حکومت سے عافیہ کی رہائی کی
کوشش کرنے کی اپیل کی تھی ۔ یہ نواز شریف کی حکومت کا دور تھا۔ جرگہ میں
اعلان کیا گیا کی نواز شریف فوزیہ صاحبہ سے فون پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ فون
پر بھی نواز شریف صاحب نے ہمدردی کا اظہار کیا تھا۔پیپلز پارٹی کے دونوں
وزیر اعظموں اور صدر زرادری نے بھی عافیہ کی رہا ئی کے لیے فوزیہ صاحبہ سے
وعدہ کیا۔کالم نگاروں نے اپنے کالموں میں صاحب اقتدار لوگوں سے اپلیں کی
تھی کہ مظلومہ امت مسلمہ کی رہائی کے لیے کچھ کریں۔ جب راحیل شریف سابق
کمانڈر ان چیف پاک فوج امریکا دورے پر جارہے تھے تو ہم اپنے کالم میں رحیل
شریف صاحب سے ہافیہ کی رہائی کی اپیل کی تھی۔کالم میں محمد قاسم کا حوالہ
دے کر کہا تھا کہ ایک وہ وقت بھی تھا جب مظلوم مسلمان عورتوں کی رہائی کے
لیے ایک مسلمان جرنیل نے ہندوستان پر حملہ کر کے مظلوم مسلمان عورتوں کو
رہائی دلائی تھی۔ آپ امریکا کے دورے پر جا رہے ہیں۔ ۷۰ سالہ دوستی کا
پرچارک کرنے والے امریکا سے ایک مسلمان مظلومہ ہافیہ کو رہائی دلانے کے
امریکا سے بات کریں۔مگر جرنل راحیل شریف سے بھی کچھ نہ ہوا۔جب نواز شریف
امریکا کے دورے پر گئے تو پھر نے ہم کالم لکھا۔ کہا کہ اگر تم عافیہ کو رہا
کراؤ گے تو پاکستانیوں کے ہیرو کہلاؤ گے۔ نواز شریف بھی ناکام لوٹا۔جب
امریکا میں عافیہ کے خلاف مقدمہ چل رہا تھا تو اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت
تھی۔ پیپلز پارٹی کے وزیر خارجہ اور اب عمران خان کے وزیر خارجہ شاہ محمود
قریشی نے وکیلوں کوصحیح طریقے سے مقدمہ لڑنے نہیں دیا۔ بلکہ ہافیہ کی والدہ
صاحبہ کے مطابق وکیلوں کی فیس میں بھی کرپشن کی۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے
وزیر داخلہ رحمان ملک صاحب نے عافیہ کے دو بچوں کو ڈھونڈ کے فوزیہ صاحبہ کے
حوالے کیا تھا۔ ایک بچہ کا ابھی تک کچھ بھی اتہ پتہ نہیں۔پاکستانی قوم اور
عافیہ کی فیملی شکر گزار ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران سندھ ہائی کورٹ
میں فوزیہ صاحبہ نے مقدمہ داہر کیا تھا۔کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ امریکا سے
قیدیوں کے اپنے اپنے ملکوں واپس بھیجنے کا معاہدہ کیاجائے۔ اگر عافیہ کو
شیطان کبیر نیوورلڈ آدر والا رہائی نہیں دیتا تو کم از کم وہ باقی سزا اپنے
ملک پاکستان کی جیل میں گزارے کی اجازت تو دے۔ عدالت کے حکم پر عمل نہیں
کیا گیا۔فوزیہ صاحبہ نے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کے سامنے
مقدمہ رکھا۔چیف جسٹس صاحب نے ایک خاتون سے چار گھنٹے انتظار کر وایا۔ راقم
بھی سپریم کورٹ کے باہر دو گھنٹے فیصلہ کے انتظار میں بھی بیٹھارہا۔بیماری
کی وجہ سے واپس آنا پڑا۔ چیف جسٹس صاحب نے فیصلہ سنایا کہ پاکستان کی سپریم
کورٹ کے داہرہ اختیار میں نہیں کہ وہ حکومت کو حکم نہیں دے کہ عافیہ کوواپس
لایا جائے۔ ہم نے اس فیصلہ پر بھی کالم لکھا تھا کہ’’عافیہ کی بہن سپریم
کورٹ سے روتی ہوئی باہر آ گئی‘‘۔فوزیہ صاحبہ حالیہ ملاقات میں انکشاف کیا
کہ چیف جسٹس صاحب نے فیصلہ دیا تھا کہ امریکا پاکستان سے خفا ہو جائے گا۔
سندھ ہائی کورٹ نے حکومت حکم جاری کہ مرکزی حکومت سے مل کر امریکا سے
قیدیوں کی تبدیلی کا معاہدہ کیا جائے اور سپریم کورٹ وفاقی حکومت حکم دینے
سے اجتناب کر رہی ہے۔ یہ کیسا قانون ہے؟۔ فوزیہ صاحبہ نے فاران کلب میں
پرگروام کر کے دینی مدرسوں کے طا لب علموں کو عا فیہ کی رہائی کے سلسلے میں
مضمون نویسی پر انعام دینے کے ریٹائرڈجسٹس وجی الدین صاحب کو بلایا۔ پوزیشن
حاصل کرنے والوں میں نقد انعام اور ٹرافیاں تقسیم کیں تھی۔ کراچی پریس کلب
کے سامنے عافیہ موومنت کے کارکنوں نے چالیس روزہ طویل دھرنہ بھی دیا۔
درجنوں دفعہ پریس کلب کے سامنے عافیہ کی رہائی کے لیے مظاہرے کیے گئے۔فوزیہ
صاحبہ نے بیرون ملکوں میں جا کر ریلیاں ،پریس کانفرنسس اور مظاہرے کرائے
گئے۔سرحد کے دور دراز شہر سے اسلام آباد تک عافیہ کی رہائی کے لیے لانگ
مارچ کرایا گیا۔اوباما صدر امریکا کو ایک لاکھ پٹیشنز ای میل کیں کہ اس کے
بہن کو رہا کر دیا جائے۔ اب بھی فوزیہ صاحبہ نے ڈونلڈ ٹرمپ صدرامریکا
کوفوزیہ صاحبہ نے رحم کی اپیل کر رکھی ہے۔ فوزیہ صاحبہ کی کوششوں کی ایک
لمبی دکھ بھری داستا ن ہے ۔کیا کیا بیان کیا جائے۔ ہم اﷲ سے دعا گو ہیں کہ
اﷲ فوزیہ صاحبہ کی کوششوں کو قبول کرکے مظلومہ امتِ مسلمہ کو امریکا کی قید
سے رہائی دلائے آمین۔
ہم آج تک یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ امریکہ پاکستان کو کروڑوں ڈالروں کی فوجی
اور دیگر امداد دیتا ہے۔ ڈکٹیٹرمشرف نے ایک فون کال پر اپنی فوج اور ملک کی
سیاسی پارٹیوں سے مشورے کے بغیر لاجسٹک سپورٹ کے نام پر پاکستان کے ہوئی،
بحری اور بری راستے امریکا کے حوالے کر دیے۔ امریکا کی جنگ کی وجہ ہمارے
ملک کا اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ ہمارے لاتعداد فوجی اور شہری شہید
ہوئے۔مگرہماری کمزور خارجہ پالیسی کی وجہ سے امریکا مظلومہ عافیہ کو رہا
کرنے پر تیار نہیں۔ بقول عمران خان صاحب کہ اب ہم کرایہ کے فوجی کی حیثیت
سے امریکا کے لیے نہیں لڑیں گے۔موجودہ آرمی چیف کہتے ہیں کہ پاک فوج نے بہت
کچھ کر لیا اب دنیا ڈور مور کرے۔امریکا کے لیے لڑنے کے باوجود ہمارے پچھلے
سارے حکمران عافیہ کو رہائی یا پاکستان واپس نہ لا سکے۔ پاکستان کے سارے
وزیراعظموں اور صدرو نے عافیہ کی رہائی کی یقین کی کے باوجود عافیہ کو
رہائی نہ دلا سکے۔ کیا وجہ ہے کہ آج تک عافیہ کی رہائی ممکن نہیں ہوئی۔ یہ
ایک سوالیہ نشان ہے جو ہم نے کراچی کے سفر کے دوران فوزیہ صاحبہ کے سامنے
رکھتے ہوئے کہا کہ شاید دکٹیٹر مشرف نے امریکا سے کوئی خفیہ معاہدہ کیا ہوا
ہے کہ امریکاکے ہاتھوں ڈالر کے عواض فروخت کیے گئے مسلمانوں کو واپس نہیں
کرے گا۔ویسے توملا ضعیف سابق افغان سفیر اوردوسرے کئی قیدیوں کے ساتھ رہا
کر دیا۔ مگر عافیہ کو اتنی کوششوں کے باوجود رہانہیں کیا۔کیاہمارے سارے
حکمران بودے ہیں کہ امریکا سے بات کرنے کی ہمت ہی نہیں رکھتے۔یا اﷲ کیا
ماجرہ ہے۔ جو کچھ ہو چکا سو ہو چکا ۔اب ہم عمران خان صاحب وزیراعظم پاکستان
سے اُمید رکھتے ہیں کہ وہ امریکا کے صدر ٹرمپ سے دو ٹوک بات چیت کر کے
عافیہ کو رہائی یا باقی قید پاکستان کی جیل میں گزارنے یا قیدیوں کے تبادلہ
کا کوئی معاہدہ کر کے عافیہ کو پاکستان واپس لائیں۔ پاکستان قوم کو اس پر
بھی تیار رہنا چاہیے کہ ایک بے قصور مظلومہ امت ِمسلمہ کے بدلے اگر غدار
وطن ،امریکا کے ٹاؤٹ ،جسے امریکا بہت پسند کرتا ہے کے بدلے بے قصور عافیہ
کو واپس پاکستان لائے۔ پاکستان قوم عمران خان کو ہیرو مان کر اس کی ساری
غلطیاں بھی معاف کر دے گی۔ اے کاش ایسا ہوجائے۔
|