عالمی عدالت انصاف میں ہندوستان کی کامیابی وقتی یا ۰۰۰؟

بلوچستان میں گرفتارہونے والے ہندوستانی عہدیدارکلبھوشن سدھیر جادھو کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف نے فیصلہ سناتے ہوئے کلبھوشن جادھو کو قونصلر رسائی فراہم کرنے کیلئے کہا ہے ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق عدالت کا کہنا ہیکہ کلبھوشن جادھو کو قونصلر رسائی کا حق حاصل ہے ، انہوں نے پاکستان کی جانب سے جادھو کو دی جانے والی سزائے موت پر نظرثانی کرنے کے لئے کہا ہے۔ عالمی عدالت انصاف کے جج عبدالقوی احمد یوسف نے یہ فیصلہ سنایا ، ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان ویانا کنونشن کے فریق ہیں اور ہندوستان ویانا کنونشن کے تحت قونصلر رسائی مانگی ہے۔ پاکستان نے ہندوستانی موقف کے خلاف تین اعتراضات پیش کئے۔ پاکستان موقف تھاکہ کلبھوشن جعلی نام پر پاسپورٹ کے ساتھ پاکستان میں داخل ہوئے، پاکستان کا دوسرا موقف تھاکہ ہندوستان کلبھوشن کی شہریت کا ثبوت دینے میں ناکام رہا، اسی طرح پاکستان کا تیسرا موقف تھاکہ کلبھوشن نے پاکستان میں جاسوسی کے ساتھ دہشت گردی کی۔جج نے مقدمہ کی تفصیلی شقوں کی طرف جانے سے روکتے ہوئے کہاکہ پاکستان کلبھوشن جادھو کو دی جانے والی سزائے موت پر نظر ثانی کرے ۔واضح رہے کہ کلبھوشن جادھو کو پاکستان میں 3؍ مارچ 2016کو بلوچستان کے علاقے سے گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر پاکستان میں دہشت گردی اور جاسوسی کے سنگین الزامات عائد کئے گئے تھے۔ سابقہ ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج نے عالمی عدالت انصاف کی جانب سے سنائے گئے فیصلے پر اپنے ردّ عمل کااظہار کرتے ہوئے اسکی تائید کی اور کہ وہ اس فیصلہ کو خوش آمدید کرتی ہیں اوریہ ہندوستان کے لئے ایک زبردست جیت ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے کلبھوشن جادھو کا کیس عالمی عدالت انصاف میں لے جانے کے قدم کی تعریف کی اور ہندوستانی موقف پیش کرنے والے وکیل ہریش سالوے کا شکریہ ادا کیا۔اس فیصلہ سے وقتیہ طور پر کلبھوشن جادھو کے ارکان خاندان کو راحت ملی ہے کیونکہ فی الحال جادھو کی سزائے موت پر روک لگ چکی ہے۔ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو ’’سچ اور انصاف کی فتح‘‘ قرار دیا جبکہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اس فیصلے کو ’’قابلِ تحسین‘‘ قرار دیا ہے۔ عالمی عدالت انصاف کی جانب سے دیئے گئے فیصلے کے بعد پاکستان نے کہا ہے کہ وہ کلبھوشن جادھو کو پاکستانی قوانین کے مطابق قونصلر تک رسائی کا حق فراہم کرے گا۔دونوں ممالک اس فیصلے کو اپنے اپنے لئے فتح قرار دے رہے ہیں لیکن کلبھوشن جادھو کیلئے اصل فتح اس کی رہائی ہوگی اور انکے ارکان خاندان کے ساتھ دوبارہ زندگی گزارنے کی راہیں فراہم ہوں تو یہی ہم ہندوستانیوں کے لئے کامیابی ہوگی۔

جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید گرفتار
جماعت الدعوۃ پاکستان کے سربراہ حافظ سعید کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور انہیں کوٹ لکھپت جیل منتقل کردیا گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق سی ٹی ڈی پنجاب کے ترجمان کا کہنا ہیکہ انہیں گوجرانوالہ میں محکمہ انسداد دہشت گردی میں درج مقدمے میں گرفتاری کے بعد جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا گیا ہے۔ پنجاب کے محکمہ انسداد دہشت گردی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہیکہ جماعت الدعوۃ، لشکرِ طیبہ اور فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کے معاملات میں بڑے پیمانے پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا ہے۔ سی ٹی ڈی پنجاب کے مطابق ان تنظیموں نے دہشت گردی کے لئے اکھٹے کئے جانے والے فنڈز سے اثاثے بنائے اور پھر ان اثاثوں کو استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کے لئے مزید فنڈز جمع کئے۔ محکمہ انسدادِ دہشت گردی کے مطابق حافظ سعید اور دیگر 12افراد انسداد دہشت گردی کے قانون 1997کے تحت دہشت گردی کے لئے پیسے جمع کرنے اور منی لانڈرنگ کے مرتکب ٹھہرے ہیں اور انکے خلاف انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں مقدمات چلائے جائیں گے۔سنہ 2014میں امریکہ نے جماعت الدعوۃ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے مالیاتی پابندیاں عائد کی تھیں اور امریکی حکام کی جانب سے حافظ سعید کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر ایک کروڑ ڈالر کے انعام کی پیش کش بھی کی گئی تھی۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ ہندوستان نومبر2008ء میں ممبئی حملوں کا ذمہ دار حافظ سعید کو ٹھہراتا ہے اورہندوستان عالمی سطح پر حافظ سعید کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے دباؤ ڈالا تھا۔اب دیکھنا ہے حافظ سعید کے خلاف عدلیہ کس قسم کا فیصلہ سناتی ہے۔

امریکہ اور ایران کی عالمی برادری کے درمیان آنکھ مچولی کب تک۰۰۰
ایسا محسوس ہوتا ہیکہ امریکی صدر ایران کے خلاف خطرناک کارروائی کا حکم دیں گے لیکن پھر دونوں جانب سے بیانات آجاتے ہیں نہ تو امریکہ ایران پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور نہ ایران امریکہ سے تعلقات ختم کرنا چاہتا ہے۔ ایران اور امریکہ کے درمیان جس طرح کے حالات دکھائی دیتے ہیں یہ صرف عرب ممالک کو خوف و ہراس میں رکھنے کے لئے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ امریکہ کو اپنے اربوں ڈالرس کے ہتھیاروں کی نکاسی بھی کرنی ہے اور ان ہتھیاروں سے اربوں ڈالرس کمانے بھی ہیں۔ اپنے معاشی استحکام اور خوشحالی کے لئے دشمنانِ اسلام کس طرح مسلم ممالک کے حکمرانوں کو خوف و ہراس کے ماحول میں پہنچا دیئے یا پھر ان کی حکومتوں کو بچانے کا لالچ دے کر کس طرح اپنا اُلو سیدھا کررہے ہیں۔ ایران پر معاشی پابندیاں عائد کی گئیں پھر چھ عالمی ممالک کے ساتھ بات چیت اور معاہدہ کے بعد ایران پر سے کئی پابندیاں ہٹالی گئیں تھیں۔ لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی 2018میں امریکہ کو اس معاہدہ سے الگ کرلیا اور کہا کہ اس سے جوہری پروگرام پر قابو کرنے میں زیادہ مدد نہیں ملی اور کہاوہ اسے دوسرے معاہدے کے ساتھ بدلنا چاہتے ہیں جس سے ایران کے میزائل پروگرام پر بھی حد قائم ہوگی۔ادھر ایران نے بھی دھمکی دے رکھی ہے یہ اگر یوروپ امریکی پابندیوں کے اثرات کو کم کرنے میں مدد نہیں کرتا تو وہ معاہدے کی مزید شرائط کو توڑیں گے۔ 15؍ جولائی کو یورپی یونین کے وزراء خارجہ نے ایران پر زور دیا کہ وہ معاہدے کی پوری پاسداری کرے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ گذشتہ چند ہفتوں یا مہینوں میں جو شرائط کی ایران نے پامالی کی ہے وہ بہت اہم نہیں ہے اور اسے واپس کیا جاسکتا ہے۔ یورپی یونین کے ایران کے تیئں اس بیان پر اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے ردّعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یوروپی یونین کو اس وقت خطرہ سمجھ میں آئے گا جب ایرانی میزائل یورپی سرزمین پر گریں گے۔ ایران اور امریکہ کے درمیان بات چیت کا مسئلہ بھی الگ سنگین نوعیت اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے لیکن اصلیت کیا ہے اس سلسلہ میں ایران اور امریکی صدور اور وزرائے خارجہ و دونوں ممالک کے عہدیدارہی بہتر جانتے ہیں۔ عالمی سطح پر ان دنوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرکے عالمی سطح پر یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ان کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ ہیں۔ کبھی دونوں کے درمیان بات چیت کی خبریں آتی ہیں تو کبھی مخالف میں بیان بازی کا سلسلہ جاری ہوجاتا ہے۔ اب ایک نئی بات منظر عام پر آئی ہے یعنی ایران اس بات کو مسترد کردیا ہیکہ وہ اپنے میزائل پروگرام پر امریکہ سے بات چیت کرنے کا خواہاں ہے۔ یہ تردید ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے اس انٹرویو کے بعد منظر عام پر ائی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر پابندیاں ہٹالی جاتی ہیں تو میزائل پروگرام پر بات چیت ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے کہ یہ پابندیاں امریکہ کی جانب سے گذشتہ سال یکطرفہ طور پر 2015کے جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعد عائد کی گئی تھیں۔ امریکہ کی جانب سے معاہدے سے علحدگی اختیار کرنے کے بعد ایران نے اعلان کیا ہیکہ اس نے معاہدے میں طے شدہ حد سے زیادہ یورینیم افزودہ کرلی ہے تاہم ایران کا کہنا ہیکہ وہ جوہری ہتیار نہیں بنارہا ہے۔ بتایا جاتا ہیکہ 15؍ جولائی کو ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے این بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک بار امریکہ پابندیاں ہٹالے تو پھر بات چیت کے دروازے کشادہ طور پر کھلے ہوئے ہیں۔ اس سے قبل بھی ایران نے کہا تھا کہ اسے عزت و احترام کے ساتھ امریکہ بات چیت کی دعوت دے تو وہ بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ سے جب ایران کے میزائل پروگرام کے بارے میں امریکہ سے بات چیت کیلئے تیار رہنے کا سوال کیا گیا تو جواف ظریف نے کہا کہ اگر امریکہ میزائل پروگرام پر بات کرنا چاہتا ہے تو اسے پہلے ہمارے خطے میں میزائلوں سمیت تمام طرح کے ہتھیاروں کی فروخت کرنا بند کرنا پڑے گی۔ جواد ظریف کے اس بیان سے صاف اندازہ ہوجاتا ہیکہ وہ امریکہ سے ایرانی میزائل کے سلسلہ میں بات چیت کرنا نہیں چاہتے کیونکہ امریکہ خطے میں موجود اپنے ہتھیار کسی صورت فی الحال ہٹائے گا نہیں کیونکہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے علاوہ اسرائیل بھی نہیں چاہتا کہ امریکہ اپنے ہتھیار واپس لے کر جائے۔ اور یہ بات ایرانی وزیر خارجہ بخوبی جانتے ہیں کہ امریکہ اپنے ہتھیار کسی صورت خطے سے نہیں لے جائے گا۔ 16؍ جولائی کو امریکی کابینہ کے اجلاس میں وزیر خارجہ مائل پومپیو نے کہا کہ ایران نے پہلی بار اپنے اسلحہ کے بارے میں بات کرنے پر رضا مندی دکھائی ہے جبکہ پہلے ایران کا سخت موقف تھا کہ کسی بھی صورت میں اس کی گنجائش نہیں ہے ۔ اس بیان کے بعد اقوام متحدہ میں ایران کے ترجمان علی رضا میر یوسفی کا کہنا ہے کہ وزیر خارجہ جواد ظریف کے انٹرویو کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا اور انہوں نے اس بات کو مسترد کردیا کہ ایران اپنے اسلحہ کے بارے میں امریکہ سے بات چیت کرے گا۔ انہوں نے میڈیا کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ادھر نامزد امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے 16؍ جولائی کو سینیٹ کی آرمد سروسز کمیٹی کو بتایا کہ امریکہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا اور سفارتی راستوں پر واپس جانے کی ضرورت ہے۔ جبکہ امریکی صدر نے بھی کہا کہ امریکہ نے ایران کے ساتھ بہت پیشرفت کی ہے اور وہ وہاں اقتدار میں تبدیلی نہیں چاہتے۔ تاہم انکا کہنا تھا کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں بناسکتا اور بیلسٹک میزائل کاتجربہ بھی نہیں کرسکتا۔ ان تمام حالات کو مدّنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہیکہ فی الحال ایران اور امریکہ دونوں ہی نہیں چاہتے کہ ان کے درمیان کسی قسم کے جنگی حالات پیدا ہوں۔ خلیج میں ٹینکروں پر حملے کا ذمہ دار ایران کو گردانا جاتاہے جبکہ ایران اس بات سے انکار کرتا آرہا ہے۔ ایران پر الزام ہیکہ وہ مشرقِ وسطی کے بعض ممالک میں دہشت گردی کو ہوا دینے میں اہم رول ادا کررہا ہے۔ یمن میں عرب اتحاد کے خلاف حوثی باغیوں کے تعاون کے لئے ایران کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ ایران پر پابندیاں عائد ہونے کے باوجود اور معاشی بدحالی کے باوجود ایران خطے میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کی کوشش کررہا ہے ۔ جبکہ عرب ممالک کو امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کی جانب سے دفاعی سازو سامان اور ہتھیاروں سے لیس کرنے کے باوجود ان ممالک کو ایران کا ڈر و خوف ستائے جارہا ہے۔ اب دیکھنا ہیکہ ایران اور امریکہ کے درمیان دیگر عالمی برادری کو بیوقوف بنائے جانے کا جو کھیل کھیلا جارہا ہے یہ کب تک جاری رہتا ہے ۰۰۰

عازمین حج و عمرہ سعودی عرب کے دیگر شہربھی جاسکیں گے
سعودی عرب کی کابینہ نے حج و عمرہ اور مسجد نبوی شریف کے لئے آنے والے زائرین کو مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ اور جدہ شہر سے باہر جانے کی اجازت دے دی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی حکام نے یہ بات بتائی ۔ اس سے قبل حج و عمرہ اور مسجد نبوی شریف کی زیارت کیلئے آنے والوں کو صرف 3 شہروں میں رہنے کی اجازت تھی اور ان شہروں سے باہر جانے پر پابندی عائد تھی۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جبکہ دنیا کے کونے کونے سے فرزندان اسلام حج کی سعادت حاصل کرنے کے لئے حجاز مقدس پہنچ رہے ہیں۔

بنگلہ دیش میں سیلاب سے ہزاروں روہنگیا پناہ گزیں متاثر
بنگلہ دیش میں سیلاب کی تباہ کاریاں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر سال بنگلہ دیشی عوام سیلاب کی وجہ سے متاثر ہوتے رہے ہیں۔آفاتِ ارضی و سماوی کی تباہ کاریوں کے بعدبنگلہ دیشی عوام دوبارہ اپنے ان مکانوں کو آباد کرلیتے ہیں۔تقریباًہر سال سیلاب کی تباہ کارویوں کی وجہ سے بنگلہ دیش کی معیشت کو شدید نقصان پہنچتا ہے اور بچوں کی تعلیم بھی متاثر ہوتی ہے ۔بنگلہ دیش میں آنے والے سیلاب کے باوجود لاکھوں روہنگیا پناہ گزیں یہیں پر اپنے خاندانوں کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔میانمار میں جس طرح روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے گئے اسی خوف و ہراس اور مستقبل میں بھی ظلم و ستم کے خوف سے روہنگیا مسلمان اپنے ملک واپس جانے کے بجائے بنگلہ دیش میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ سیلاب کی تباہ کاریاں انہیں گھیرے ہوئے ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق بنگلہ دیش کے جنوب مشرقی علاقے میں واقع کاکس بازار میں شدید مانسونی بارش کی وجہ تودے گرنے سے اب تک 50ہزار روہنگیا پناہ گزیں متاثر ہوئے ہیں اوران پناہ گزینوں کی جھوپڑی نما 5000 پناہ گاہیں تباہ ہوگئی ہیں جبکہ اس کی وجہ سے کم از کم 10 افراد ہلاک ہونے اطلاعات ہیں ۔ بنگلہ دیش کے محکمہ موسمیات کے مطابق کاکس بازار ضلع میں اس ماہ کے آغازیعنی 2؍ جولائی سے اب تک کم از کم 58.5سینٹی میٹر(تقریباً دو فٹ)بارش ریکارڈ کی گئی ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ کاکس بازار ضلع میں میانمار میں فوج کی کارروائی کے بعد 10لاکھ سے زائد روہنگیا پناہ گزین مختلف راحت کیمپوں میں رہ رہے ہیں اور زیادہ تر خاندانوں نے رہنے کیلئے جھوپڑی نما گھر بنا رکھا ہے۔انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائگریشن (آئی او ایم)کے ترجمان کے مطابق جولائی کے پہلے دو ہفتوں میں پناہ گزین کیمپوں میں شدید بارش سے تودے گرنے کے واقعات پیش آئے جس میں تقریباً 4،889ترپال اور بانسوں سے بنائے گئے گھر تباہ ہوچکے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ پناہ گزینوں کے زیادہ تر کیمپ پہاڑی ڈھلانوں پر بنے ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ میانمار کی سرحد کے پاس بنے کیمپوں میں اپریل سے اب تک 200سے زائد مرتبہ تودے گرنے کے حادثے ہوئے ہیں اور کم از کم ان میں 10 لوگوں کی ہلاکت بتائی گئی ہے۔جبکہ اس دوران کل 50ہزار پناہ گزین متاثر ہوئے ہیں۔متاثرین کی امداد کا ایک بڑا مسئلہ رہتا ہے اور پھر تباہ کاریوں کے بعد جو امراض پھوٹ پڑتے ہیں اس سے بھی بچاؤ کاری کے انتظامات نہایت ضروری ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت اور عالمی ادارے ان متاثرین کے لئے کس قسم کے اقدامات کرتے ہیں۔
ٌٌٌ***

 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209693 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.