سیلاب زدگان کی تباہ حالی اور امریکی دورہ

دورہ امریکہ آج کل سب کے سروں پر ہوا بن کر چھایا ہوا ہے سب کی نظریں اس دورہ کی کامیابی پر ٹکی ہیں، ۔سنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کے لئے یہ دورہ بہت اہم ہے، اور اس کی کامیابی پاکستان کی معیشت میں اہم سنگ میل ثابت ہو گی، امریکہ سے شاہ محمود قریشی کا خودارانہ بیان بھی سنا کہ ہم یہاں ایڈ کے لئے نہیں بلکہ ٹریڈ کے لئے آئے ہیں، اب یہ "ٹریڈ" کس نوعیت کی ہے یہ تو ہم نہیں جانتے لیکن خدا کرے کہ مشرف صاحب جیسی "تجارت"نہ ہو مزید یہ بھی سنا کہ ہم ہاتھ میں کشکول لے کر نہیں آئے تو ناجانے کیوں حکومت کے سابقہ دورے یاد آ گئے اور اس لطیفے پر بے سا ختہ ہنسی آ گئی۔

عمران خان صاحب کی تقریر وہی رٹی رٹائی چور چور کی صدائیں لگا رہی تھی اس کے علاوہ شاید ان کے پاس کہنے اور کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ اب تو کان ان کی یہی گردان سن سن تھک گے ہیں لیکن شاید وہ مستقل مزاج ہیں کہ ایک ہی بات کر کر کے ان کا جی نہیں بھرتا۔ ایک سابقہ حکومت کے علاوہ نہ ان کا کوئی ٹارگٹ نظر آتا ہے اور ہی ملکی حالات سے کوئی دلچسپی۔۔

لوگ بھوک سے مر رہے ہیں ، ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری سے عوام میں مایوسی اور جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے لیکن حکومت ڈھٹائی سے سارا تماشا دیکھ رہی ہے، اونچے ایوانوں میں بیٹھ کر لگژری سہولیات سے مزین زندگی گزارنے والے اگر ایک دن خط غربت سے نیچے رہنے والے غریب کی زندگی گزار کر دیکھ لیں تو انہیں پتا چلے کہ محرومی، غربت اور بھوک کی زندگی کیا ہوتی ہے، لیکن ہمارے کلچر میں وزیر صاحبہ روزانہ نیا قیمتی جوڑا پہن کر اور منہ پر چالیس ہزار کا میک اپ تھوپ کر ٹی وی پر ناجانے غریبوں کا نمائندہ بن کر آتی ہیں یا سال کے سال ایک جوڑا بنانے والے غریب کا دل جلانے آتی ہیں، کیا یہ ہے قیادت، کیا یہ ہے عوام کا درد، یہ لوگ غریب کے لئے کیسے کچھ کر سکتے ہیں جنہیں پتا ہی نہیں کہ غربت ہوتی کیا ہے۔ بھلا کنارے پر کھڑے ہو کر بھی گہرائی کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے، لیکن یہ حکمران ڈوبتی ہوئی عوام کو زبانی کلامی طور یقین دلاتے رہتے ہیں کہ ان کو گہرائی کا اندازہ ہے اور وہ دریا میں اترے بغیر ہمیں بچانے کی کوشش میں مصروف ہیں اور ہم نادان آخری سانس نکلنے تک ان کے وعدوں کا اعتبار کرتے رہتے ہیں۔

پاکستان کے حالات آج کل اس قدر نازک ہیں ہر گزرتے دن کے ساتھ سیلاب کہیں نہ کہیں تباہی مچا جاتا ہے ہزاروں ایکڑ اراضی سیلاب کی تباہ کاری کا شکار ہو چکی ہے غریب کسان کی سال بھر کی محنت اس کے منہ کا نوالہ، سوکھی روٹی کا آسرا بھی پانی بہا لے گیا ہے، سینکڑوں انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ غریب کی کل پونجی اس کی گائے، اس کی بھینس، اس کی بکری اس کا گھر اور سب سے بڑھ کر اس کی آنکھوں کے خواب سیلاب اپنے ساتھ بہا کر لے گیا، اس سب کے ساتھ شاید اس کے جینے کی امید بھی سیلاب کے پانی میں ناجانے کہاں سے کہاں ان کی پہنچ سے دور چلی گئی ہے، سینکڑوں چھوٹے دیہات اور بستیاں اجڑ گئیں ہیں، اور ہزاروں لوگ بے سر وسامانی کے حالات میں بھوک پیاس اور وبائی امراض سے لڑ رہے ہیں لیکن ریاست مدینہ کے دعوے کرنے والے اور حضرت علی اور حضرت عمر کے اقوال ٹویئٹ کر کے سستی شہرت حاصل کرنے والے ہمارے لگژری حکمران سیاسی مخالفین کو کچلنے اور اپنی خارجہ پالیسی کی کامیابی کے ڈونگرے برسانے میں اس قدر مصروف ہیں کہ ان کو نہ تو یہ سیلاب کے مارے نظر آتے ہیں اور نا ہی اپنی دھاڑوں اور چنگاڑوں میں ان کی چیخیں سنائی دیتی ہیں، فرات کے کنارے بکری کا بچہ مرنے پر ذمہ دار ہونے اور راتوں کو بھیس بدل کر غریب عوام کو روٹی مہیا کرنے والے حضرت عمر کی مثالیں دینے والوں کو ستلج، جہلم اور راوی میں بہنے والے جانور کیوں نظر نہیں آتے ہزاروں بے گھر اور بھوکے انسانوں کی بےبسی اور بھوک کیوں دکھائی نہیں دیتی، اگر امریکی دورے کی پبلیسٹی کے بعد کچھ وقت حکمرانوں کے پاس بچ جائے تو زرا اک نگاہ کرم اس طرف بھی ہو جائے۔
 

Sobia Zaman
About the Author: Sobia Zaman Read More Articles by Sobia Zaman: 12 Articles with 14288 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.