آزادجموں وکشمیر سپریم کورٹ کے زیر انتظام جوڈیشل کانفرنس
کے اعلامیہ میں اسلام آباد حکومت قومی اداروں اور قیادت کو متوجہ کرتے ہوئے
مظفر آباد گلگت بلتستان کو مزید آئینی انتظامی اختیار دینے اور خطوں کے
وسائل کے بہترین استفادے کے ساتھ یہاں کے عوام کیلئے روزگار آسودگی کا
آئینہ دار بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے‘ اس ایک روزہ کانفرنس کی
خصوصیت یہ تھی کہ اس میں چیف جسٹس اپیلنٹ کورٹ گلگت بلتستان شریک تھے،جنہوں
نے اپنی گفتگو میں گلگت بلتستان کے تناظر میں آزادکشمیر کی لیڈر شپ سے شکوے
بھی کیے تو چیف سیکرٹری مطہر نیاز رانا نے انتظامیہ کی طرف سے نمائندگی
کرتے ہوئے زور دیا‘ پاکستان کی طرح یہاں بھی تمام نظام کے ستونوں کو باہم
ربط میں لاتے ہوئے موثر عملدرآمد کارکردگی کو تقویت پہنچائی جائے‘ چیف جسٹس
ابراہیم ضیاء نے اپنے اختتامی کلمات میں نظام کی بہتری کیلئے سوالات بھی
اُٹھائے اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ جوڈیشل کانفرنس خلق خدا کی بھلائی اور
آسانیاں پیدا کرنے کے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے منعقد کی گئی اس کی سفارشات
میں سب کی تجاویز کو شامل کر کے عملدرآمد کی کاوشیں کی جائیں گی‘ اگرچہ
کانفرنس اس اعتبار سے نقطہ آغاز تھی کہ ماتحت عدلیہ کے ججز‘ جوڈیشل آفیسران
سمیت متعلقہ محکموں کے حکام ایک جگہ بیٹھے اور اپنے اندر خامیوں‘ کمزوریوں
سمیت ضروریات کی نشاندہی سامنے لانے کی کوشش کی گئی تو اپنے فریضے کو پوری
ذمہ داری سے ادا کرنے کی کاوش پر حوصلہ افزائی کا امر بھی ملحوظ خاطر رکھا
گیا‘ یہ مثال بظاہر کچھ نہیں مگر اپنی اہمیت افادیت کے حوالے سے بہت اثر
انگیز ہے کہ پرائمری‘ مڈل کلاسز میں لڑکے‘لڑکیاں اکٹھے پڑھتے ہیں تو اپنی
تدریسی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے مائل بہ محنت رہتے ہیں اور کام کرنے نہ
کرنے والوں کو ایک جگہ بٹھا کر ان کی کارگزاری دریافت کیجائے تو ناصرف
نفسیاتی اعتبار سے بغیر کچھ کہے کام کرنے والے کو تقویت ملتی ہے نہ کرنے
والے کو خفت کا سامنا رہتا ہے‘ اس حوالے سے ناصرف عدلیہ بلکہ تمام محکموں
اور شعبہ جات میں کیپیٹل سے ڈسٹرکٹ تک سطح پر آمنے سامنے بٹھا کر ایک ماہ
میں ایک دِن اپنی اپنی کارگزاری بیان کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے تو
محکموں کو بھی باہم منسلکہ اُمور میں ایک ساتھ بٹھا کر صحت مندانہ کارکردگی
بیانیہ پیش کرنے کے عمل کو لازم کرنا ہو گا جیسا کہ چیف سیکرٹری نے مثال دی
کہ سپریم کورٹ پاکستان کی نگرانی میں ماتحت عدلیہ انتظامیہ پولیس منسلکہ
شعبہ جات کے اجلاس مشترکہ ہوئے ہیں اور کارگزاری جانچنے سمیت حائل رکاوٹوں
ایشوز کو حل کرنے میں مدد ملتی ہے‘ اگرچہ ان خطوں میں مراعات سہولیات کے
مطالبات ایک عادت بن چکے ہیں‘ تاہم پہلے اپنی کارگزاری بتانے کی باری
تفرقات کوبیچ میں لانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے جیسا کہ چیف جسٹس نے سوال
اُٹھائے‘ 70 سال میں اسمبلی کے اندر غریب‘ یتیم‘ مساکین‘ عام آدمی کے مسئلہ
پر کتنی قراردادیں آئیں ان پر بحث ہوئی‘ بار ایسوسی ایشنز نے کتنی بار خلق
کے ساتھ زیادتیوں کے خلاف احتجاج کیا‘ میڈیا اس بارے میں کیا کر رہا ہے‘
پولیس مظلوم عام آدمی کی ایف آئی آر شاہراہ بند ہونے سے پہلے کیوں نہیں درج
کرتی اور ماتحت عدلیہ میں مقدمہ کا فیصلہ تیسری نسل کو جا کر کیوں ملتا ہے‘
سب ہی شعبہ جات کے متعلق حقیقت پسندانہ سوالات کے بعد معاشرہ امانت‘ صداقت
سے عاری ہونے کا نتیجہ نکالنا غلط نہیں ہے۔ منصب اختیار مواقعوں کو ایک
دوسرے کی کمزوریوں‘ بداعمالیوں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مزید برائی کا مرتکب
کر کے حق دار کا حق غضب کرنا ذلت رسوائی کو مقدر بنانا ہے‘ ایسے میں اپنی
آبادی رقبہ اور آدھے پاکستان کی آبادی رقبہ رکھنے والے پنجاب کے برابر
مراعات‘ سہولیات کے ساتھ ان کا کام اور اپنے کام کا تقابلی جائزہ لینا
چاہیے اور وہاں والوں کو یہاں جبکہ یہاں والوں کو وہاں کام کرنے کے راستے
پر عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے کم از کم اپنی ہائی کورٹ کے سال بھر میں
اعداد و شمار کے مطابق ایک دِن میں ایک جج کے ایک سے دو فیصلوں کی مثال کو
ایک فیصلے کی حد تک تمام عدالتوں کو اُصول بنانا چاہیے‘ یہی بات ہر ادارے
آفیسر کیلئے ہو آج کے دِن میں کون سا کام مکمل کیا ہے‘ چیئرمین انتظامی
جوڈیشل کانفرنس جسٹس راجہ سعید اکرم اور سفارشات کے عمل کو فائنل کرنے کا
فریضہ نبھانے والے جسٹس غلام مصطفی مغل کو یہ دسترس حاصل ہے وہ ناصرف تجویز
بلکہ اس کا حل بھی بتائیں گے یہ کتنی بڑی ناانصافی اور نااہلی ہے کہ مراعات
کیلئے اسمبلی کے اندر مقبوضہ کشمیر میں اسرائیل اسمبلی کے اختیارکردہ قانون
سازی کو محبوبہ بنا لیا جاتا ہے مگر انگریز کا وہ پولیس ایکٹ جو برصغیر
سمیت یہاں کے عوام کو اپنے بظاہر مسلم ایجنٹوں کے ذریعے دبا کر بے زبان
جانور کی طرح رکھنے کیلئے بنائے گئے ہیں ان کو بدلا نہیں گیا‘ بھارت‘ بنگلہ
دیش حتیٰ کہ پاکستان میں بدل چکے ہیں مگر یہاں والے ٹوٹی‘ نلکا‘ سکیم‘ چیک
سے آگے سوچیں گے تو کچھ ہو گا یہ تو اپنی اپنی براہم ذات جبلت سے باہر کسی
کو کھڑا دیکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں‘ بہرحال جوڈیشل کانفرنس کے انعقاد پر اس
کے تمام منتظمین کیلئے مبارکباد بنتی ہے کہ اچھی مثال قائم کی ہے جس کا
تسلسل جاری رہنا چاہیے اور انگریز جج یہاں واپس برطانیہ لمبی چھٹی لیکر
جاتے تھے اس بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔۔۔؟
|