سیاسی جنونی اور تنہا انقلابی

ارے یہ کیا چونک گئے نا کیونکہ اخبارات اور نام نہاد میڈیا کی بدولت ہر پاکستانی کے ذہن میں مذہبی جنونیت اور جنونیوں کا ذکر اتنی کثرت سے آتا ہے کہ لوگ اس کو محاورتاً استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں لیکن شاہد وہ خود بی اسے ناواقف ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے ۔ لیکن مذہبی جنونیت کے مقابلے میں اگر ہم بات کریں سیاسی جنونیوں کی تو شاید ان کو کھنگالنا زیادہ مشکل نہیں ہے ۔ اور ان کی منافقت کی تو ایسی مثالیں ہیں کہ ایک تاریخ رقم ہو جاتی ہے ۔

پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے ۔ عوام بے حال ہے ، اور آئے رو نام نہاد وار آن ٹیریر کے نتائج بھگت رہی ہے لیکن جب یہی بد حال عوام اپنا ٹی وی آن کرتی ہے تو اس کو ایسے لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو جن کو خود انہوں نے ووٹ دیکر بھیجا ہے کوئی پروا ہی نہیں کہ ہم لوگ کس عذاب میں ہیں ۔ کوئی لندن بیٹھا ہے ، کوئی رائے ونڈ کے محلات سے نکلنے کو تیار نہیں اور کسی کو بیرون ملک پیسہ بھیجنے اور عوام کے خون سے پیسہ بنانے سے فرصت نہیں ۔

ان سیاسی جنونیوں کی وجہ سے ہی آج پاکستان کے یہ حالات ہیں، اور ہر آنے والا جنرل بھی یہی کہتا ہے کہ ہم خود نہیں آئے بلکہ ان سیاستدانوں کے کرتوت ہی ایسے ہیں کہ ہمیں بار بار مداخلت کرنا پڑی ہے ۔

ایک دوسرے کو منانے ، ایک دوسرے پر الزام لگانے ، اور اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے عوامی مجبوریوں کو اپنے مشنور کا حصہ بنانے والے یہ حکمران جن کو ذرا بھی عوامی مسائل کا اداراک نہیں ائے روز بیانات کی بوچھاڑ میں اپنا الو سیدھا کرتے نظر آتے ہیں ۔

لندن میں بیٹھ کر اور کراچی والوں کی جینا حرام کرنے والے نام نہاد لیڈر انقلاب کا نعرہ ہانکتا ہے تو دوسری طرف رائے ونڈ میں بیٹھا ہوا بادشاہ خود ہی کو انقلابی کہنا شروع کر دیتا ہے ، اور پھر ایک سر پھرا شخص چند کالم نگاروں کی رائے پر خود کو پاکستان میں انقلاب کا بانی سمجھنے لگتا ہے ۔ اور پھر ایوان صدر میں بیٹھا ہوا حاکم بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتا اور خود کو بھٹو ثانی بنا کر عوامی انقلاب کا ڈھونگ رچاتا ہے۔

یہ ہے کارستانی ہمارے سیاسی جنونیوں کی جن کو فکر ہے تو صرف اپنے پیٹ کی اور بات کرتے ہوئے ذرا بھی شرماتے نہیں کہ ہم لوگ متوسط طبقے اور عوامی مسائل کو حل کرنے کی جدو جہد کر رہے ہیں ۔

لیکن ان سب میں ایک جنونی ایسا بھی ہے جس پر مذہبی جنونی ہونے کا الزام بھی ہے اور وہ ان سب سے مخلتف بھی ، جو بولتا ہے تو بڑے بڑے اینکرز اپنی کینہ پوری کے ساتھ نڈھال ہو جاتے ہیں اور جب وہ للکارتا ہے تو حکمران میڈیا کے زور پر اس کی بات کو دبا دیتے ہیں ، اور جب وہ عظیم اسلامی انقلاب کی بات کرتا ہے تو امریکہ کے ایوانوں میں بیٹھ ہوئے سورماؤں پر لرزا طاری ہو جاتا ہے ۔ بھلے اس کے پاس اتنا پیسہ نہیں کہ وہ ایک ایک گھنٹے کی اپنی تقریر لائیو دکھا سکے اور نہ ہی اس کے پاس زر خرید کالم نگار ہیں ۔ لیکن اس کے پاس قوت ہے تو اصل عوام کی اور اسکے اپنے کردار کی ۔ جی ہاں اس مرد ِ مجاہد کا نام ہے سید منور حسن ، جس کی ہر بات میں حب الوطنی اور ہر بیان میں اسلامی حکمت کا درس ہے ۔

آئیے مل کر اس کے ہاتھ مضبوط کریں۔
Awais Aslam Mirza
About the Author: Awais Aslam Mirza Read More Articles by Awais Aslam Mirza: 23 Articles with 61540 views ایک عام انسان جو معاشرے کو عام سے انداز سے دیکھتا ہے ۔ .. View More